
یورپی جنگیں
ہفتہ 6 فروری 2021

سمیع اللہ
(جاری ہے)
تاریخ گواہ ہے کہ عام شہریوں کو تربیت یافتہ فوجیوں سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہیں حملے اور دفاع کی بہت کم معلومات کے علاوہ تھوڑی بہت تربیت دی جاتی تھی۔
ان انسانی جانوں کے ضیاع میں وسائل بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے کیونکہ فتح ہر لڑنے والی قوم کا واحد مقصد تھا۔مخالف ریاستوں کے عوام کو جتنا زیادہ نقصان پہنچایا جاسکتا تھا اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔جس طرح کہا جاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتاہے ، اس کاحقیقی مظاہرہ دیکھنے کو ملا ۔ انسانی جانوں کے قتل عام کے علاوہ خوراک کی کمی بھی جنگی نقصانات میں سب سے زیادہ تھی ۔جنگی ا دوار میں خوف اور غم و غصے جیسی انسانی جبلتوں کا عملی مظاہر پوری طرح سے دیکھا گیا ۔ جنگی فوجیوں کو خوراک کم اور انتقامی جذبہ کی خوراک زیادہ دی گئی۔ نسل کشی ، لوگوں کو ان کی نسلی ، مذہبی ، سیاسی ، معاشرتی حیثیت یا اس جیسی اصطلاحات کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر منظم قتل کی وارداتیں ہوتی رہیں ۔ یہ پر سوز واقعات پہلی بار 1915 تا 1923 اوردوسری مرتبہ 1939 تا 1945 کے دورانیے میں ہوئے جہاں تاریخ ہی لرز اٹھی کہ انسان ہی انسان کا دشمن بن کے سامنے آیا ۔ یہ قوم پرستی کے ذریعہ ایک بااختیار جدید ریاست کا مظہر تھا۔ نسل کشی کی سب سے بہترین مثال ہولوکاسٹ یعنی یہودیوں کا قتل عام تھا۔ اس کے نتیجے میں اقلیتیں نسل کشی کی چھتری میں پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئیں۔
جدید تہذیب نے انسانی نوع کو ختم کرنے کی ایک اور کاوش کا انکشاف ہوا۔ 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بمباری جدید ریاست کے شیطانی مقاصد کی واضح مثال ہےجس میں انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا ۔ اس جنگ نے قوم پرستی کے قومی ریاست کے نظام کو شدید جھٹکے دیے اور وہ اپنی موت آپ مرگیا ۔ بعدازاں ان جنگوں سے نو زائدہ قومی ریاستوں کی خودمختاری کو دھچکا لگا اور وہ روس اور امریکہ کےبلواسطہ اور بلاواسطہ ماتحت ہوگئیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ روس اور امریکہ کے مابین سرد جنگ نے یورپی ، افریقی اور ایشیائی ممالک کو مشرقی اور مغرب کی دو اہم حصوں میں تقسیم کردیا ۔ کچھ ممالک روس اور دوسرے امریکہ کے زیر اثر آئے۔ اسی دوران ہمارے ملک عزیز نے بھی قریبی ہمسایہ بلاک کو چھوڑ کر امریکہ کے سپر پاور بلاک میں رہنا پسند کیا اور تب سے ماضی قریب تک ہمارے حکمران امریکی چھتری تلے ہی ملک کے خارجی محاذ کی ڈوریں ہلاتے رہے ۔ان دو طاقتور ریاستوں کے ماتحت کئی ممالک کو آگے بڑھنا یا پیچھے ہٹنا پڑا کیونکہ انہیں اپنےآقاؤں کی ہدایت درکار تھی ۔
ایک طرف عالمی جنگیں محاذوں پر سراسر تباہی پھیلاتی ہیں اور دوسری طرف یہ سامراجی اور نوآبادیاتی ممالک کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئیں ۔ نوآبادیاتی طاقتوں کو اپنے نظریات کی پٹاری اور غیر مہذب انسانوں کو تہذیب سکھانے جیسی اصطلاحات کو ان جنگوں کے آڑ میں اپنی اصل حدود تک سکڑنا پڑا۔انگریزوں کو ہندوستان ، فرانسیسیوں کو ہند و چین ، اور روسیوں کو وسطی ایشیائی ممالک اور امریکیوں کو ویتنام سے بے دخل ہونا پڑا ، اس کے علاوہ افریقہ میں نئے آزاد ممالک نے جہاں ان سامراجی طاقتوں کو روکنے پر مجبور کیا وہی ایک تکلیف دہ ماضی کے ساتھ اپنا تشخص بحال کیے رکھا ۔
یہ جنگیں مکمل طور پر اپنے پر پھیلانے کا ایک بہانہ تھا اور اس سارے خونی کھیل کے پیچھے صرف مطلق العنان حکمرانی کرنے کا ایک منصوبہ تھا اور مذکورہ مقصد کے حصول میں ہر رکاوٹ کو رستے سے ہٹایا گیا ۔اکیسویں صدی کے آغاز میں ، دنیا نے اس زمین پر تسلط کے لئے 6 مدمقابل دیکھے لیکن ان جنگوں نے انہیں دو حریفوں میں بدل دیا۔ امریکہ اور روس نے متعدد ممالک کو اپنے کیمپ میں اثر و رسوخ اور بالادستی کے لئے گھیر لیا۔.
کیا مستقبل میں یہ دوحریف ہی آمنے سامنے رہیں گے؟کیا اکیسویں صدی کے مستقبل میں طاقت کے غلبے کا کوئی واضح نظریہ نہیں ہے؟یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ غلبے کی دوڑ کس طرف رخ کرے گی ۔ کیا امریکہ اپنی بالادستی اور تقویت جاری رکھے گا یا روس آگے بڑھ کراپنے اثر و رسوخ کو بحال کرے گا؟لیکن اس دوڑ میں اب چین اپنی معاشی طاقت کےبل بوتے پر اگلی سپر پاور بن جائےگا ۔ چین نے حالیہ کوروناکے مرض کے خلاف ڈٹ کر اپنی معیشت کو خود ہی سہار لیا بلکہ امریکی لابی و الزام تراشی کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ چین کا افغانستان اور ایران میں قدم رکھنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جہاں پاکستان اسے مضبوط بنیاد اور حفاظتی شیلڈ فراہم کرنے کیلیے تیار ہے۔ افغان امن عمل اب زیادہ دیر کھٹائی میں نہیں رہے گا کیونکہ بائیڈن انتظامیہ اس کے حل کی طرف گامزن ہے۔ گو چین کھل کر اپنی عسکری و سفارتی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرتا لیکن وہ اپنے مقاصد میں حائل رکاوٹوں کو باآسانی عبور بھی کررہا ہے۔ ساوتھ چائینہ سی میں چین کا امریکہ کو انتباہی ردعمل اس بات کی غمازی کرتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سمیع اللہ کے کالمز
-
تیسرا فریق
اتوار 29 اگست 2021
-
طالبان اور پاکستان کی پوزیشن
بدھ 25 اگست 2021
-
مستقبل کا افغانستان
بدھ 18 اگست 2021
-
بھارت و افغانستان
منگل 10 اگست 2021
-
امریکہ یا چین
ہفتہ 3 جولائی 2021
-
فرینڈز ناٹ ماسٹرز
جمعہ 28 مئی 2021
-
اپارتھائیڈ ریاست
منگل 18 مئی 2021
-
ظریف گیٹ سکینڈل
پیر 10 مئی 2021
سمیع اللہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.