چین کا فوڈ سیکیورٹی میں قائدانہ کردار

ہفتہ 11 ستمبر 2021

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے 2050 تک خوراک کی پیداوار کو بھی دگنا کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم ، عالمی سطح پر پیدا ہونے والی خوراک کا تقریباً 14  فیصد صارفین تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق  2020 میں 720 سے 811 ملین افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ 2020 میں تقریباً ہر تین میں سے ایک فرد کو مناسب خوراک تک رسائی حاصل نہیں تھی۔

ایسے میں اگر ہر سال ضائع شدہ خوراک کا ایک چوتھائی بچا لیا جائے تو   دنیا میں کوئی بھوکا نہ رہے۔ وبائی صورتحال نے فوڈ سیکیورٹی کی کوششوں کو شدید طور پر متاثر کیا ہے ۔ لاک ڈاؤن اور نقل و حمل کی پابندیوں کی وجہ سے سپلائی چین میں رکاوٹوں کے نتیجے میں خوراک کے ضیاع میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ، بالخصوص جلد خراب ہونے والی زرعی مصنوعات  جیسے پھل اور سبزیاں ، مچھلی ، گوشت اور ڈیری مصنوعات اس میں شامل ہیں۔

(جاری ہے)


ایک ایسے وقت میں جب دنیا کووڈ۔19سے نمٹتے ہوئے بحالی کے لیے کوشاں ہے وہاں اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ خوراک کے تحفظ کے نظام میں بہتری لائی جائے تاکہ کسی بھی قسم کی آفات کی صورت میں عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پیدا ہونے والے اناج کا ایک تہائی ضائع کر دیا جاتا ہے جبکہ ضائع کردہ کھانے کی مقدار تقریباً 1.3 ارب ٹن ہے۔

اگر اس رحجان کو روکا نہ گیا تو 2030 تک ضائع کردہ کھانے کی مقدار 02 ارب ٹن سے تجاوز کر جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کھانے کے ضیاع کو روکنے کے لیے باربار اپیل کر رہی ہے تاکہ کروڑوں لوگوں کو غذائی قلت سے بچایا جا سکے۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ افریقہ ،مشرق وسطیٰ اور ایشیائی خطے میں غذائی بحران کے باوجود خوشحال معاشروں میں خوارک کا ضیاع افسوسناک ہے۔


دوسری جانب خوراک کے تحفظ میں چین کا عالمگیر کردار انتہائی نمایاں ہے۔ابھی حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ نے  چین کے صوبہ شان دونگ کے شہر جی نان میں منعقدہ عالمی کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ خوراک کا تحفظ، انسانی بقا سے منسلک بنیادی مسئلہ ہے۔خوراک کے ضیاع کو کم کرنا خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کااہم ذریعہ ہے۔کووڈ-19 وبا کے پیش نظر مختلف ممالک کو اس ضمن میں ٹھوس اقدامات  کرنے چاہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ مختلف ممالک اس کانفرنس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ کے  2030 کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کو عمل میں لائیں گے اور دنیا میں خوراک کے  تحفظ کے لیے مزید خدمات سرانجام دیں گے۔
چین نے  کووڈ۔19کی موجودہ وبائی صورتحال میں بھی غذائی اجناس کی پیداوار اور قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنایا ہے۔ چین دنیا میں زرعی مصنوعات کی برآمدات اور درآمدات کے حوالے سے بڑے ترین ممالک میں شامل ہے ، اسی باعث عالمی فوڈ مارکیٹ اور فوڈ سیکیورٹی میں چین ایک اہم شراکت دار ہے۔

خوراک میں چین کی خودکفالت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وبائی صورتحال اور چند علاقوں میں سیلاب جیسی آفات کے باوجود چین میں فصلوں کی بہترین پیداوار کو یقینی بنایا گیا ہے ،اناج کی پیداوار مسلسل کئی برسوں سے 650ملین میٹرک ٹن سے زائد چلی آ رہی ہے ، اہم فصلوں مثلاً گندم اور چاول وغیرہ کی مجموعی پیداوار مستحکم ہے ۔
چین ملک میں خوراک کی وافر دستیابی کے باوجود غذائی تحفظ کے نظریے پر عمل پیرا ہے ،خوراک کے ضیاع کو روکنے کے لیے کلین پلیٹ مہم جیسے اقدامات میں تیزی لائی گئی ہے اور اس بات کا شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اناج کے ہر ایک دانے کی اہمیت ہے۔

چین کے یہ اقدامات اقوام متحدہ کے دو ہزار تیس کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں شامل بھوک کے مکمل خاتمے کی تکمیل کے لیے اہم ہیں۔چینی صدر شی جن پھنگ خوراک کی قدر سے متعلق اکثر ہدایات جاری کرتے رہتے ہیں اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ اگرچہ ملک میں اناج اور فصلوں کی مسلسل بہترین پیداوار حاصل ہو رہی ہے لیکن چینی قوم کو فوڈ سیکیورٹی سے متعلق  بحران کے حوالے سے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔

انہوں نے تمام متعلقہ محکموں پر زور دیا کہ خوراک کے ضیاع کو روکنے کے لیے ایک طویل المدتی میکانزم تشکیل دیں۔چین میں ریستورانوں نے بھی کھانے کے آرڈرز میں اس بات کو لازمی بنایا کہ صارفین آغاز میں کھانے کی نصف مقدار آرڈر کریں گے تاکہ کھانا ضائع نہ ہو۔
چین کا آئین بھی خوراک کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ، زرعی قانون شہریوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ اشیائے خوراک کو محفوظ کریں اور اسے ضائع ہونے سے بچائیں۔

اس کے علاوہ ماحولیاتی قانون ،صارفی حقوق کے تحفظ کا قانون اور فوڈ سیکیورٹی قانون بھی خوراک کے تحفظ کی حمایت کرتے ہیں۔
ایک بڑے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین نے دنیا کے کئی ممالک اور عالمی تنظیموں کے ساتھ کثیر الجہتی کے فروغ کے لیے زرعی شعبے میں تعاون کے معاہدے کر رکھے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ چین گلوبل فوڈ سکیورٹی کو آگے بڑھانے کے لیے انتہائی فعال ہے۔

چین نے غذائی قلت کے شکار کئی افریقی ممالک کو بھی زرعی منصوبہ جات میں مدد فراہم کی ہے تاکہ وہ اپنی غذائی ضروریات پوری کر سکیں۔ چین میں ایک کہاوت ہے کہ چاول کا پیالہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہونا چاہیے ،اسی تصور پر عمل پیرا ہوتے ہوئے چین نہ صرف اپنے عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی خوراک کا ضیاع روکنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ایسے میں عالمی برادری کو بھی خوراک کے ضیاع کو روکنے سمیت فوڈ سپلائی چینز فعال رکھنے کے لیے چین کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے وگرنہ کووڈ۔19جیسی آفات کے باعث دنیاکے غریب خطوں میں انسانی صورتحال کو مزید چیلنجز پیش آ سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :