مشرقی ترکستان

منگل 4 مئی 2021

Sami Ullah

سمیع اللہ

مشرقی ترکستان ایک وسیع و عریض آباد علاقہ ہے جو  چھ اعشاریہ ایک ملین کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہ چین کے کل رقبے کا چھٹا حصہ ہے۔ اسکی سرحد شمال میں روس،مغرب میں قازکستان، کرغیزستان اور تاجکستان ، جنوب مغرب  میں افغانستان،جنوب میں پاکستان، بھارت اور تبت،مشرق میں چین اور شمال مشرق میں منگولیا سے ملتی ہے۔اس خطے میں اوئیگرز، قازق، کرغیز، ازبک، تارتا، سالار، تاجک، منگول، ہوئی، مانچو، زیبی ، ڈگور،روسی اور چینی نسل کے افراد رہتے ہیں۔

اس کی آبادی قریبا ایک کروڑ بانوے لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کا دارلحکومت ارومقی اور مذہب اسلام ہے۔
مشرقی ترکستان پر سویت یونین کے زیر سایہ ہان چینی جنگجو شینگ شکائی نے 1934 تا 1943 تک حکومت کی ۔ شینگ کی حکمرانی کے دوران اوئیگر ز نے علم بغاوت بلند کردیاجس کے نتیجے میں شینگ نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے بربریت کا دور شروع کیا ۔

(جاری ہے)

اس کا جبر اوئیگرز ، ترک مذہبی سکالرز  ، رہنماؤں اور ہر اس فرد پر بصورت قید و پھانسی ہوا جس کو وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔1949 میں چین کے قیام کے ساتھ ہی  چین کی کمیونسٹ اتھارٹی نے سنکیانگ کو اپنے اندر ضم کیااور 1950 میں چین  کی پیپلز لبریشن آرمی نے اس پورے خطے پر قبضہ کرلیا۔ 1955 میں چینی حکومت نے سنکیانگ کو ایک خود مختار علاقہ بنانے کا اعلان کیا۔

اس کے ساتھ ہی سویت یونین نے تیل، دھات اور دیگر کاروباری اداروں اور سویت کی مشترکہ مالیت ترک کردی۔
آج مشرقی ترکستان اپنی آزادی کیلئے جدوجہد کررہاہے اور دنیا کو آگے بڑھ کر اسکی مدد کرنا ہوگی۔ پچھلے کئی سالوں سے تبت کا بھی یہی حال ہے۔ ترکستان کا یہ علاقہ چین کی آزادی سے پہلے خود ایک ریاست ہوتا تھا۔رقبے کے لحاظ سے مشرقی ترکستان بھارت کے مقابلے میں آدھا ہے ۔

چین اسکو سنکیانگ کہتا ہے اور ہرعلیحدگی اور  آزادی کی تحریک کو سختی سے کچل رہا ہے۔امریکی بیسڈ مشرقی ترکستان کی جلا وطن حکومت کے وزیر اعظم صالح کا کہنا ہے کہ چین کےبرسوں پر مبنی غیر قانونی  قبضہ اور قتل عام نے یہ سکھا دیا ہے کہ آزادی کے بغیر  انسانی حقوق کیلئے کوئی راستہ موجود نہیں اور نہ ہی اس بات کی کوئی ضمانت ہے۔ ان کے مطابق آزادی کا مطلب قبضے اور  جبرو تشدد سے نجات پانا ہے۔

ایک آزاد ریاست کے پاس اپنے نمائندےمنتخب کرنے، حکومت کرنے اور قانون سازی کرنے کے آزاد اختیارات ہوتے ہیں۔آزادی ہی ایک قوم کے لیے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا واحد راستہ ہے۔
مشرقی ترکستان قومی بیداری کی تحریک کے مطابق اب تک چین  اوئیگرز، ترک، قزاک، ازبک، تارتار اور دوسری نسلوں کے لوگوں  کو قید اور تشدد کا نشانہ بناچکا ہے۔تحریک نے اقوام عالم سے مدد کی اپیل کی ہے اور بین الاقوامی عدالت برائے انصاف  کے ممبران سے بھی درخواست کی کہ وہ چین کے اس اقدام کے خلاف شکایت درج کروائیں تاکہ اس کا احتسا ب ہوسکے۔


اوئیگرز بنیادی طور پر ترک نسل کے مسلمان شہری ہیں جو صدیوں سے ترکستان کے باشندے ہیں۔ یہ ہان چینی جو چین میں اکثریت ہیں ان سے بالکل مختلف ہیں۔مشرقی ترکستان اٹھارہویں صدی میں چین کے قبضے میں چلا گیا جب چن خاندان نے اس ریاست کو اپنے اندر ضم کرلیا۔لیکن ترکستان مکمل طورپر ان کے قبضے میں نہیں گیا۔جب مشرقی ترکستان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا توکمیونسٹ  چین نے 1949 میں اس پر حملہ کردیا۔

ایک طرف چین ہان خاندان کو بھی بیرونی خیال کرتاہے لیکن دوسری طرف وہ ترکستان پر اس لیے قابض ہے کیونکہ ہان خاندان نے اس کو اپنے اندر ضم کرلیا تھا۔
آج چین اس علاقے میں بزور طاقت اور جبر اپنی رٹ بحال کیے ہوئے ہے۔ ترک لوگوں کی اس آزادی کی خواہش کو چین دہشت گردی قرار دے رہا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب نائن الیون  کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر القاعدہ کی  طرف سے حملہ ہوا تھا۔

چین اب تک ان ترک باشندوں کی زیادہ تر مذہبی جگہوں اور مساجد کو مسمار اور ترکستان کے احتجاجی مظاہروں پربھی  پر تشدد کاروئیاں کروا چکا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے پورے خطے کو ایک کھلی جیل  بنا یا ہوا  ہے جس کو وہ تعلیمی اداروں کا نام دیتا ہے مگر ان پر کڑی نگرانی بھی کر رہاہے۔ایک اندازے کے مطابق یہ خطہ پوری دنیا کے مقابلے میں سب سے زیادہ نگرانی ہونے والا خطہ ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی طرح  ان مسلمانوں کے گھروں کی تلاشی بھی لی جاتی ہے اور کئی افراد کو ان کیمپس میں رکھا جاتا ہے جہاں ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔
ان کاروائیوں میں مسلم خواتین کی عصمت دری ، اسقاط حمل اور دوسرے غیر اخلاقی ہتھکنڈے شامل ہیں۔چین کی سرویلینس کا ہر تجربہ ان تر ک مسلمانوں پر کیا جاتا ہے۔دیگر ہمسایہ ممالک جن میں ازبکستان، کرغیزستان اور قزاکستان چین کے ان اقدام کے خلاف صرف اس لیے آواز نہیں اٹھاتے کیونکہ ان کے چین کے ساتھ معاشی معاہدےہیں  اور ایسے کئی احداف ہیں جن کی وجہ سے یہ سارے چپ سادھے ہوئے ہیں ۔

ترکمانستان اس حوالے سےمشرقی ترکستان کی آزادی کی تحریک کو  مکمل نظر انداز کررہا ہے کیونکہ وہ خود ایک کمیونسٹ ریاست ہے۔ان ہمسایہ ممالک کی طرف سے جب امداد کی کوئی کرن نظر نہیں آئی تو تحریک آزادی  کے کارکن امریکہ اور بھارت سے امداد طلب کرتے ہیں۔بھارت اس حوالے سے پیش پیش ہے ۔ چین کے اکسائی چن خطے پر بھارت کو ناکوں چنے چبوانے سے بھارت اب مشرقی ترکستان کے لوگوں کو اخلاقی اور سفارتی مدد دے رہا ہے۔

دوسری طرف امریکہ نے بھی مشرقی ترکستان کو دہشت گردی کی لسٹ سے نکال دیا ہے۔
مشرقی ترکستان اور مقبوضہ کشمیر میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں خطوں میں  انسانیت سوز مظالم اور انتہائی غیر اخلاقی اقدامات پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہیں ۔ ایک طرف بھارت کشمیری مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا ہے تو دوسری طرف بھارتی حکومت اور میڈیا مشرقی ترکستان کے مسلمانوں کی آزادی کی آواز میں شریک ہیں۔

بھاتی دوہرا رویہ اور معیار کیا ثابت کرتاہے؟ جب بھارت کو چین کی طرف سے مار پڑتی ہے تو وہ پاکستان سے تعلقات نارمل کرنے کا راگ الاپتا ہے اورجب چین پیچھے ہٹتا ہے تو یہی بھارت مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دیتا ہے۔ بحرحال مسلمانوں کی آزادی کی آواز  بھارت دبا سکا ہے اور نہ ہی چین مشرقی ترکستان کوآزادی حاصل کرنے سے روک سکتا ہے۔ تمام اسلامی ممالک کی اس لحاظ سے ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اسلامی فورمز پر ایسی تحریکوں کو حوصلہ افزائی کریں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :