ہالی ووڈ مووی Passengers

جمعرات 9 جولائی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

انسان ایک معاشرتی حیوان ہے یعنی یہ کہیں بھی اکیلا exist نہیں کر سکتا چاہے اسے دنیا بھر کی سہولیات دنیا بھر کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ survival equipment دے دیئے جائیں جہاں اسے پانی پینے کے لئے بھی پاؤں پر زمین نہ رکھنا پڑے صرف لب ہلانے کی دیری ہو اور روبوٹ پانی کا گلاس لے کر اسکےلبوں تک ان پہنچے اگر اتنی سب آزادیاں دے کر اسے اس زمین سے دور کسی دوسرے plannet پر چھوڑ دیا جائے جہاں اور کوئی انسان نہ بستا ہو بس یہ ہو اور چاروں طرف robots ہی robots ہوں وہاں بھی یہ انسان پہلے چند دن تو بہت ہی ہنسی خوشی کاٹ لے گا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ سبھی چیزوں سے اکتا جائے گا کیونکہ یہ ایک social animal ہے اسے زندہ رہنے کے لئے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے پھر چاہے وہ کسی سے چند پل بات کر کے ہو یا کسی کو زندگی بھر کے کے لئے اپنا life partner چن کر ہو پھر چاہے وہ بچے پیدا کر کے ان کے لئے روزی روٹی کمانے میں جت کر اپنا وقت گزارے یا کام کاج سے تھک کر اپنے دوستوں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ گپیں لگا کر روح کی تسکین کرے
2016 میں''passengers""کے نام سے ایک ہالی ووڈ مووی بھی کچھ ایسا ہی تجربہ کرنے کی نظر سے اسی نظریے کو سامنے رکھ کر بنائی گئی تھی جس میں قریب اسی لوگوں کو نیند کا انجیکشن یا یوں کہہ لیں کہ نیند کی دوا دے کر اک بہت بڑے سے ائیر شپ میں  الگ الگ باکسز میں بند کر دیا گیا تھا جن باکسز کو sleeping chamber کا نام دیا گیا تھا ایسے باکسز جس میں آکسیجن لامحدود رکھی گئی تھی جس میں بند رہ کر بھی ان پسنجرز کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا تھا اس تمام تر کھیل کا مقصد صرف اور صرف ایک تجربہ کرنا تھا کہ آیا کہ ایسے ماحولّ میں رہنے کے بعد انسانی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ان باکسز کی سیلنگ کچھ یوں کی گئی تھی ان injection کی مدت کچھ یوں رکھی گئی تھی کہ آیا کہ اس شپ کے زمین پر اترنے تک کوئی نیند سے نہ جاگ سکے لیکن اگر سبھی سوتے رہتے تو مووی کیسے بن پاتی بعدازاں کسی technical faultکی وجہ سے ایک نوجوان کا سلیپنگ چیمبر بگڑنے کی وجہ سے اسے نیند سے جگا دیا جاتا ہے جب وہ جاگتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اسے شپ کو زمین سے ہوا میں بھیجنے اور واپس آنے کے لئے قریب قریب اسی برس کا وقت درکار ہے جسکا ابھی دو فیصد بھی نہیں گزر پایا تو وہ نوجوان بڑبڑا جاتا ہے اس تمام تر فلم کا مقصد یہ بات جاننا تھی آیا کہ اگر ایک انسان کو جدید مشینری سے لیس ایک ہال ایک کئی سو مربع میل تک پھیلی لمبی چوڑی "Air ship"دے دی جائے جس میں نا ختم ہونے والا فیول بھر کر کھلے آسمان میں ایک یا دو برس کے لئے نہیں بلکہ اسی سے نوے برس تک کے لئے چھوڑ دیا جائے اور جب تک اس میں سیٹ کردہ ٹائم اپنے اختتام کو نہ پہنچے وہ بس خلا میں ہی چکر لگاتی رہے جس میں صرف ایک بٹن دبانے کی دوری تک دنیا جہاں کی ہر شے کھل کر آپ کے سامنے پیش کر دی جائے جہاں ہر انسان کی من چاہی زندگی جہاں حدنگاہ تک بلٹ پروف پولز اورر رہنے کو بلٹ پروف کمرے ہوں لیکن وہاں اس شپ میں آپ کے پاس چند ایک روبوٹس اور ریکارڈنگ مشینری کے سوا آپ سے بات کرنے کے لئے اور کوئی موجود نہ ہو تو آیا کہ وہاں اس social animal کا گزر بسر ہو سکے گا؟ آیا کہ کیا یہ وہاں ایسے ماحول میں survive کر پائے گا۔

(جاری ہے)


لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بتایا اور جسے سائنس بھی تسلیم کرتی ہے کہ انسان کہیں بھی اکیلا سروائیو نہیں کر سکتا انسان کو کھانے پینے کھیلنے کودنے enjoy کرنے کے ساتھ ساتھ ایک خاندان کی ایک معاشرے کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس میں رہ کر ان سے تعلقات بنا کر ایک اچھی اور خوشحال زندگی گزار سکے ہر ایک انسان کی ایک دلی خواہش ہوتی ہے اسکی شادی ہو اسکے بچے ہوں جن کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وہ کام کر سکے پیسہ کما سکے ان کے لاڈ نخرے اٹھا سکے  وگرنہ یہاں بن بیاہے سے تو سبھی آنکھ بچا کر ہی گزرتے ہیں آپ نے اکثر دیکھا ہو گا جن couples کے ہاں اولاد نرینہ نہیں ہوتی وہ اکثر اداس رہتے ہیں انکا کہیں آنے جانے کا دل نہیں کرتا بس بجھے بجھے سے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کیونکہ ان کی دلی حسرتیں ادھوری رہ جاتی ہیں
آجکل تو خیر ایڈوانسمنٹ اور جدید ترین ٹیکنالوجی نے ویسے بھی دور رہ کر بھی انسانوں کو قریب ترین رکھا ہوا ہے اگر ہم بات کریں آج سے صدیوں پہلے کے اس وقت کی جب انسان جنگلوں میں رہتا تھا جب نہ تن پہ پہ پہننے کو کپڑا تھا نہ کھانے کو اچھی خوراک تھی نہ ہوا کھانے کو اے۔

سی تھے نہ پینے کو ٹھنڈا پانی لیکن اس وقت بھی یہ معاشرتی حیوانیت یوں ہی برقرار تھی انسان اس وقت بھی ایک دوسروں کے قریب قریب رہتے تھے وقت گزارنے کے لئے اپنا گزر بسر کر نے کے لئے اک دوجے سے چیزوں کی ادلہ بدلی کرتے تھے انسان تب بھی اک دوجے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے کیونکہ اکیلا رہ پانا انسانی فطرت میں شامل نہیں ہے یہ ہمیشہ معاشرہ بنا کر رہتا ہے
اب آپ پل بھر کو سوچیں یہی انسان اک ایسے ماحول میں اک ایسے سیارے پر کیسے گزارا کر سکے گا جہاں صرف اور صرف اس انسان کے سوا اور کوئی بھی نہ ہو چند ایک مشینری کے سوا لیکن اس مووی کی اسکرپٹ میں بعدازاں دنیا کو بتلانے کے لئے writer نے اس جگتے نوجوان کی مدد سے ایک اور سلیپنگ چیمبر خود بگاڑ کر ایک نیند میں سوئی خوبصورت نوجوان لڑکی کو جگا دیا جسکا مقصد دنیا کو یہ بھی بتلانا تھا کہ آیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے ہر چیز پر قبضہ رکھتا ہے جہاں سب پھنس چکے ہوں وہاں خدا ایک انسان کی مدد سے بچ نکلنے کا رستہ بھی نکال دیتا ہے بعدازاں کئی دلخراش مراحل سے گزرتے ہوئے کئی ساری تلخیوں کا سامنا کرتے ہوئے وہ نوجوان اور لڑکی وہیں اوپر اسی شپ میں اپنی جان گوا بیٹھتے ہیں لیکن سب کو بتا جاتے ہیں کہ دو اور دو گیارہ ہوتے ہیں اگر انسان کے ساتھ رہنے کو اسکا ساتھ دینے کو ذیادہ نہ سہی کم سے کم ایک ساتھی ہو تو وہ خود پر آئی کسی بھی مصیبت کا سامنا کرنے کی جرآت رکھتا ہے وہ ہر طوفان سے لڑ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اکیلا نہ ہو کیونکہ عموما انسان دوسروں کے لئے جیتا ہے بہت کم ایسے انسان ہوتے ہیں جو اپنے لئے جیتے ہیں بنا دوسروں کی پرواہ کیے۔

۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :