مشرقی پاکستان اور گوئبلز

پیر 25 دسمبر 2017

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران جرمنی کے وزیرِ پروپیگنڈہ جوزف گوئبلز کے کمالات نے اُسے تاریخ میں جھوٹوں کے بادشاہ کے طور پر امر کر دِیا۔ ہٹلر کی کابینہ کا حِصہ ہوتے ہوئے یقینا گوئبلز کو بھی ہٹلر کی طرح یقین ہو گا کہ ایک دن ساری دنیا اسکے پیروکاروں کے نرغے میں ہوگی۔ ہٹلر کا خواب تو شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا مگر اسکے چہیتے گوئبلز کا ڈنکا آج بھی ساری دُنیا میں بج رہا ہے۔

اسکا ایک ثبوت مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مُبینہ مظالم کے قِصے اور پاکستانی ”دانشوروں“ کا آمنا و صدقنا کہنا ہے۔ عوامی لیگ کی پروپیگنڈہ مشنری کئی سالوں سے تواتر سے یہ پروپیگنڈہ کر رہی ہے کہ پاکستانی فوج نے آپریشن کے دوران تیس لاکھ بنگالیوں کو قتل کِیا اور تین سے چار لاکھ عورتوں سے زیادتیاں کی گئیں۔

(جاری ہے)

یہ اعدادوشمار ہی ان کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہیں۔ اگر یہ تعداد صحیح ہے تو اسکے مطابق آپریشن کے ساڑھے آٹھ ماہ کے دوران ہر روز بارہ ہزار کے قریب افراد کو قتل کِیا گیا۔ روزآنہ کے حساب سے اتنی اموات تو امریکہ کی عراق اور افغانستان پر کی گئی کارپٹ بمباری سے بھی نہیں ہوئیں۔ سویت یونین بھی افغانستان پر اپنے دس سالہ قبضے کے دوران اپنی تمام تر ظالمانہ قوت کے ساتھ بھی روز آنہ تین سے چار سو سے زیادہ افغانوں کو قتل نہ کر سکا۔

تینتالیس ہزار کے قریب ریگیولر پاکستانی فوج جو اپنی ہی فوج کے باغیوں ایسٹ بنگال رجمنٹ سے بھی نبرد آزما تھی جو میجر (بعد میں جنرل اور بنگلہ دیش کے صدر) ضیاء الرحمٰن کی قیادت میں ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ کو اعلانِ آزادی کر چُکے تھے ، مُکتی باہنی کے لاکھوں افراد پر مشتمل تربیت یافتہ جتھوں کا بھی مقابلہ کر رہی تھی، بھارتی فوج کے در اندازوں سے بھی لڑ رہی تھی ، حکومتی تنصیبات کا بھی دفاع کر رہی تھی اور اسکے ساتھ ساتھ روزآنہ کے حساب سے بارہ ہزار بنگالیوں کو قتل بھی کر رہی تھی اور سولہ سو کے قریب عورتوں کو زیادتی کا نشانہ بھی بنا رہی تھی۔

ہے کوئی جھوٹ کی انتہاء؟ ہے کوئی یہ بتانے اور لکھنے والا کہ ایسٹ بنگال رجمنٹ اور دیگر بنگالی آرمی اور پیرا ملٹری فورسزمارچ سے دسمبر ۱۹۷۱کے ساڑھے آٹھ ماہ کے دوران کونسا وظیفہ پڑھتی رہیں اور مکتی باہنی اور بھارتی ایجنٹوں نے کیا گُل کِھلائے۔ ہے کوئی یہ بتانے اور لکھنے والا کہ لاکھوں بہاریوں اور مغربی پاکستانیوں پر ان دِنوں کیا گُزری۔

یہ ”راز“ کون کھولے گا کہ لوٹ مار کے بعد لاکھوں بہاریوں کے گھروں پر کس نے قبضے کر لئے اور ان کو ”مہاجر “ کیمپوں میں کِس نے دھکیلا ، جہاں یہ آج بھی ناگفتہ بہ حالات میں زندگیوں کے دِن کاٹ رہے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں ہے کہ فوجی آپریشن کے دوران ایسے واقعات پیش آئے ہونگے۔ ایسا ایک بھی واقعہ نہیں ہونا چاہئے تھا، ہر انسان کی جان اور عزت و آبرو محترم ہے۔

لیکن بھارتی میڈیا کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کو بڑھاوا دیئے جانا کہاں کا انصاف ہے۔ ایک کمان اور ڈسپلن کے تحت نبرد آزما فوج کے خلاف اس طرح کا پروپیگنڈہ قابلِ مذمت ہے۔ فوج ایک چو مکھی لڑائی لڑ رہی تھی۔ اسے باغی فوج اور نیم فوجی دستوں کی مزاحمت کا سامنا تھا۔ مکتی باہنی کے تربیت یافتہ جتھے اور بھارتی فوج کے در انداز ہر طرف سے فوجی اور سولین ٹارگٹس پر حملے کر رہے تھے۔

سولین ڈھانچہ مکمل طور پر گر چُکا تھا۔حکومتی تنصیبات اور اداروں کا تحفظ ایک چیلنج بن چُکا تھا۔ مغربی پاکستانی سول ملازمین ، عام افراد اور بہاریوں کا تحفظ ناممکن ہوچُکا تھا۔ کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان حالات سے نبرد آزما فوج عورتوں سے زیادتیوں میں ملوث ہوگی۔ اور یہ کیسے تصور کر لیا گیا کہ اس طرح کے واقعات میں ہزاروں کی تعداد میں سر گرم عمل بھارتی در انداز اور بھارت کے تربیت یافتہ مکتی باہنی کے جتھے ملوث نہیں رہے ہونگے۔

سب جانتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق کے اسلامائزیشن کے دور سے پہلے انگریزی اور دیگر زبانوں میں گالیوں کا بے دریغ استعمال ایک معمول کے طور پر تھا ۔ جرنیلوں کی بڑھکوں یا گالی گلوچ کو ظلم وستم کے کِسی منصوبے کا حِصہ بتانا پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔
پاکستان کے دانشوروں کو مغربی پاکستان کے اُس وقت کے سیاستدانوں ، فوجی اور سول حکمرانوں اور افسر شاہوں کی کو تاہیو ں پر یقینا غور کر نا چاہئے اور سقوطِ ڈھاکہ کی وجوہات تلاش کر نی چاہئیں۔

اِس کے ساتھ ساتھ اِس بات پر بھی غور کر نا چاہئے کہ آزادی کے رہنماوں اور ابتدائی گیارہ سالوں تک حکمرانی کر نے والے قائدِاعظم، لیاقت علی خان، اور بنگالی سیاستدان خواجہ ناظم الدین، اسکندر مرزا، محمد علی بوگرا، حسین شہید سہروردی اور نورالامین جو گورنر جنرل بھی رہے، صدر بھی ، وزیرِ اعظم بھی اور نائب صدر بھی نے کِیا کو تاہیاں کیں اور وہ مشرقی پاکستان کے ”جہاندیدہ، غیور اور سیاسی شعور سے مالا مال“ عوام کی توقعات پر کیوں پورا نہ اُتر سکے اوربعد کے سالوں میں جنرل ایوب خان نے مشرقی پاکستان میں ایسے کیا ”مظالم“ ڈھا دیئے اور جنرل اعظم خان کا کردار کیا رہا۔

اس بات پر بھی غور ہونا چاہئے کہ کیا بنگالی لیڈروں میں یہ رائے نہیں پائی جاتی تھی کہ ۱۹۴۰ کی قرارداد لاہور میں مسلمانوں کے دو ممالک کے قیام کی بات کی گئی تھی۔ دانشوروں کی طرف سے ایک تاثر یہ بھی دِیا جاتا ہے کہ علیحدگی کی وجہ محض فوجی آپریشن تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ علیحدگی کا چارٹر شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نقاط ۱۹۶۶ میں وجود میں آچُکے تھے۔

کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ مجیب الرحمٰن ، علیحدگی کی اسکیم اگر تلہ سازش کیس کا اہم کردار تھے اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ مجیب الرحمٰن نے ۵ دسمبر ۱۹۶۹ کو ہی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دینے کا اعلان کر دِیا تھا اور جنرل یحییٰ خان کے رچائے ہوئے عام انتخابات اس کے ایک سال بعد سات دسمبر ۱۹۷۰ کو ہوئے تھے۔ فوجی آپریشن سرچ لائٹ ۲۵ اور ۲۶مارچ ۱۹۷۱ کی درمیانی شب کو شروع ہُوا اوراسکے اگلے ہی دِن یعنی ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ کو میجر (بعد میں جنرل اور بنگلہ دیش کے صدر) ضیاء الرحمٰن کی قیادت میں منحرف بنگالی فوجی اور نیم فوجی دستوں نے اعلانِ آزادی کر دِیا۔

اِس کے چند دِن بعد ۱۷ اپریل ۱۹۷۱ کو کلکتہ میں بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ مُکتی باہنی کے لاکھوں افراد پر مشتمل تربیت یافتہ جتھوں کا قیام کیا چند ہفتوں میں عمل میں آگیا تھا ۔ کیا اِس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ علیحدگی کی کچھڑی فوجی آپریشن سے پہلے ہی تیار ہو چکی تھی۔ جہاں ہمارے دانشور یہ فرماتے رہتے ہیں کہ مغربی پاکستان نے بنگالیوں کو حقوق نہیں دِیے ، ان کو کمتر سمجھا اور اپنا حِصّہ تسلیم نہیں کِیا وہیں دانشوروں کو اِس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ بنگالیوں نے بھی شاید اپنے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا تھا اور ان کو بھی جغرافیائی طور پر کٹے ہوئے سیکڑوں میل دور مغربی پاکستان کے ساتھ رہنا منظور نہ تھا۔


پاکستان کے دانشوروں کو اُس وقت کے فوجی اور سول حکمرانوں، سیاستدانوں اور افسر شاہوں کی کو تاہیو ں پر یقینا غور کر نا چاہئے اور سقوطِ ڈھاکہ کی وجوہات تلاش کر نی چاہئیں مگر دشمن کے جھوٹے پروپیگنڈے کا شِکار ہوکر اپنی ہی جڑیں نہیں کاٹنی چاہئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :