سزابرابر ملے گی

جمعہ 11 دسمبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

 تبدیلی سرکار آئی۔ نعرہ تھا ''نیاپاکستان'' بنیادی سہولیات کی یقینی فراہمی،کرپشن کا خاتمہ،ایسا گمان تھا کہ اب''ریاست ہوگی ماں کے جیسی''۔ مگر آقاوں کی تبدیلی کے علاوہ بدلا کیا۔۔۔؟ یہ سب بخوبی جانتے ہیں۔الامان الحفیظ!
قارئین کرام! کہنے لکھنے اور سننے کو بہت موضوعات ہیں۔ لیکن آج جس موضوع پر اپنے مشاہدات اور خیالات کو قرطاس پرمنتقل کرنیجارہا ہوں اس کیوجہ برادرم جاوید کمیانہ سے فون پر ہونے والی گفتگو ہے۔

آپ شعبہ صحافت سے منسلک ایک نفیس شخصیت ہیں۔ آپکی تحریر و تکلم میں شائستگی غالب ہیلہذا کبھی شکوہ شکایت کرتے نہیں پائیگئے۔گزشتہ روز بات ہوئی تو قدریاضطراب میں مبتلا محسوس ہوئے۔ موضوف لیسکو کے رویے اور بدانتظامی پر کالم لکھنے میں مصروف تھے جوشائع ہوکر قارئین تک بھی پہنچ چکا ہیاور راقم الحروف نے بھی پڑھا۔

(جاری ہے)

''لیسکو کا نیا پاکستان'' کے عنوان سے جاوید کمیانہ کی آپ بیتی پڑھنے کے بعد یہ کالم لکھنا اپنا صحافتی فرض سمجھا کیونکہ مجھے ہے حکم اذاں لا الہ اللہ۔


صحافی کا کام ہی مسائل کی مسلسل نشاندہی کرتے رہنا ہے۔ ویسے تو بیشتر لیسکو افسران اہلکار سب اپنی ذات میں انجمن ہیں کیونکہ سرکاری ملازمین وقت گزاریں یا کام کریں انہیں کارکردگی کی بنیاد پر تنخواہ نہیں ملتی۔ جیسے تیسے بھرتی ہوئے اب تو تنخواہ حق ہے جبکہ غیبی امداد کا تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہوتا۔ جب معاملات ہی ایسے ہوں تو فرائض اور احساس ذمہ داری کیسی۔

۔؟بلا تعطل بجلی کی فراہمی اور صارفین کے حقوق جیسی دلنشیں باتیں تو کئی بارسنیں مگر حقیقت میں صارفین کو ادائیگیوں کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے ہی دیکھا۔ صارفین کے کیسے حقوق اور کون ہے ان کا محافظ۔؟کچھ بھی تو معلوم نہیں۔
بجلی کے بغیر ایک پل بھی گزارنا ممکن نہیں۔ ایسی بنیادی ضرورت کی فراہمی جس کے اختیار میں ہو وہ تو جنگل کا بادشاہ ہوا۔

بادشاہ کاحکم ہی قانون اور اس پر عملدرآمد قانون کی حکمرانی قرار پاتی ہے اورلیسکو میں اس جنگل کے قانون پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔ جسکی بجلی کاٹنے کا فیصلہ ہوا فوری عمل ہوگیا۔ جس کے سامنے لیسکو افسران کمزرو پڑگئے تو اس سے ریکوری بھی ضروری نہیں۔ اس لیے وطن عزیر میں بجلی چوروں اورنادہندگان کی کمی نہیں۔ شریف شہریوں کو افسر شاہی کاخمار اتارنے کے لیے تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔


ایسا ہی واقعہ لاہور سے رپورٹ ہوا جب ایس ڈی او علامہ اقبال ٹاون لاہور کاشف نے دو چار ڈیفالٹر کو سزا دینے کی ٹھانی تو پورے پلازہ کی بجلی ہی کاٹ دی۔دفاتر، رہائشیوں سب کی زندگیوں میں مکمل اندھیرا ہی کردیا۔ بلڈنگ میں دفاتر اور رہائشیوں کے میڑ الگ الگ لگے ہوئے تھے۔ سزا تو سب کو ملے گی، برابر ملے گی۔ یہ معروف فلمی کریکٹر گبر سنگھ کا ڈائیلاگ تھا۔

ایس ڈی او کو شاید بہت پسند آیا۔ لہذا اس پر عمل بھی کروادیا۔
تکلیف میں مبتلا نئے پاکستان کے معزز شہری جب موصوف کے دفتر پہنچے تو صاحب بہادر نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ پاکستان نیا ہو یا پرانا سکہ کرسی پر براجمان صاحب بہادر کا ہی چلے گا۔ لہذا کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ پلازہ کے مکین اور کاروبار سے منسلک سب اذیت میں مبتلا رہے۔کس کو حق دینا ہے اور کس کو اذیت یہ صاحب بہادرکی صوابدید پر ہے۔


وہ تو اللہ بھلا کرے برادرم جاوید کمیانہ کا جنہوں نے اس مسئلہ پر آواز اٹھائی اور پلازہ کے مکینوں کے اندھیرے دور کروادئیے۔ بجلی تو بحال ہوگئی۔ لیکن ایس ڈی او کا رویہ سب کے لیے پریشانی کا باعث بنا۔ مایوسی مزید بڑھتی ہے یہ سوچ کر کہ ہم کب مہذب معاشرہ میں جینے کے قابل ہونگے۔۔؟ قیادت ایماندار کہلوائے یا کرپٹ، افسر شاہی کارویہ نہیں بدلتا۔

بہرحال صحافی کا کام ہے آواز بلند کرنا اورہم اپنا فرض پورا کرتے رہیں گے۔
اس سلسلہ میں چیف ایگزیکٹو لیسکو کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ اکثرمشاہدے میں آیا ہے کہ آپ کے ایس ڈی او صاحبان اپنے خاص کارندے فیلڈ میں بھیجتے ہیں جو شریف شہریوں کو تنگ کرتے ہیں۔ان شہریوں کا بجلی چوری یا عدم ادائیگی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا انہیں انہی اہلکاروں کی چیرہ دستیوں سے پریشان ہو کر کچھ لین دین پر مجبور کیا جاتا ہے۔لہذا آپ اپنے ایسے اہلکاروں کا محاسبہ کریں۔ایس ڈی او کاشف علامہ اقبال ٹاون لاہور تو ایسی ایک مثال ہے۔ لاہور ہی نہیں لیسکو کے ایریا میں بہت سے ایسے ایس ڈی او اور اہلکار تعنیات ہیں جو عوام الناس کے لیے اذیت اور محکمہ کی بدنامی کا باعث ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :