
چین۔امریکہ کشیدگی کے مضمرات
جمعہ 31 جولائی 2020

شاہد افراز خان
عالمی منظرنامے میں چین اور امریکہ کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی بین الاقوامی سطح پر تشویش کا باعث بن چکی ہے۔
(جاری ہے)
آج کی دنیا میں جہاں امن اور ترقی کو فوقیت حاصل ہے وہاں "سرد جنگ" کی ذہنیت ہر گز قابل قبول نہیں ہے لیکن اسی سوچ کے تابع چند امریکی سیاستدانوں کی چین مخالف جارحانہ پالیسی دونوں بڑے ممالک کے درمیان باہمی تعلقات میں بگاڑ کا سبب بن رہی ہے جو پورے "ورلڈ آرڈر" کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو انہی امریکی سیاستدانوں میں شامل ہیں جو چین کی مخالفت میں پیش پیش ہیں اور ابھی حال ہی میں انہوں نے چین میں حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور چین کے سوشلسٹ نظام کے خلاف "اشتعال انگیز "خطاب کرتے ہوئے چین مخالف اتحاد تشکیل دینے کی باتیں کیں ۔بظاہر ایسا محسوس ہوا کہ وہ چاہتے ہیں کہ "وائٹ ہاوس" کی منشا کے مطابق دنیا چین پر چڑھ دوڑے مگر آج کے زی شعور معاشروں میں ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ہر ملک کو طویل المیعاد پیمانے پر اپنا اور اپنے عوام کا مفاد عزیز ہے لہذا دنیا سے ایسی توقعات وابستہ کرنا محض خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔اس کی ایک حالیہ مثال یورپی یونین کی جانب سے چین کے ساتھ ایک اہم تجارتی سمجھوتے پر اتفاق ہے جسے فریقین رواں برس کے اواخر تک حتمی شکل دے دیں گے جبکہ دوسری مثال جنوبی بحیرہ چین کے حوالے سے متعلقہ فریقوں کی امریکی بیانیے کی مخالفت اور مشاورت کے ذریعے اختلافات کے حل پر آمادگی ہے۔چین نے تو گزشتہ دہائیوں کے دوران بارہا اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی کےخلاف اشتعال انگیز یا جارحانہ طرزعمل نہیں اپنا سکتا ہے لیکن اگر اُس کے قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو برابری کی بنیاد پر جواب لازمی دیا جائے گا۔
امریکہ کی چینی کمیونسٹ پارٹی پر تنقید بھی بلاجواز ہے کیونکہ آج اگر چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے تو اس کی بنیاد تو کمیونسٹ پارٹی نے ہی ڈالی ہے ،گزشتہ چار دہائیوں کے دوران 80 کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت سے چھٹکارہ دلانا ، عالمی جی ڈی پی کی ترقی میں 30 فیصد سے زائد حصہ اور عالمی صنعتی چین کو مستحکم رکھنا ،یہ سب چینی کمیونسٹ پارٹی کی دوراندیش قیادت اور موئثر گورننس کی بدولت ہی تو ممکن ہوا ہے۔چین نے ہمیشہ پرامن ترقیاتی راہ کا انتخاب کیا ہے اور کبھی بھی اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ،چین اس بات کا داعی ہے کہ تمام ممالک اپنے قومی تقاضوں کے مطابق" ترقیاتی ماڈلز " اپنانے میں حق بجانب ہیں۔تاریخی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ چین نے جس ترقیاتی سمت کا انتخاب کیا وہ بالکل درست اور عوام کی حمایت پر مبنی تھی۔حال ہی میں ہارورڈ کینیڈی اسکول کے تحقیقی مرکز نے ایک سروے کے نتائج جاری کیے جو بتاتے ہیں کہ چین میں 93 فیصد سے زائد شہری چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں اپنی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں اور حکومتی اقدامات کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ایسے میں چین کے خلاف سرد جنگ کی شروعات اور "زیروسم ذہنیت" کی کوئی منطق نہیں ہے بلکہ یہ اقدام عالمی امن کے لیے خطرہ اور انسانیت کے مفادات کے لیے تباہ کن ہے۔امریکہ کو عالمی برادری سمیت پورے چینی عوام کی مخالفت بھی مول لینا پڑے گی اور نتیجہ ماسوائے ناکامی اور شرمندگی کے کچھ نہیں نکلے گا۔
چین۔امریکہ سفارتی تعلقات کے قیام کو اکتالیس برس بیت چکے ہیں اور دنیا نے دیکھا کہ اس عرصے کے دوران دو طرفہ تعاون کی بدولت نہ صرف دونوں ممالک کے لیے بلکہ عالمگیر سطح پر ثمرات حاصل ہوئے ہیں۔اگر ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو 28 فروری1972 کو دونوں ممالک کے درمیان طے شدہ مشترکہ اعلامیے میں واضح کیا گیا تھا کہ اگرچہ چین اور امریکہ کے درمیان سوشلسٹ نظام اور خارجہ پالیسی سے متعلق اختلافات موجود ہیں تاہم اس سے قطع نظر فریقین ایک دوسرے کی خودمختاری و جغرافیائی سالمیت کے احترام ، ایک دوسرے کے خلاف عدم جارحیت اور داخلی امور میں عدم مداخلت ،برابری، باہمی مفاد اور پر امن بقائے باہمی کے اصول پر عمل پیرا رہیں گے۔ چین کی آج بھی کوشش ہے کہ انہی اصولوں پر عمل پیرا رہتے ہوئے آگے بڑھا جائے اور تنازعات کو باہمی مشاورت اور مذاکرات سے حل کیا جائے لیکن امریکہ اپنی "سپر پاور" کی سوچ سے اب تک باہر نہیں نکل سکا ہے۔عالمی مبصرین کے نزدیک ٹرمپ انتظامیہ کی چین مخالف روش کا مقصد امریکہ کو درپیش شدید نوعیت کے ملکی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے ۔وبا سے موئثر طور پر نمٹنے میں امریکی حکومت کی ناکامی ، نسلی تنازعات ، بے روزگاری ، معیشت پر پڑنے والا دباو اور نومبر میں صدارتی انتخاب ، یہ وہ تمام عوامل ہیں جن کے باعث "چین کارڈ" امریکی سیاستدانوں کی بظاہر آسان ترجیح ہے لیکن اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہو سکتے ہیں۔
چین آج بھی عالمی امن کے قیام ، عالمگیر اقتصادی ترقی کے فروغ اور ضوابط پر مبنی بین الاقوامی گورننس کے نظام کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ایسے میں محض چند سیاسی مفادات کے حصول کے لیے چین۔امریکہ تعلقات کو داو پر لگانا دانشمندی نہیں ہو گی۔دنیا آج کسی سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے ،سرد جنگ کی فرسودہ سوچ بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی نفی اور مشترکہ ترقی و استحکام کے لیے تعمیری کردار سے انحراف ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کو درپیش موجودہ مسائل کا حل عالمی طاقتوں کی ایک بڑی ذمہ داری ہے بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب انسانیت کو عالمگیر وبا کا مشترکہ چیلنج درپیش ہے۔چین۔امریکہ دوستانہ روابط اور بہتر تعلقات کئی اہم بین الاقوامی مسائل کے حل کی کلید ہے لیکن بنیادی شرط اناپرستی ،تعصب اور تنگ نظری سے بالاتر سوچ اپنانے کی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
شاہد افراز خان کے کالمز
-
چین کا معاشی آوٹ لُک 2022
پیر 10 جنوری 2022
-
افغانستان میں چین کے انسان دوست اقدامات
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
چین کا عوامی حاکمیت کا تصور
منگل 7 دسمبر 2021
-
اقتصادی تعاون کا نیا ماڈل
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
جدوجہد سے عبارت 100 سال
جمعہ 19 نومبر 2021
-
حقیقی وژنری قیادت
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
عالمی سطح پر"میڈ اِن چائنا" کی اہمیت
ہفتہ 6 نومبر 2021
-
علاقائی انضمام سے مشترکہ ترقی کا خواب
جمعہ 29 اکتوبر 2021
شاہد افراز خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.