
مشرقی پاکستان اور گوئبلز
پیر 25 دسمبر 2017

شاہد سدھو
(جاری ہے)
پاکستان کے دانشوروں کو مغربی پاکستان کے اُس وقت کے سیاستدانوں ، فوجی اور سول حکمرانوں اور افسر شاہوں کی کو تاہیو ں پر یقینا غور کر نا چاہئے اور سقوطِ ڈھاکہ کی وجوہات تلاش کر نی چاہئیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ اِس بات پر بھی غور کر نا چاہئے کہ آزادی کے رہنماوں اور ابتدائی گیارہ سالوں تک حکمرانی کر نے والے قائدِاعظم، لیاقت علی خان، اور بنگالی سیاستدان خواجہ ناظم الدین، اسکندر مرزا، محمد علی بوگرا، حسین شہید سہروردی اور نورالامین جو گورنر جنرل بھی رہے، صدر بھی ، وزیرِ اعظم بھی اور نائب صدر بھی نے کِیا کو تاہیاں کیں اور وہ مشرقی پاکستان کے ”جہاندیدہ، غیور اور سیاسی شعور سے مالا مال“ عوام کی توقعات پر کیوں پورا نہ اُتر سکے اوربعد کے سالوں میں جنرل ایوب خان نے مشرقی پاکستان میں ایسے کیا ”مظالم“ ڈھا دیئے اور جنرل اعظم خان کا کردار کیا رہا۔اس بات پر بھی غور ہونا چاہئے کہ کیا بنگالی لیڈروں میں یہ رائے نہیں پائی جاتی تھی کہ ۱۹۴۰ کی قرارداد لاہور میں مسلمانوں کے دو ممالک کے قیام کی بات کی گئی تھی۔ دانشوروں کی طرف سے ایک تاثر یہ بھی دِیا جاتا ہے کہ علیحدگی کی وجہ محض فوجی آپریشن تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ علیحدگی کا چارٹر شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نقاط ۱۹۶۶ میں وجود میں آچُکے تھے۔ کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ مجیب الرحمٰن ، علیحدگی کی اسکیم اگر تلہ سازش کیس کا اہم کردار تھے اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ مجیب الرحمٰن نے ۵ دسمبر ۱۹۶۹ کو ہی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دینے کا اعلان کر دِیا تھا اور جنرل یحییٰ خان کے رچائے ہوئے عام انتخابات اس کے ایک سال بعد سات دسمبر ۱۹۷۰ کو ہوئے تھے۔ فوجی آپریشن سرچ لائٹ ۲۵ اور ۲۶مارچ ۱۹۷۱ کی درمیانی شب کو شروع ہُوا اوراسکے اگلے ہی دِن یعنی ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ کو میجر (بعد میں جنرل اور بنگلہ دیش کے صدر) ضیاء الرحمٰن کی قیادت میں منحرف بنگالی فوجی اور نیم فوجی دستوں نے اعلانِ آزادی کر دِیا۔ اِس کے چند دِن بعد ۱۷ اپریل ۱۹۷۱ کو کلکتہ میں بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ مُکتی باہنی کے لاکھوں افراد پر مشتمل تربیت یافتہ جتھوں کا قیام کیا چند ہفتوں میں عمل میں آگیا تھا ۔ کیا اِس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ علیحدگی کی کچھڑی فوجی آپریشن سے پہلے ہی تیار ہو چکی تھی۔ جہاں ہمارے دانشور یہ فرماتے رہتے ہیں کہ مغربی پاکستان نے بنگالیوں کو حقوق نہیں دِیے ، ان کو کمتر سمجھا اور اپنا حِصّہ تسلیم نہیں کِیا وہیں دانشوروں کو اِس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ بنگالیوں نے بھی شاید اپنے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا تھا اور ان کو بھی جغرافیائی طور پر کٹے ہوئے سیکڑوں میل دور مغربی پاکستان کے ساتھ رہنا منظور نہ تھا۔
پاکستان کے دانشوروں کو اُس وقت کے فوجی اور سول حکمرانوں، سیاستدانوں اور افسر شاہوں کی کو تاہیو ں پر یقینا غور کر نا چاہئے اور سقوطِ ڈھاکہ کی وجوہات تلاش کر نی چاہئیں مگر دشمن کے جھوٹے پروپیگنڈے کا شِکار ہوکر اپنی ہی جڑیں نہیں کاٹنی چاہئیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شاہد سدھو کے کالمز
-
مشرقی پاکستان اور ایک بنگالی فوجی افسر کا نقطہ نظر
بدھ 15 دسمبر 2021
-
مشرقی پاکستان اور جنرل ایوب خان
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
مشرقی پاکستان اور اسکندر مرزا
منگل 7 دسمبر 2021
-
سیاسی حقیقت
ہفتہ 13 مارچ 2021
-
کون کتنا ٹیکس دیتا ہے
ہفتہ 6 مارچ 2021
-
جہان درشن
ہفتہ 27 فروری 2021
-
سقوطِ مشرقی پاکستان نا گزیر تھا؟
بدھ 16 دسمبر 2020
-
معجزے ہو رہے ہیں
جمعہ 4 دسمبر 2020
شاہد سدھو کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.