مغرب کا مسلمانوں سے خوف؟

بدھ 16 جنوری 2019

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

 آج مسلمانوں کے ایک بڑے حلقے میں بالعموم اور پاکستانیوں میں بالخصوص یہ سوچ موجود ہے کہ مغرب اپنے مبینہ تعصبات کی بناء پر اسلامو فوبیا یا مسلمانوں کے خلاف تعصب یا خوف کا شکا ر ہے۔ اس سوچ کے حق میں دلائل کے طور پر چند یورپی ممالک میں نقاب پر پابندی ،اذان کے لئے لاوٴڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی اور امریکا اورچند یورپی ممالک میں اسلامی وضع قطع رکھنے والوں کے خلاف ہتک آمیز رویے یا پر تشدد واقعات اور چند مساجد پر آتشزنی کے واقعات پیش کئے جاتے ہیں۔

یہ صحیح ہے کہ مغرب میں اسلامو فوبیا موجود ہے تاہم اس کی وجوہات پر کم ہی غور کیا جارہا ہے۔مختلف مسلمان دہشت گرد گروہوں کی طرف سے کئی مغربی ممالک میں دہشت گرد ی کی کارروائیوں نے بھی اسلامو فوبیا کو بڑھاوا دیا ہے۔

(جاری ہے)

ایسے مغربی ممالک جہاں مسلمانوں کی قابل ذکر تعداد آباد ہے ان ممالک میں یہ خاص طور پر دیکھا گیاہے کہ مسلمان مقامی آبادی کے ساتھ ثقافتی طور پر گھل مل کر رہنے کے بجائے اپنی الگ ہی دنیا بسائے ہوئے ہیں، یہ لوگ اکثر مقامی مغربی رسوم و رواج کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔

مغربی ممالک میں یہ سوچ بڑی شدت کے ساتھ موجود ہے کہ مسلمان اپنا طرز زندگی مغربی ممالک پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان ممالک میں موجود آتش بیان مولویوں نے بھی اس ساری صورتحال پر خوب نمک پاشی کی ہے۔ کئی مولویوں کو ان ممالک سے جبری نکالا بھی گیا ہے۔ عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں سے مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کا تعلق نکلتے رہنا بھی مقامی آبادی میں شدید تشویش کا باعث بنا ہے، اس طرح کے واقعات نے اس سوچ کو بڑھاوادیا ہے کہ مسلمان اپنے میزبان یا شہریت کے حامل مغربی ممالک کے بجائے عالمگیر ایجنڈے کی حامل دہشت تنظیموں کے حامی یا وفادار ہیں۔

 
اس کے برعکس مسلمانوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ چونکہ وہ واحد سچے مذہب کے پیروکار اور جنت کے حقدار ہیں اسلئے مغربی ممالک کے لوگوں کو فوراً ان کا طرز زندگی اختیار کرنا چاہئیے۔ یورپ کے بازاروں میں اذان کی آواز سن کر گوروں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہونے چاہئیے اور یورپ کے لوگوں کو اپنا دماغ بند کرکے مسلمانوں کی عالمی معاملات پر سوچ کو بھی اپنا لینا چاہئیے اور ان کے ہر ”سیاسی سچ“ کو ہی سچ ماننا چاہئیے۔

 
توہین مذہب اور کفر کے فتووں پر مشتمل صدیوں کا جبر سہنے کے بعد مغربی ممالک کے لوگوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق اپنے مذہبی طبقے یا چرچ کا دائرہ کا ر انتہائی محدود کر دیا ہے۔مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ قرار دیا جاچکا ہے۔ سوچ اور اظہار رائے کی آزادی ہے۔ مذہب پر عمل کرنے یا اسے یکسر نظر انداز کرنے کا ہر شخص کو اختیار دیا گیا ہے۔

مذہبی شعائر کے اظہار کو بالعموم پسند نہیں کیا جاتا۔ کسی شخص سے معاملات کا انحصار اس کے مذہبی تقوے یا مذہب سے دوری پر ہر گز نہیں ہے۔ معاشرتی اور انفرادی رویوں میں معاملات کا تعلق ایمانداری، جھوٹ نہ بولنے، وعدہ خلافی نہ کرنے ، اخلاق سے پیش آنے، قانون پر عمل کرنے ، انسانی جان کا احترام کرنے سے تو ہے مگر کسی کو اس سے غرض نہیں کہ کوئی چرچ جاتا ہے یا نہیں، بائبل کا مطالعہ کرتا ہے یا نہیں، بیت المقدس یا ویٹیکن کی زیارت پر جاتا ہے یا نہیں۔

جنسی اور عائلی زندگی میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ان معاملات میں ملکی قانون مقدم ہے۔شراب زندگی کا لازمی حصہ ہے مگر شراب نوشی کرکے آپے سے باہر ہوجانے والوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔ مغربی ممالک میں کئے گئے اکثر سروے بتاتے ہیں کہ اگرچہ لوگ عیسائی ماں باپ کے گھر پیدا ہوئے ہیں اور عیسائی ناموں کے حامل ہیں مگر اس کے باوجود ان لوگوں کی اکثریت خود کو کسی بھی مذہب سے وابستہ ظاہر نہیں کرتی۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہ بھی بتاتی ہے کہ اس نے ابھی تک کسی مذہب سے وابستہ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا۔مغرب کا مزاج بالعموم غیر مذہبی ہے۔ یہاں اس بات پر جلوس نہیں نکالے جاتے کہ پاکستان میں عیسائیوں کی بستی جلادی گئی ہے یا مصر میں عیسائیوں کا چرچ بم دھماکوں سے اڑا دیا گیا ہے، نہ ہی عیسائی پادری شاہی قلعے پر صلیبی جھنڈا لہرانے کا عزم دہراتے ہیں، نہ ہی اس بات پر پاکستانی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جاتی ہے، پاکستانی امپورٹس بند کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس بات پر پاکستان کی کروڑوں ڈالر کی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

سوچنے کی بات ہے جب مغربی ممالک کے لوگ اپنے ہی مذہب سے بغاوت کرکے اسے ترک کر چکے ہیں تو وہ کسی اور مذہب کے لوگوں سے خائف کیوں نہیں ہونگے جن کے بارے میں انہیں یقین ہوتا جارہا ہو کہ وہ ان کے طرز زندگی پر حملہ کر رہے ہیں۔یہاں نقاب پر پابندی کا مطلب اسلامی شعائر پر پابندی لیا جاتاہے مگر مغربی شہری یہ موقف رکھتا ہے کہ سڑکوں پر، مارکیٹوں میں یا تعلیمی اداروں میں نقاب پوشوں کی موجودگی اس کے لئے خوف کا باعث ہے۔ اسلامو فوبیا کی وجوہات کی تلاش کی ذمہ داری مسلمانوں کو خود اٹھانا چاہئیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :