''ہے یہ آئین رفاقت کے خلاف اے مولا''

منگل 20 اپریل 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وطن عزیر کی سیاست میں احتجاج، تشدد اور بزور طاقت اپنی بات منوانے اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جانا نئی بات نہیں۔پر تشدد تحریکوں کے نتیجہ میں سرکاری املاک کا نقصان اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہماری تاریخ ہے۔ امن اور سلامتی کے دین کو منانے والے، آئین پاکستان کے تحت سیاسی جماعت کو رجسٹرڈ کروانے کے باوجود آئین سے ماوراء پُر تشدد احتجاج کا طریقہ اختیار کرلیتے ہیں۔


گزشتہ ہفتہ میں پاکستان میں پر تشدد احتجاج کے نتیجہ میں میں491 پولیس اہلکار و افسران زخمی ہوئے جبکہ 2اہلکار شہید ہوئے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پُر تشدد احتجاج کا دائرہ بڑھنے پر کاروائی کی۔ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزادر نے پولیس اور اداروں کی کاروائی کو قابل ستائش قرار دیا اور تشدد اور ہنگامہ آرائی کو ناقابل برداشت قرار دیا۔

(جاری ہے)


قارئین کرام! یہ معاملہ اتنا سادہ اور سطحعی نہیں۔اس طرح پُر تشدد احتجاج کی کال اور راستوں کی بندش بھی پہلی بار نہیں ہوئی۔ حکومت کی غلط پالیسوں کے نتیجہ میں ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔معاملات خراب کردینے یا چشم پوشی کے بعد اداروں کو عوام کے سامنے کھڑا کرکے نقصان ہونے پر لا ء اینڈ آڈر فورسز کے کردار کو قابل ستائش قرار دینا کوئی حکمت عملی نہیں۔

سیاسی قیادت کی ناکامی ہے۔
یہ طرز عمل معاشرے میں بگاڑ کو دعوت دینے کے مترداف ہے۔
سیاسی جماعتیں ہی نہیں وکلاء حضرات بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے تشدد سے بھرپور احتجاج کرتے نظر آئے۔ اسلام آباد پر سیاسی گرفت حاصل کرنے کے لیے موجودہ حکمران جماعت نے ماضی میں یلغار کی۔ آج کے وزیر داخلہ خود سیاسی سٹیج سے مار دو، جلاوٴ گھیراوٴ کے مطالبات کرتے آئے ہیں۔

وزیراعظم سول نافرمانی تک بضد رہے۔ مسلم لیگ (ن) سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئی۔ پی ٹی آئی نے سرکاری عمارتوں پر چڑھائی کی۔ پولیس پر تشدد کیا۔ جہاں تک ہوسکا اپنے مقاصد کے لیے پُر تشدد احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔
تحریک کو احتجاج اور تشدد تک پہنچانیمیں سیاسی قیادت نے کبھی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہم نہیں تو کچھ بھی نہیں، بس یہی فلسفہ بیان ہوا اور اسی پر عمل کی کوششیں کی گئیں۔


قانون، ضابطہ، دستورالعمل، شرح، شاستر یا آئین کسی بھی حکومت کے لیے قوانین اور اصولوں کا ایسا مجموعہ ہوتا ہے جو ایک سیاسی وجود کے اختیارات اور کارکردگی کو محدود اور متعین کرتا ہے۔پاکستان میں بھی سیاست آئین پاکستان کے دائرہ میں رہ کر ہی کی جاسکتی ہے۔ حکومت کا پورا ڈھانچہ بلکہ سیاست کو بھی آئین پاکستان نے قائم کیا۔
اسلامی جہموریہ پاکستان کا موجودہ آئین 10اپریل 1973ئکو اسمبلی سے پاس ہوا اور 14اگست1973ء کو یہ آئین نافذ ہوا اور تاحال نافذ العمل ہے۔

۔۔۔ مگر وطن عزیز میں راستے بند، تشدد، احتجاج سب کچھ جاری رہا۔ستم ظرفی یہ کہ جس وقت ہم آئین پاکستان کی موجودگی میں یوم دستور منارہے تھے۔ سڑکوں پر پُر تشدد احتجاج جاری تھا۔ آئین پاکستان کی خالق جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے یوم دستور پراخباری بیان پر اکتفا کیا۔ یوم دستور کے یادگار دن کے بعد پر تشدد احتجاج ہمارے زوال پذیر رویوں کا عکاس ہے۔


عدم برداشت اور ذہنی پستی کی ذمہ داری بھی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کسی بھی سوچ کو وقتی طور پر شرف قبولیت بخشنا اور استعمال کرنا ہماری سیاست کا حصہ ہے۔مثبت رویے تو تب پروان چڑھتے ہیں جب سیاسی قیادت معاملات کو پارلیمان میں حل کرے۔ حکومت اور سیاسی قیادت میں فیصلہ سازی کی اہلیت ہو۔ جزوی اور وقتی فوائد کے لیے اداروں کا براہ راست استعمال یا اداروں کے پیچھے چھپ کر سیاست کرنے سے جہموریت مستحکم نہیں ہوسکتی۔

اپوزیشن نے عوام کو مہنگائی اورغربت سے نجات دلوانے کے لیے پی ڈی ایم قائم کی مگر ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اس اتحاد کو چند ماہ میں ہی قربان کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فہم و فراست، تدبر اور بصیرت سے آئین پاکستان منظور کروایا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی دستور ساز ادارے پارلیمان کی عزت و تکریم یقینی بنانے کی جدوجہد جاری رکھی۔
ایک یا دو پارٹیاں مل کر بھی جہموری رویے پروان چڑھانے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں اس کے لیے سب جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

ستم ظرفی آج پی پی پی پر ہی اسٹیبلشمنٹ سے مل کر سیاست کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے اور وہ پارٹیاں اس کھیل میں آگے آگے ہیں جن کا وجود ہی اسٹیبیلمنٹ کے مرہنون منت ہے۔ اسی طرح امن اور سلامتی کا نعرہ لگانے والے تشدد کو پھیلا رہے ہیں۔ آج ہر ذمہ دار شہری سمجھتا ہے یہ جو کچھ ہورہا ہے یہ سب کچھ '' ہے یہ آئین رفاقت کے خلاف اے مولا''۔۔۔۔تمام فیصلے متفقہ طور پر پارلیمان میں ہونا ضروری ہے۔ آئین پاکستان کی سر بلندی میں سب کی عزت ہے۔ سب کے حقوق کا تحفظ ہے۔ احتجاجی سیاست اور چالبازیاں مزید انتشار کا باعث بنیں گیں سب کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔1973کا آئین ہماری قومی یکجہتی کی ضمانت ہے، دستور پر من وعن عملدرآمد ملک کے روشن مستقبل کی جانب بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :