افغانستان اور سہولت کاری کی مسلم تاریخ

بدھ 1 ستمبر 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

افغانستان پر مسلط کی گئی طویل بربریت اور جدید دنیا کی چھیڑی گئی قدیم طرز کی  جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچی اور اقتدار ان کے پاس واپس  پہنچا جن سے چھین کر تیار کی گئی کٹھ پتلیوں کے ہاتھ میں دیا گیا تھا لیکن دنیا نے دیکھا کہ پرائی بیساکھیوں پر قائم والی مصنوعی قیادت افغانیوں کو چھوڑ کر ساتھی ملکوں میں کیسے دم دبا کر  بھاگ گئی ۔

ہر طاقتور کی طرح امریکہ بھی اپنے اثر و رسوخ کے دائرے کو بڑھانے اور  اپنے مفادات کا تحفظ کرنے والی حکومتیں دنیا بھر اور بالخصوص مسلم ممالک میں قائم کرنے کے لئے اقدامات کرتا رہتا ہے۔اسلامی اصولوں اور دینی نظریات پر قائم ہونے اور اس کی عملداری کا جذبہ رکھنےوا لی کوئی بھی حکومت اور تحریک ان کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی ۔

(جاری ہے)

کیسی عجیب بات ہے کہ جدید دنیا میں  ظلم وناانصافی پر قائم ہونےو الی حکومتوں کو تو تحفظ دیا جاتا ہے، فحاشی و عریانی  کو  فروغ دینے والوں کی اظہار آزادی کے نام پر پشت پناہی کی جاتی ہے لیکن جیسے کہیں کوئی اسلامی گروپ یا دینی نظریہ پروان چڑھتا ہے  تو ان کو مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

اسی مکروہ جذبے کی تسکین کے لئے کتنے ہی معصوم لوگوں کی جانیں لی گئیں، کتنے ملکوں کی تہذیبی روایات اور اقتدار میں دراڑیں ڈالی گئیں اور دنیا کی تاریخ کا مطالعہ سے  یہ بات واضح طور پرسامنے آتی ہے کہ جہاں جہاں بھی ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے  زبردستی کی تبدیلی کروائی گئی  وہاں نہ تو وہ حکومتیں اپنا معیار اور وقار قائم رکھ پائیں  اور نہ ہی  ان کی عوام آسودہ حال ہو سکی۔

کو ئی بھی ڈکٹیٹر شپ یا جمہوریت عالمی طاقتوں کو اس وقت نہیں کھٹکتی جب تک و ہ اس کے مفادات کے لئے کام کرتی رہے اور جیسے ہی ان سے ذرہ بھر بدگمانی کی بو محسوس ہونے لگتی ہے وہاں اذیت ناک تبدیلی کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔مصر میں اخوان المسلموں کی خالصتاً جمہوری طریقے اور عوام کی رائے عامہ سے قیام پانے والی حکومت کو کس طرح  تخت  و تاراج کیا گیا۔

صدر محمد مرسی کو   سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ مصنوعی عدلیہ قائم کی گئی ،جمہوری عمل کو سبوتاژ کیا گیا اورمنتخب صدر اپنے لئے انصاف طلب کرتے کرتے کمرۂ عدالت میں حرکت قلب بند ہونے سے ملک عدم سدھار گئے۔یہی کچھ عراق میں کیا گیا۔کیمیائی ہتھیاروں کے بے بنیاد الزام کا تماشہ لگا کر پوری عالمی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔

پورے ملک کی جامہ تلاشی لی گئی اور سخت  ترین پابندیوں  کا جال بچھایا گیا اور پھر نہتا کرنےکے بعد وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ مسلمان ملکوں کے ہی ہوائی اڈےاستعمال کئے گئے اور یوں ہنستابستا عراق تخت و تاراج کر دیا گیا اور صدر صدام حسین کو پھانسی گھاٹ تک لے جا کر نشان عبرت بنا دیا گیا۔یہی کچھ لیبیا  میں دہرایا گیا جہاں کرنل قذافی کو  ذلت آمیز موت سے دوچار کیا گیا اور آج کا لیبیا آپ کے سامنے ہے۔

طاقت کی یہی بدمستی  نائن الیون کو ٹوون ٹاورز پر حملے کا الزام لے کر افغانستان پر چڑھ دوڑی۔ پوری دنیا کو ایک جھوٹے مفروضے کو سچ ماننے پر  مجبور کیا گیا اورمفلوک الحال افغانستان پر حملہ  کر دیا گیا۔ ہمارے ائر بیس امریکی طیاروں کی اڑانوں کے لئے پیش کر دئیے گئے اور کم و بیش ستر ہزار پاکستانی بھی اس میں رزق خاک ہوئے۔انہی طاقتوں کے جذبۂ انسانیت کو  نہ تو بھارت میں ہونےو الے مسلمانوں کے قتل عام پر کبھی کوئی جھرجھری محسوس ہوئی،نہ کشمیر میں ہونے والی بربریت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرامد پر نہ کروانے پر کوئی پوچھ گچھ کی گئی، نہ  نہتے فلسطینیوں پر ہونےو الی بمباری پہ ان کی آنکھیں آج تک کھلیں ، نہ میانمار میں مسلمانوں کو زندہ جلانےو الوں کی سرکوبی کی گئی ۔

اس سارے منظر میں ایک ہی سچائی کھل کر سامنے آتی ہے کہ عالم کفر صرف اور صرف اسلام کے نام اور اس کی مضبوط تہذیبی اقدار اور تعلیمات  کے پنپنے سے بہر حال خوفزدہ ہے جن پر ابھی ہم حقیقی عمل پیرا بھی نہیں اور اگر ہم واقعی حقیقی معنوں میں سچے مسلمان بن کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو خود سوچئے دنیا کا منظر نامہ کیا ہو گا۔ دنیا کو  اب صرف یہ فکر لاحق ہے کہ  افغانستان میں عورتوں کو پردے میں رہنے کا حکم دے کر ان کی آزادی سلب کر لی جائے گی۔

انہیں مردوں کو شانہ بشانہ کام کرنے نہیں دیا جائے گا   یا نہیں۔ موسیقی کی اجازت ملے گی یا نہیں اور اس طرح کے اور سامنے آنے والے خدشات سے  ان کی غیر سنجیدگی کا خود اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ابھی جبکہ وہاں نظام حکومت بھی بحال نہیں ہو سکا مگر خبریں ہیں کہ تھمنے میں ہی نہیں آ رہیں کہ پتا نہیں کیا ہونے جا رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ طالبان کی اس سے قبل قائم ہونے والی حکومت میں جذباتیت کا عنصر نمایاں تھا لیکن اب وقت اور زمانے نے انہیں کافی کچھ سکھا دیا ہے۔

دنیا نے اپنا پورا زور لگا کے دیکھ لیا اب کم از کم انہیں موقع دیا جانا چاہئے کہ وہ اپنے ملک کے نظام کو اپنے مطابق قائم کر سکیں جیسے پوری دنیا  کر رہی ہے ۔اللہ کرے کہ دو دہائیوں سے جاری قتل و غارت اور بد امنی ختم ہو اور ایک نئی اسلامی فلاحی، جدید تقاضوں سے باخبر افغان ریاست قیام پذیر ہو جو امت مسلمہ کو متحد کرنے کا سبب بنے ۔ شاعر مشرق نے کیا خوب کہا تھا:۔


افغان باقی  کہسار باقی
الحکم للہ و الملک للہ
مسلمانوں کے زوال کی داستان میں ایک ہی بنیادی چیز نمایاں نظر آتی ہے کہ ہم دراصل خود ہی  دشمن کے سہولت کار بنتے ہیں اور اسے موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ہماری  ہی زمینوں میں آ کر ہمیں تہ تیغ کرے اور ہمارے  ہی جسموں کو ایندھن کے طور پر استعمال کر کے ہم پر حکومت کرے۔

پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے برصغیر میں انگریزوں کی حکومت سے لے کراس پورے خطے میں پھیلنے والی آگ کے پیچھے آپ کو اندرونی سہولت کاری ہی نظر آئے گی جو وقت بدلنے  پر کہیں ڈالروں سے بھرے بیگ لے کر فرار ہوتی نظر آئے گی اور کہیں دشمن کے جہاز کے پہیوں کے اندر کچلے جانے یا فضا میں بلند ہونے پر زمین پہ پٹختی دکھائی دے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :