پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ اور معاشرتی ردعمل

جمعہ 20 دسمبر 2019

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

سیاسی مقاصد و مطالبات کیلئے احتجاج، دھرنے ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ اقتدار اور سیاسی طاقت ان خواہشات کی تکمیل کے چکر میں کیا کیا کھیل کھیلے گے اور کھیلیں جائیں گے۔ ملکی معیشت برباد، غیر ملکی قرضوں کا بوجھ، لسانیت اور سیاسی تعفن زدہ ماحول میں اصولی اور نظریاتی سیاست نا ممکن نہیں مشکل ضرور ہے۔ بے اصول سیاستدان بڑے بڑے القابات سے پکارے جانے کے خواہش مند ہیں۔

 
کرپشن کے الزامات میں پکڑے گئے تو دستار فضیلت پہن کر قوم کو بتلا رہے ہیں کہ ہمارے خلاف سازش ہوئی اور انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ کورٹ نے فیصلہ کیا نہیں کروایا گیا ہے۔جب ضمانت مل جائے تو قانون اور انصاف کی فتح۔ اگر فیصلہ خلاف آ جائے تو بغض سے بھرے جج، سزا یافتہ لیڈروں کیلئے 50روپے کے اشٹام پر ضمانت۔

(جاری ہے)

نجانے دیکھنے والی آنکھ کیا کیا دیکھتی رہی۔

قانون کا مذاق اڑانے والے یہ سیاستدان کیمروں کے سامنے اداروں پر فقرے بازی کرتے ہیں۔ اداروں پرالزامات لگا کر کم ظرفی کا ثبوت دیتے رہے۔ستم ظریفی یہ کہ قوم ابھی نہال ہاشمی کو نہیں بھولی کہ آج یہی سیاسی گروہ سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کیخلاف خصوصی عدالت کے فیصلہ پر نہال ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے انہی عدالتوں میں بیٹھے یہ جج غصے اور بغض سے بھرے تھے اور آج انصاف پسند ہوئے۔

ملک میں یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ کیا یہ ایسے ہی چلتا رہے گا؟ عام آدمی الجھن کا شکار ہے۔سیاست، سیاسی ایجنڈا اپنی جگہ، ملکی اقتدار پر نسل در نسل قبضہ کے خواہشمند اب اداروں کو کمزور کرنے کے مشن پر کاربند ہیں۔
 سابق صدر و آرمی چیف (ر) جنرل پرویز مشرف کیخلاف اختلافی فیصلہ جبکہ اس سے ایک روز قبل آرمی چیف کی توسیع کے بارے میں تحریری عدالتی فیصلہ آیا، اس مسئلہ پر بھی خوب سیاست بازی ہوئی، ابھی اس شور و غل کی آوازیں نہیں دبی تھیں اورگرد ابھی نہیں چھٹی تھی کہ پرویز مشرف کیخلاف فیصلہ آ گیا۔

 
قارئین کرام! عدالتی فیصلوں پر قانون دان ہی رائے دینے کا حق رکھتے ہیں۔ ملک کے نامور قانون دان اس فیصلہ سے اختلاف کر رہے ہیں۔ قانونی پیچیدگیوں پر بات ہو رہی ہے۔ ایک واضح رائے ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔فیصلے میں اختلافی نوٹ شامل ہے۔ اختلافی نوٹ کے مطابق پرویز مشرف کا 3نومبر کا اقدام سنگین غداری نہیں تھا۔اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کرتے وقت زیادہ تر پارلیمنٹیرین وہی تھے جو ستارہویں آئینی ترمیم کے وقت تھے۔

پارلیمنٹ کا آرٹیکل 6میں ترمیم کا ارادہ تھا تو اس کا اطلاق ماضی سے ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ نے سنگین غداری کے جرم میں ترمیم کر کے دانستہ طور پر 3نومبر 2007کے اقدام کی توثیق کی۔
راقم الحروف کا تعلق قلم اور عام آدمی سے ہے اس لئے ہمیشہ اسی موضوع پر قلم اٹھانے کی جسارت کیے دیتے ہیں جس کے بارے کچھ آگاہی ہو،قانونی معاملات پر حتمی اور مستند رائے تو اہل قانون ہی دیں گے۔

خصوصی عدالت کا فیصلہ قانونی بنیادوں پر ہی دیکھا جائے گا۔ سیاست کے ادنیٰ طالبعلم ہونے کے ناطے سیاست پر بات کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اس فیصلے سے پہلے اداروں میں خلیج پیدا ہونے کے اشارے مل رہے تھے۔فیصلہ آنے پر ترجمان پاک فوج نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ عوامی سطح پر بھی اس فیصلے پر شدید تشویش اور بے چینی سامنے آئی۔پرویز مشرف اور پاک فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں مظاہرے کیے گئے۔

عوامی جذبات اور احساسات کو راقم الحروف نے اوکاڑہ پریس کلب کے باہر ہونے والے مظاہرے میں بچشم دیکھا۔سیاسی نظریات سے بالا تر، انفرادی مفادات کو پس پشت ڈالے یہ مظاہرین پاک فوج اورسابق سپہ سالار کو کسی صورت غدار ماننے کو تیار نہیں۔ کیونکہ وطن سے محبت کرنے والے، جان قربان کرنے اور اسکے دفاع کیلئے لڑنے والے اپنے سپاہیوں، سپہ سالاروں کے ساتھ یہ لفظ، یہ الزام، یہ جرم کسی صورت ماننے کو تیار نہیں ہوں گے۔

جغرافیہ زندہ حقیقت ہے اور تاریخ ایک حکایت، جغرافیے کے محافظ ہی صحیح معنوں میں محب وطن ہوتے ہیں۔سپاہی کی رگوں کا گرم لہو دیس کے چہرے کو نکھارتا ہے۔پاک فوج بحثیت ادارہ ہر پاکستانی کے لیے قابل رشک ہے۔
# ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت تو یہ جرم
 سدا میرے حسابوں میں رہے گا
سول و فوجی کشمکش اور سوچ کا فرق سیاست کی حد تک ہو سکتاہے مگر اس قدر منفی رویے کہ وطن کے محافظوں پر شک و شبہ اور الزامات عام آدمی یہاں تک نہیں جا سکتا۔

یہ ہیں عوامی جذبات اور عام آدمی کے احساسات۔ قانون، آئین،قواعد و ضوابط، فیصلے، تشریحات اس پر رائے زنی میری فہم و فراست سے باہر ہے۔ سطور بالا میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں اس فیصلے کے قانونی پہلوؤں پر مستند رائے تو قانون دان ہی دے سکتے ہیں۔ لیکن پاک آرمی کی طرف سے آنے والا رد عمل اور عام آدمی کا صدر پرویز مشرف کیلئے باہر نکلنا فطری ہے۔

افواج پاکستان جو ملک کا سب سے منظم، مضبوط ادارہ ہے سیاسی موضوعات پر بات نہیں کر سکتا۔پیشہ ور سپاہی کی اپنی ذمہ داریاں ہیں جبکہ سیاستدان تو کچھ بھی کہنے میں آزاد ہیں۔عام آدمی اگر سیاسی لیڈروں سے محبت کرتا ہے تو یہ اسکے نظریات ہیں لیکن جب عام آدمی پاک فوج سے محبت کرتا ہے تو یہ اس کی حب الوطنی ہے۔ یہ اس ادارے پر اسکا اعتماد ہے۔ پاکستان ہے تو سیاسی میدان لگے رہیں گے دفاع وطن کیلئے مضبوط فوج ہے تو وطن عزیز کی سلامتی پر آنچ نہیں آ سکتی۔

سیاسی حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن اداروں کا تقدس اور احترام ہرگز کم نہیں ہونا چاہئے۔ کتنی بد قسمتی کی بات ہے جب حالات ایسے موڑ پر پہنچ جاتے ہیں کہ سیاستدان سیاسی میدان میں کسی بھی نتیجہ پر نہیں پہنچتے تو سخت اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں یہ ملک بچانے کیلئے آخری کوشش ہوتی ہے۔تاریخ گواہ ہے جنرل پرویز مشرف کے بر سر اقتدار آنے پر عوام نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔

سیاست نام ہے عوامی مسائل کے حل کا۔سیاست نام ہے ملک کو مسائل سے نکالنے کا، جب ملک کے مسائل کم نہ ہوں اور بڑھتے ہی چلے جائیں تو عوام کسی کی طرف تو ضرور دیکھے گی۔اداروں کی حدود ہیں، بے لگام تو سیاسی میدان میں بھی گھوڑے نہیں دوڑائے جا سکتے۔
طیارہ ہائی جیکنگ میں سزا ہو تو صدارتی اختیارات سے معاف ہو جائے۔ عدلیہ سے سزا ہو تو 50روپے کے اشٹام پر ضمانت بھی مل جائے، مگر 40سال ملک کے سب سے مضبوط ادارے کیلئے خدمات انجام دینے والے کو قانونی امور پر سزا سنائی جائے وہ بھی اپنی نوعیت کے ایسے پہلے کیس پر کہ سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد اسکی غیر حاضری میں سنایا گیا ہو۔

حکومت وقت بھی کہے کہ عدالتی فیصلے میں سقم موجود ہے۔ پانچ چارج فریم کئے گئے اور ہر جرم میں ایک بار سزائے موت دی جائے۔ اگر مجرم سزا سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کی لاش کو ڈی چوک میں 3روز تک لٹکایا جائے۔یہ کونسا قانون ہے۔ ملک کے کس قانون میں لکھا ہے۔تاریخ میں ایسا کب ہواکہ لاشیں چوراہوں پر لٹکتی ہوں؟ کیا اس طر ح کی باتیں قانون اور آئین کی بالا دستی ہیں۔

اداروں کے درمیان تصادم کی خواہش اور کوششوں نے ستر سال میں ملک کو بہت نقصان پہنچایا اور صورتحال آج بھی نہیں بدلی۔عدالتی فیصلے قانون کے مطابق ہوں اور ان میں جذباتیت کا عنصر نہ ہو عدالتی فیصلے میں مصلحت کا پہلو بھی ہرگز محسوس نہیں ہونا چاہئے۔ سب سے بڑھ کر عدالتی فیصلے عوامی قبولیت کی سند کے ساتھ ہوں تو ملک و قوم کیلئے بہتر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :