چلتی گاڑی میں منڈلاتی زندگی۔۔۔۔!!!

ہفتہ 13 اپریل 2019

Salman Ansari

سلمان انصاری

پرانے وقتوں کی بات ہے جب گاڑی یا سفر کرنے کیلئے بسیں شاذونادر ہو اکرتی تھیں زیادہ تر لوگ پیدل ہی سفر کرتے تھے اگر کسی نے کسی دوست یا رشتہ دار کو ملنے جانا ہوتا تو وہ پیدل ہی گھر سے نکل پڑتا تھا یا کسی جانور کی سواری کو استعمال کیا کرتا تھا اسی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کیلئے انسانوں کوگھنٹوں کا سفر طے کرنا پڑتا تھا جو کہ کئی میلوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔

مسافر جب گھر سے نکلتا تھا تو گھر والوں کو سلام کر کے یا پھر کسی بڑے کی دعا لیکر گھر سے روانہ ہوتا اور کھانا وغیرہ بھی اپنے ساتھ لے لیا کر تا تھا۔مسافر جب سفر کر رہا ہوتا تھا تو وہ یہ سوچتا رہتا تھا کہ کتنی دیر میں ہم کہاں پہنچ جائیں گے ٹائم یا گھڑیاں یا پھر موبائل فون اور گوگل میپ کا استعمال نہیں تھا اس لئے لوگ سورج کی روشنی اور سایہ کی نکل و حرکت دیکھ کر اندازہ لگا لیتے تھے کہ کتنا وقت ہوگیا ہے اور مسافر راستے میں مزے کرتا ہوا قدرت کے حسین مناظر اور شہر شہر گھومتا ہواپرسکون طریقے سے سفر طے کرتا تھا اس وقت کے مسافر کو سگنل کو غلط کراس کرنے یا پھر دوسروں سے ریس لگانے یا پھر اوور سپیڈنگ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا راستے میں اگر کوئی اور مسافر راستے میں مل جاتا تو سفر کا مزہ دوبالا ہوجاتا تھا اور سارے مسافر اعلیٰ کوالٹی کے سفر سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔

(جاری ہے)


رفتہ رفتہ وقت بدلتا چلا گیا لوگ پیدل یا پھر جانوروں پر سفر کرنے کی بجائے گاڑی استعمال کرنے لگے گاڑیوں کی تعداد میں بھی رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا چلا گیا اور بسیں بھی ایک سے ایک آنے لگی ،لوگ بھی بسوں اور کاروں کے آنے سے خوش ہوگئے کہ اب کم وقت میں ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتے ہیں پہلے سفر ہفتہ میں ایک بار یا پھر مہینے میں ایک بار ہوا کرتا تھا کیونکہ پیدل آنے جانے یا پھر جانوروں پر سواری کرنے اور دور دراز کا سفر ہونے کی وجہ سے لوگ بہت زیادہ تھک جاتے تھے اور منزل مقصود پر پہنچ جانے کے بعد فوراً واپس آنے سے گریز کرتے تھے یا شاید یہ اُن کے لئے ممکن بھی نہیں ہوتا تھااس لئے پہلے مسافر لوگ اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ کر کئی دن گزارنے کے بعد واپسی کا سوچتے تھے ۔

آج ہم بات کریں نئے زمانے کی تو ہمیں جانوروں کی سواری یا پیدل چلتے مسافر بہت کم ہی نظر آتے ہیں ہر کوئی اپنی گاڑی یا اگر گاڑی نہیں ہے تو موٹر سائیکل اور اگر موٹر سائیکل بھی نہیں ہے تو سائیکل اور اگر سائیکل بھی نہیں ہے تو لوکل ٹرانسپورٹ پر سفر کرتا دکھائی دیتا ہے دور دراز کا سفر ہو یا نزدیک ایک سے دو دن کے اندر مسافر اپنی منزل مقصود پر پہنچ کر باآسانی واپس آسکتا ہے اگر آپ ہوائی جہاز کے سفر کو دیکھیں تو ملتان ،کراچی ، اسلام آباد ، لاہور یا پاکستان کے اور بڑے شہر جہاں ایئرپورٹ کی سہولت موجود ہے وہاں مسافر جا کر واپس بھی اُسی دن آسکتا ہے یعنی بہت زیادہ سفری سہولیا ت ہوگئی ہیں ۔


سفر چاہے کتنا ہی لمبا کیوں نہ ہو آج کے زمانے میں آپ کو سفر کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی لیکن اتنی ترقی کرنے کے باوجود بھی ہم دو چیزوں پر قابو نہیں پاسکے وہ ہے ”ڈر“اور ”خوف“یہ دوچیزیں آج کے جدید دور میں سفر کے دوران ہر مسافر کے ساتھ رہتی ہیں خواہ ہم کتنی ہی اچھی اور آرام دہ سواری پر سفر کیوں نہ کر رہے ہوں ڈر اور خوف ہمارے ساتھ رہتا ہے اور ہم یہ دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ ہم خیر خیریت سے منزل مقصودتک پہنچ جائیں ۔

دراصل اس میں مسافر کا قصور نہیں ہوتا بلکہ وہ لوگ جو جلد بازی کرتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ریس لگاتے ہیں کہ ہماری گاڑی پہلے پہنچے ،ہماری گاڑی دوسری گاڑیوں سے پہلے پہنچنی چاہیئے ،کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ گاڑی اتنی تیز چلائی جاتی ہے اور پھر اچانک سے بریک یا کٹ ماری جاتی ہے کہ مسافروں کو فوراً اللہ یاد آجاتا ہے اور وہ کلمہ کا ورد شروع کر دیتے ہیں ۔

کبھی کبھی تو گاڑیاں دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں اس طرح روڈ پر گھومتی ہیں کہ مسافروں کو لگ رہا ہوتا ہے کہ ہم کسی پارک میں آکر جھولے جھول رہے ہیں کئی گاڑیوں میں ایسا ہوتا ہے کہ مسافر سب سے پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے لیکن اُسے پوری گاڑی میں گھمایا جاتا ہے کہ مہربانی کرو یار آپ یہاں سے اُٹھ کر وہاں بیٹھ جاؤ یا پھر وہاں سے اُٹھ کر یہاں آکر بیٹھ جاؤ اس طرح مسافر پوری گاڑی میں گھومتا رہتا ہے۔

بعض اوقات چلتی گاڑی کے سوچتے مسافر اتنے تنگ آجاتے ہیں کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اللہ میاں اس بار ہمیں خیر ی خیری گھر پہنچا دے ہم شکرانے پر نفل ادا کریں گے اور آئندہ کبھی اس طرح سے سفر نہیں کریں گے ۔
اس طرح کے مسافروں کا سفر شروع سے آخر تک یا اللہ خیر، یا اللہ خیر کرتے گزر جاتا ہے مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ٹریفک قانون تو ہیں مگر ٹریفک قوانین سے یا تو ہم واقف نہیں ہیں یا پھر جان بوجھ کر ہم ان پر عمل نہیں کرتے ۔

مجھے تو لگتا ہے ٹریفک قوانین کو توڑنا یا ان کو نظر انداز کرنا اس میں سارا قصور انتظامیہ یا ٹریفک پولیس کا ہے جو ایسے لوگوں کے خلاف سخت کاروائی نہیں کرتی جو ٹریفک کے قوانین پر عمل نہیں کرتے اور حادثات رونما ہونے کا سبب بنتے ہیں ۔اگر وہ اپنی ڈیوٹی کوصحیح معنوں میں سرانجام دیں تو مسافروں کو درپیش آنے والے مسائل جن میں اوور چارجنگ،اوورسپیڈنگ،اوور لوڈنگ،گاڑیوں میں بیہود اور فحش گانوں کا چلانا شامل ہے حل کرنے میں مدد ملیگی اور گاڑیاں چلانے والے حضرات کم از کم اس بات سے تو واقف ہوجائیں گے کہ اگر ہم نے کوئی بھی غلط حرکت کی تو ہم کو سخت سزا ہوسکتی ہے اور بھاری جرمانہ بھی ادا کرنا پڑسکتا ہے ۔


لیکن چلتی گاڑی کے سوچتے مسافر سوچتے چلے جارہے ہیں اور اسی سوچ میں رہتے ہوئے اکثر مسافر تو منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ بہت سے مسافرایسی منزل پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے ۔ایسے واقعات ہماری زندگی میں بڑھتے چلے جارہے ہیں لیکن تاحال بھی ٹریفک کے متعلق حالات وواقعات اور حادثات کے پیش نظر موجودہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد نہیں کرایا جارہاجس کی وجہ سے کئی ماؤں کے لخت جگر،کئی گھروں کے سربراہان،کئی بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والے حادثاتی موت کا شکار ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس دنیا سے رخصت کر جاتے ہیں اوربعض اوقات تو ایسا ہوتاہے کہ مرنے والے کی شناخت بھی نہیں ہوتی اور لواحقین اپنے پیاروں کا غم دل میں لئے کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔


ان سب واقعات اور موجودہ صورتحال کا حل صرف اسی بات میں ہے کہ قانون پر عملدرآمد کرایا جائے کیونکہ اس سے ہم حادثات کی شرح کو کسی حد تک کم کرسکتے ہیں زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن یہ سپیڈ دیکر سٹیرنگ کو چھوڑ دینا او ر یہ کہنا کہ موت تو اپنے وقت پر آئیگی یہ سوچ بھی غلط ہے یہ سوچ خود کشی کے ضمرے میں آتی ہے اللہ اس ملک کے حکمرانوں کو ہدایت دے کہ وہ بے قصور عوام کے بارے میں سوچیں اور ملک میں بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں تاکہ غریب عوام حادثاتی موت سے بچ سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :