سالانہ خطرے کی تشخیص

جمعرات 29 اپریل 2021

Sami Ullah

سمیع اللہ

امریکی ادارہ  آفس آف دی نیشنل انٹیلجنس دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع ہے۔ یہ اپریل 2005 میں قائم ہوا۔مذکورہ ادارہ امریکی موثر اور یکساں پالیسیوں اور تحقیقات کے انعقاد پر عمل درآمد اور مجموعی نگرانی کا ذمہ دار ہے۔ حساس ادارہ  خفیہ معلومات تک رسائی  کی اہلیت اور حساس مقامات پر فائز ہونے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔اس کی ذمہ داریوں  میں سرکاری اداروں اور تمام ایجنسیوں میں اہلکاروں کے سیکیورٹی کے عمل کو کور کرنا بھی ہے۔

رواں ماہ اس ادارے نے ایک رپورٹ "سالانہ خطرے کی تشخیص"شائع کی ہے  جو پڑھنے کے لائق ہے۔
'گلوبل ٹیررزم'رپورٹ میں ایک باب ہے جس میں آئی ایس آئی ایس اور القائدہ کے  متعلق تحقیقی مواد لکھاگیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آئی ایس آئی ایس اور القائدہ بیرون ملک موجود امریکی مفادات کیلئے سنی دہشت گردی کا سب سے بڑا خطرہ ہیں۔

(جاری ہے)

یہ گروہ امریکی سرزمین کے اندر بھی حملے کرنے کی جسارت کرتے ہیں حالانکہ امریکہ نے دباؤ کی مدد سے ان گروپوں کی صلاحیت کو بڑے پیمانے پر کم کردیاہے۔

امریکہ میں مقیم ان کے چھوٹے سیلز نظریاتی محرکات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر امریکہ کیلئے خطرہ ہیں۔ ان گروہوں کی طرف سے دھمکی آمیز پر تشدداور انتہا پسند  کاروائیاں ظاہر ہوئی ہیں جو عام طور پر داعش اور القائدہ سے متاثر ہیں۔ ان کاروائیوں میں نسل پرستی اور حکومت مخالف اقدامات شامل ہیں۔لبنان کی حزب اللہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے تناؤ کے جواب میں اس خطہ سے امریکہ کو باہر  دھکیلنے  اور اس کے مفادات پر حملے کرسکتی ہے۔

عالمی سطح پراور ان ممالک جن میں مغربی امداد میں کمی واقع ہوئی وہاں  دہشت گردی کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ یہ خلا ان کو حالیہ نقصانات سے نکلنے میں میں مددگار ثابت ہوگا۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک آئی ایس آئی ایس میں لیڈرشپ نقصانات کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی اور یہ عراق اور شام میں اپنی کاروائیوں  کو مزید پھیلاسکتی ہے۔ 2017 سے اب تک مغرب میں اس کالعدم تحریک کی طرف سے شورش میں کمی آئی ہے لیکن بڑے حملے اس گروہ کی اولین ترجیح رہے ہیں۔

زیادہ نقصان پہنچانے والے حملے امریکہ کیلئے اس سال سب سے بڑا خطرہ ہیں۔  عراق اور شام میں یہ تنظیم علاقائی سیاستدانوں اور حکمرانوں ، سیکیورٹی اداروں ،بنیادی ڈھانچہ اورترقیاتی کاموں پر حملوں جیسی کاروائیوں کو جاری رکھنے کے علاوہ ان کا دائرہ کار بڑھائے گی۔اس تنظیم کی دلکشی برقرار ہے گی حتیٰ کہ اس کے  ماننے والے تھوڑے ہی کیوں نہ ہو۔

یہ گروپ عالمی رہنماؤں کو داعش کی قیادت کے بغیر حملے کرنے کی ترغیب دینے کیلئے اپنے میڈیا سیل کا استعمال جاری رکھے گا۔ اس گروہ کی عملی صلاحیت میں رکاوٹ اس کے میڈیا کی زوال پذیری سے منسلک ہے۔
القائدہ کی سینئر قیادت کو گزشتہ کچھ عرصے سے شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن باقی رہنما علاقائی عناصر کے مابین تعاون کی حوصلہ افزائی کریں گے ۔

یہ امریکہ اور دیگر بین الاقوامی اہداف کے خلاف حملوں کا مطالبہ کرتے رہیں گے اور دنیا بھر میں سازشوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ القائدہ کے علاقائی وابستہ افراد امریکی تنازعات اور غیر منقولہ مقامات سے امریکہ اور مغربی مفادات کے علاوہ مقامی حکومتوں اور بیرون ملک آبادیوں کیلئے خطرات پیدا کرے گی۔  
سب سے اہم با ب 'تنازعات اور عدم استحکام' میں پاکستان، افغانستان، ایران  اور چائنہ کے متعلق  ادارےکی تحقیق پر مبنی جانچ ہے ۔

  یہ باب شروع میں امریکہ کو درپیش چیلنجز اور خطرات پرروشنی ڈالتا ہے اور ساتھ ہی پہلے سے جاری تنازعات کے سنگین ہونے اور جنگ میں بدل جانے کا عندیہ بھی دیتا ہے۔ رپورٹ کی عبارت کچھ یوں ہے کہ داخلی اور بین الاقوامی تنازعات اور عدم استحکام اگلے سال کے دوران امریکی افراد اور مفادات کو براہ راست اور بلواسطہ خطرہ بناتے رہیں گے ۔ طاقت اور وسائل، نسلی فسادات اور نظریاتی کشمکش بہت سے ممالک میں شورش اور خانہ جنگی کا باعث بنے گی۔

بین الاقوامی تنازعات بھی بھڑک اٹھیں گے ، جس میں سرحدی تناؤ سے لے کرچین اور بھارت کے مابین ممکنہ طور پر زیادہ پائیدار پر تشددمحاذ آرائیوں تک ہوگا۔
 افغانستان کے متعلق اس رپورٹ کا تجزیہ کچھ اس طرح ہے  کہ انٹراا فغان ڈائیلاگ کےامکانات اگلے سال بہت کم رہیں گے۔ فریقین کے مابین جنگ میں ہوسکتا ہے کہ طالبان کو فائدہ ہو لیکن اگر افغان حکومت حمایت واپس لیتی ہے تو وہ افغان طالبان کو کنٹرول کرنے کیلئے جدوجہد کرے گی۔

کابل کو میدان جنگ میں دھچکے لگتے رہیں گے اور طالبان اس یقین کے ساتھ جنگ جاری رکھیں گے کہ وہ یہ لڑائی جیت سکتے ہیں۔ دوسری جانب افغان فورسز بڑے شہروں اور دیگر حکومتی مضبوط حلقوں کو محفوظ رکھنا جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ دفاعی معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں ۔ افغان فوجی ان تمام علاقوں میں قبضہ جمانےیا اپنی موجودگی برقرار رکھنے  کی کوشش کر چکے ہیں  جن کو وہ 2020 میں کھو چکے تھے۔


پاکستان اور بھارت کے مابین جاری کشیدگی کی تصویر کچھ یوں کھینچی گئی ہے  کہ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست جنگ کا امکان نظرنہیں آتا لیکن دونوں ممالک کے درمیان بحران میں شدت آنے کا خدشہ ہے جو مزید خطرات کا باعث بنے گا۔ نریندرا مودی کی سربراہی میں بھارت پاکستان کی طرف سےسمجھی جانے والی یا حقیقی اشتعال انگیزیوں  کا ماضی کے مقابلے میں بھرپور فوجی جواب دیے جانے کا اندیشہ ہے۔

کشیدگی کی شدت میں اضافے کے ساتھ  ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک کےمابین خطرات بڑھ گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کشمیر میں پر تشدد بد امنی کے ساتھ ہندوستا ن میں عسکریت پسندوں کا حملہ ممکنہ فلیش پوائنٹ ہے۔
مجموعی طور پر اگر ہم اس رپورٹ کو  دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ امریکی تھنک ٹینکس پورے خطے پر اپنی نظریں جمائیں بیٹھیں ہیں۔ افغان خطے سے امریکی انخلا کا اعلان تو ہوچکا ہے لیکن اگر انخلا ہوا تو تجزیہ کے نتائج کے مطابق موجودہ سارا افغان ڈھانچہ جو امریکی سہارے کھڑا ہے دھڑام سے گر جائے گا۔بھارت اور چائنہ میں کشیدگی تو بڑھے گی لیکن پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تو دوستی اور بہتر ہوتے تعلقات ہی منظر عام پر چل رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :