پٹرولیم بحران

اتوار 21 جون 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل کے زمانے میں تیل کی امریکہ اوریورپی ممالک کو 17 روز بندش کے فیصلے کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔آخر کار امریکی وزیر خارجہ مذاکرات کے لئے سعودی عرب پہنچے اور کچھ امور کی یقین دہانی اور شرائط کے نتیجے میں تیل کی سپلائی تو بحال ہو گئی لیکن یورپی یونین اور امریکہ نے اس کا مستقل حل نکالنے کی طرف سنجیدگی سے غور و خوض شروع کر دیا۔

قومیں اپنے مسائل سے سیکھتی اور حالات کی طر ف پیش قدمی کے مختلف امور پر غور و خوض کرتی ہیں جس سے ترقی کا عمل آگے بڑھتا ہے۔انہوں نے پہلے مرحلے میں زیر زمین بنکرز کی تعمیر اور صلاحیت کو بڑھانے کا کام تیزی سے شروع کر دیا جسے کچھ ہی عرصے میں مکمل کر کے50 سال تک پٹرول کو ذخیرہ کرنے کے قابل بنا دیا گیا۔

(جاری ہے)

یعنی کوئی غیر یقینی صورت حال پیدا ہو جائے تو ان ممالک کے پاس پچاس سال تک کا ذخیرہ ہنگامی صورت حال سے نپٹنے کیلئے موجود ہے ۔

یہ لوگ صرف یہیں تک ہی نہیں رکے بلکہ انہوں نے توانائی کے دیگر ذخائر پر بھی کام شروع کر دیا اور اب دنیا میں ہائیبرڈ اور الیکٹرانک ٹیکنالوجی سے مزین ذرائع آمد و رفت کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور شائد اگلے کچھ سالوں تک وہ پیٹرول کی بچی کھچی ضرورت سے بھی بے نیاز ہو جائیں۔اگلے مرحلے میں پٹرول کی قوت رکھنے والے ممالک کی طرف سازشوں کا ایک جال بچھایا گیا اور ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت ایران عراق کی طویل لڑائی، کویت اور عراق شام اور دیگر ممالک کو جنگ کی آگ میں جھونک کر ان کے تیل کے ذخائر پر عملی طور پر قبضہ کر کے تیل کی دولت سے مالا مال زمینوں پر براہ راست کنٹرول حاصل کر لیا۔

عرب زمینوں پر حکمرانی،زمین کے رعشے رعشے سے پٹرول کا نکالاجانااور اپنی مرضی سے ان کی قیمتوں کا تعین۔یہ ایک لمبی داستان ہے۔لیکن ہم موجودہ پیٹرولیم بحران کی طرف آتے ہیں جس کیلئے اہم چیزوں کے بارے میں مختصرا علم ہونا چاہئے۔ملک میں موجود تمام پٹرولیم کمپنیاں پاکستان سٹیٹ آئل سے تیل خریدتی ہیں جس کے پاس ملکی ضرورت کے تناظر میں ایک ماہ کے پٹرول کا ذخیرہ پیشگی موجود ہوتا ہے۔

باقی تمام کمپنیاں اسی سے پٹرول خریدتی ہیں جن کے پاس قانون کے مطابق 21 دن کا پیٹرول موجود ہونا چاہئے لیکن یہ حالات کے پیش نظر صرف اپنی ضرورت کا سٹاک لیتی ہیں جوانٹرنیشنل مارکیٹ پر نظر رکھتے ہوئے ریٹ کے بڑھنے اور کم ہونے کی پیشگی اطلاع پر اسی کے مطابق تیل خریدتی ہیں۔اب یہ تیل کمپنیوں کا قیام بھی ایک ہوشربا داستان ہے۔آپ کو یاد ہو گا کہ ملک بھر میں پی ایس او کے گھسے پٹے اور نیم بجھے پٹرول پمپ ہو اکرتے تھے جن کی جگہ پرآراستہ و پیراستہ اور چمکتے دمکتے پٹرول پمپ بن گئے۔

ہم نے یقینی منافع کے حامل ادارے کو خود پاوٴں پہ کھڑ اکرنے اور پرائیویٹ سیکٹر کو اس میں دلچسپی بڑھانے کی بجائے سرمایہ کاری کے نام پر بین الاقوامی کمپنیوں کے حوالے کر دیا۔اب ملک میں تیل کی سپلائی اور اس منافع کا بیشتر حصہ ملی معیشت سے نکل کر باہر منتقل ہو رہا ہے۔یہ اس کا ایک اور پہلو ہے لیکن ہم اس بات پہ آتے ہیں کہ پیٹرول سستا تو ہوا لیکن ملنا مشکل ہو گیا۔

پیٹرول پمپس کے مالکان کی غالب اکثریت ارکارن پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی،سینٹ، بڑے بڑے بیوروکریٹس اور حکومتی شعبوں سے منسلک طاقتورلوگوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ مشتمل ہے جنہیں اس کیلئے زمیں بہت سستے داموں لیز پر حاصل ہوجاتی ہیجس کا دورانیہ 30 سال یا اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہی وہ ایک مشکل مرحلہ ہے جس کے بعد دولت کے دروازے کھلتے ہیں گو کہ اب سپریم کورٹ نے اس پہ ایکشن لے کر نئی پالیسی بنانے کا حکم جاری کیاہے ۔

لیز ملنے کے بعدپٹرولیم کمپنیاں اس پہ اپنا لوگو لگانے کیلئے ساز باز کرتی ہیں اورجس کے عوض لیز یا کرائے کے اخراجات اور باقی تزئین و آرائش کے اخراجات بھی اسی کیذمے۔اس کے بعد اس پمپ سے منسلک ٹک شاپ، ٹائر شاپ اور سروس اسٹیشن کے لوگ آ جاتے ہیں جن کا کرایہ سن کر عام آدمی کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔آج تککسی نے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی کہ 100 روپے کا پنکچر ،300روپے کی سروس اور ٹک شاپ پہ ملنے والی عمومی اشیاء سے ماہانہ لاکھوں روپے کرایہ اور ملازمین کی تنخواہیں اور اپنا منافع کیسے حاصل کیا جاتا ہے ؟ یہاں بھی آپ اور میں تختہء مشق بنتے ہیں۔

ایک اور بہت اہم معاملہ ان پمپس پر کام کرنے والے ملازمین کا بھی ہے جن کو بہت کم اجرت پر رکھا جاتا ہے اور کوئی جاب سیکورٹی نہیں ہوتی۔حکومت کی قائم کردہ 8گھنٹے ڈیوٹی اور ساڑھے سترہ ہزار تنخواہ پر شاید ہی کوئی پورا اترتا ہو۔بارہ گھنٹے ڈیوٹی پندرہ ہزار سے بھی کم تنخواہ معمول کی بات ہے جس کے نتیجے میں ایک بار پھرہم اور آپ اس استحصالی طبقے کا نشانہ بنتے ہیں کہ پٹرول پورا نہیں مل پاتا۔

حکومت کوآئل کمپنیوں کو ایک خاص مقدار میں پیٹرول خریدنے کے لئے ایک نظام کا پابند بنانا ہو گا جس کے نتیجے میں بیشتر وہ منافع ہی کماتے ہیں اور کبھی کبھار اگرکچھ نقصان بھی اٹھانا پڑجائے تو اسے بھی برداشت کرنے کا عادی بنایا جائے۔ بے ایمانی کی اوپر سے نیچے تک اس چین کوختم کرنے کے لئے ایک مربوط اور جامع لائحہء عمل طے کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت اس اہم شعبے سے جڑے افراد اور ملازمین کو ان کے حقوق اور مالی استحصال سے بچایا سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :