مسئلہ فلسطين پر ایک تبصره

پیر 7 جون 2021

Sami Uddin Raza

سمیع الدین رضا

گذشته دنوں اسرائیلی جارحیت کے باعث فلسطینی سر زمین ایک بار پھر لہولہان ہوئی. فلسطینی باشندوں کی سربریده لاشوں اور فلسطینی عورتوں کی فلک شگاف آہ و بکا پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے . یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب فلسطينى اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہوں بلکہ اس سے پہلے بھی وقتا فوقتا  فلسطينى اپنی ہی سرزمین پر اسرائیل کے ظلم وستم کا نشانہ بنتے رہے ہیں .
گزشتہ دنوں  ہونے والے واقعات بھی اسی ظلم وستم کی زنجیر کی کڑی ہیں .

گذشته دنوں فلسطينیوں پر ظلم و ستم کا آغاز اس وقت ہوا جب مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلموں نے اپنی اشتعال انگیز ریلیوں کے دوران وہاں موجود فلسطینیوں کے گھروں کے آگے تجاوزات کھڑی کرنے کی کوشش کیں.اسرائیلیوں کی اس حركت نے وہاں رہنے والے باشندوں کو غم و غصہ میں مبتلا تو کیا مگر انہوں نے خاموش رہنے میں عافیت جانی. لیکن یہ خاموشی اس وقت ریت کی دیوار ثابت ہوئی جب ماه مقدس کی ستائيسویں شب کو مسجد الا اقصی میں عبادات میں موجود نہتے فلسطينى باشندوں پر صیہونی فوجیوں نے تشدد شروع کر دیا اور بعد میں آنسو گیس کی شیلنگ کر کے .انہیں مسجد القصی بدر کیا.

صیہونی فوجیوں کے اس پرتشدد اقدام کے جواب میں فلسطینی باشندے احتجاجا گھروں سے نکل آئے۔

(جاری ہے)

غزہ میں موجود حكومتى تنظیم "حماس" نے بھی غم و غصے کا اظہار اسرائیل کی جانب راکٹ داغ کر کیا۔ جس کے جواب میں اسرائیلی فضائيہ کے طیاروں نے غزہ پر بمباری شروع کردی. جس کی قیمت غزه نے اپنے 219 باشندوں کی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر چکائی .
اسرائیلی افواج کی غزه پر کاروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے مزید جارحانہ انداز میں جواب دینے کا موقف اپنایا .

مسلمانوں کے اس حالیہ قتل عام پر عالمی سطح پر خاموشی ایک افسوسناک عمل ہے . المیہ یہ ہے کہ خود ہمارے اسلام کے نام پر بننے والے وطن عزیز میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسرائیل سے ہمدردی رکھتے ہیں . پی ٹی آئی کی قومی ركن اسمبلی کا بیان اس چیز کی روشن مثال ہے . بیشتر لوگ اس جارحيت کو دفاعی حکمت عملی قرار دے رھے ہیں۔ بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ نہتے لوگوں پر بمباری کر کے ان کے پرخچے اڑا دینا کہاں کی حکمت عملی ہے؟
اسرائیلی جارحیت پر عرب دنیا کا کردار خاصا افسوسناک ہے.

عرب مسلمان حکمرانوں کی خاموشی نے باقی دنیا کو یہ پیغام دیا کہ فلسطین کے معاملے پر ان کے ضمیر مرده ہوچکے ہیں۔ ان حكمرانوں سے اچھے تو یورپ اور امریکا کے وه باشعور لوگ ہیں جو اس ظلم کے خلاف صدائے حق بلند کر رہے ہیں . اسلامی تنظیميں اور عرب لیگ بھی محض مذمتى قرار داوں کے علاوه کوئی ٹھوس اقدام نہ کرسکی.
پاکستان کا اس حوالے سے کردار قابل ذکر ہے .

بعد ازاں عید وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی امریکی ہم منصب انتونی . بليكن سے ٹیلی فونک رابطے  پر اس جارحیت کے حوالے سے بات چیت اور عمران خان کا فلسطيني باشندوں سے یکجتی پر مشتمل ٹویٹ کرنا اس بات کی غماز ہیں کہ پاکستان اس مسئلہ کے حوالے سے خاصی تشویش رکھتا ہے . دیگر غیر عرب مسلم ممالک کی بات کی جائے تو " مالدیپ" وہ پہلا ملک بنا جس نے باضابطہ طور پر اسرائیل سے تمام کاروباری تعلقات منقطع کر کے سوئی ہوئی امت مسلمہ کی غیرت کو جگانے کی کوشش کی۔
اسرائیل کی فلسطینی سرزمین پر جارحیت روکنے کے لیے  تمام امت مسلمہ کے حکمرانوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا.

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان مليشيا اور ترکی سے مدد لے کر تمام مسلم حکمرانوں کو ایک فورم پر جمع کرے جس کے بعد امت مسلمہ کے یہ حکمران مشترکہ طور پر اسرائیل کا اقتصادی بائیکاٹ کریں. بھلا كب تک یہ فلسطینی اپنی بقا کی جنگ اکیلے لڑتے رہیں گے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :