خصوصی افراد کا عالمی دن اور اصلی ہیرو

بدھ 4 دسمبر 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 3دسمبر کو خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جا تا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خصوصی افراد کے مسائل کو اجاگر کرنا اور انکی قابلیت،استعداد کو بڑھانا ہے۔ دنیا بھر میں اس دن سرکاری و نجی اداروں، این جی اوز اور سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینار ز، ورکشاپ اور مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

سرکاری سطح پر سپیشل ایجوکیشن سنٹرز میں تقریبات کا انعقاد ایک روایت بن چکی ہے۔ اخبارات کی خبروں اور فوٹو سیشن تک معاملات ٹھیک ہیں۔ خصوصی افراد کی فلاح و بہبود کیلئے ڈس ایبل پرسن ایمپلائمنٹ ایند ری ہیبلیٹیشن آرڈیننس 1981ء بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود معذور افراد اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ شہباز شریف کے دور حکومت میں نابینا افراد پر لاٹھیا ں بھی برسائی گئیں۔

(جاری ہے)

قانون کے مطابق ملاز متوں میں خصوصی افراد کا 2فیصد کوٹہ متعین ہے۔
مفت علاج کی سہولت، فیس کی معافی، دیگر سہولیات بھی اس قانون کا حصہ ہیں۔ مگر اسکے با وجود خصوصی افراد کے مسائل حل طلب ہیں۔
قارئین کرام! ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں یہاں خصوصی افراد سے ہمدردی اور رحم کے جذبات تو دیکھنے کو ملتے ہیں مگر ان میں ہمت اور حوصلہ بڑھانے کی کوششیں کم ہی نظر آتی ہیں۔

آسان الفاظ میں کہوں تو ان افراد کو معاشرے کے کار آمد شہری بننے میں ہم ان کی مدد نہیں کرتے۔ اگر منظم طریقے سے ان افراد کو ڈیل کیا جائے تو بہت سے گوہر نایاب سامنے آئیں گے۔تعلیم کے ساتھ ان افراد کیلئے تفریح کے مواقع میسر ہوں تو انکی ذہنی صلاحیت میں بہتری آسکتی ہے مگر ہمارا المیہ ہے کہ ہم ان افراد کومعاشرے پر بوجھ ہی سمجھتے ہیں۔ دنیا بھر میں خصوصی افراد کیلئے سپیشل کاؤنٹر، عمارات میں داخلے کی جگہ اور دیگر سہولیات میسر ہوتی ہیں۔

مگر پاکستان میں تعمیرات کے وقت دھوپ، ہوا، روشنی اور نکاسی فراہمی آب سمیت پارکنگ کو مد نظر نہیں رکھا جاتا تو ایسے میں خصوصی افراد کیلئے اہتمام کیسے ممکن ہے۔
ریاست کی طرف سے خصوصی افراد کیلئے رعائتیں دینے سے انکے مسائل حل نہیں ہو سکتے، اسکے لئے اخلاقی و سماجی معاونت ضروری ہے۔ احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے اپنے پن کے احساس کا جگانا لازم ہے۔

پاکستان میں خصوصی افراد کیلئے قانون تو موجود ہے تعلیمی ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔ خصوصی افراد کیلئے عالمی دن کے موقع پر ان اداروں میں تقریبات کا بھی اہتمام ہوتا ہے مگر اس کے بعد عام آدمی اور معاشرہ ان افراد سے غافل ہو جاتا ہے۔امسال راقم الحروف سپیشل ایجوکیشنل سنٹر لہرا سب ٹاؤن رینالہ خورد عالمی دن کے حوالہ سے منعقدہ تقریب میں شریک ہوا۔

اس پروگرام سے قبل خصوصی افراد سے اظہار یکجہتی کیلئے الخدمت ویلفئیر کونسل، انجمن بہبودی خواتین اور کئیر برج سنٹر کی جانب سے اظہار یکجہتی کی واک کا اہتمام کیا گیا۔ خصوصی افراد کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ انہیں ملازمتوں میں 3فیصد کوٹہ دیا جائے اور میں نے جس چیز کو شدت سے محسوس کیا یہ خصوصی افراد وقتی ہمدردی اور امداد کے طلبگار نہیں، یہ اپنی زندگی میں مشکلات سے لڑنے کیلئے ہمارا ساتھ چاہتے ہیں، انہیں ہماری طرف سے حوصلہ افزائی کی خواہش ہے اوریہ اپنی زندگی خود جینا چاہتے ہیں۔

یہ افراد اپنے خاندان کی کفالت کے خواہشمند ہیں انہیں ہم سے شکوہ ہے کہ ہم عالمی دن کے موقع پر اظہار یکجہتی کے بعد انہیں بھول جاتے ہیں اور اپنی پر آسائش زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ جبکہ یہ افراد حالات سے تنہا لڑتے رہتے ہیں۔ مجھے آج احساس ہوا کہ میرے محترم دوست سید ندیم مقصود جعفری کتنے عظیم انسان ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر اپنا وقت خصوصی بچوں کے ساتھ گزارتے ہیں اور وہ بچے ان سے ملکر دلی طور پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔

سید ندیم مقصود جعفری نے مجھے بھی ترغیب دی کہ خصوصی افراد کیلئے وقت نکالنے سے حقیقی مسرت میسر آتی ہے اور ان افراد سے محبت سنت نبوی بھی ہے اور صدقہ جاریہ بھی۔
سید ندیم مقصودجعفری کی وساطت سے سپیشل ایجوکیشن سنٹر میں تقریب میں شریک ہوا۔ تقریب کی مہمان خصوصی اے سی قدسیہ ناز تھیں جن کا ادارہ کے طالبعلموں نے بھر پور استقبال کیا۔ تقریب میں مجھے یہ احساس ہوا کہ آج کا دن ان بچوں کیلئے عید سے کم نہیں۔

ادارہ کے اساتذہ کرام کے ساتھ علاقہ کی معزز شخصیات انکے والدین ایک جگہ انکی خوشیوں میں شامل ہیں۔ مجھے ان معصوم چہروں پر وہ چمک نظر آئی جو انکے مستقبل کو روشن کر سکتی ہے۔3دسمبر خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پر برادرم عمر جاوید چوہدری نے ایک ایسے سپیشل فرد سے بات کروائی جس نے معذوری کو کمزوری نہیں سمجھا اور اپنے حالات کو خود درست کر دکھایا۔

شاہ کوٹ کا رہائشی 20 سالہ رانا مدثر ہڈیوں کی کمزوری کے مرض میں مبتلا ہے اور اپنے پاؤں پر بھی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ سکول میں تعلیم اس لئے جاری نہ رکھ سکا کہ ہر وقت ایک ایسے فرد کی ضرورت رہتی جو اسے حرکت کرنے میں مدد کر سکے، سکول سے نکال دیا گیا مگر اس با ہمت انسان نے سکو ل کے دروازے بند ہونے کے بعد خود اپنی قسمت کے دروازے کھولنے کا فیصلہ کیا اور دوستوں سے کمپیوٹر سیکھ کر آن لائن ورکنگ شروع کی۔

آج الحمداللہ وہیل چئیر پر بیٹھا رانا مدثر اپنی خواہش کے مطابق ماہانہ ہزاروں نہیں لاکھوں روپے کما رہا ہے۔ مجھے رانا مدثر سے بات کر کے بہت خوشی ہوئی، میرے نزدیک یہ کسی ہیرو سے کم نہیں کیونکہ اس عظیم انسان نے اپنی معذوری کو کمزوری نہیں بننے دیا اور ہمت سے حالات کو شکست دی۔ آج رانا مدثر طلبا کو آن لائن ورکنگ کی کلاسز بھی دیتا ہے، با ہمت لوگوں کیلئے رانا مدثر ایک اعلیٰ مثال ہے۔

بحیثیت شہری ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہمیں جہاں موقع ملے ہم خصوصی افراد سے ہمدردی کے ساتھ انکی رہنمائی کریں، انکے حقوق کیلئے آواز بلند کریں اورا نکا حوصلہ کبھی بھی نہ ٹوٹنے دیں۔ رانا مدثر جیسے مثالی کرداروں کو خصوصی افراد کے سامنے بیان کریں۔سید ندیم مقصود جعفری جیسی شخصیت کی پیروی کرتے ہوئے 3دسمبر ہی نہیں روزانہ یا ہفتہ وار خصوصی افراد کو وقت دیں۔یہ سماجی خدمت معاشرہ میں خصوصی افراد کو مضبوط بنیاد فراہم کرے گی۔نیکی کے حصول کے ساتھ معاشرہ میں احساس، محبت اور مثبت رویے بھی پروان چڑھیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :