یورپ میں کورونا وائرس کی تباہ کاریاں اور وجوہات

جمعرات 28 مئی 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

دنیا بھر میں اس وقت بھی کورونا وائرس تقریباً بیس لاکھ فراد کو اپنے حصار میں بری طرح جھکڑ چکا ہے تقریباً تین لاکھ انسان موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں۔ ہر طرف بے یقینی کی کیفیت ہے خدا جانے آنے والا وقت کیا کیا طوفان برپا کرئے گا۔ ساری دنیا میں ہیجان کی کیفیت ہے ہر آنے والا دن نت نئے مسائل اور مشکلات کو جنم دے رہا ہے مگر پھر بھی امید واثق ہے کہ خدا ذولجلال اپنے فضل وکرم سے ہمیں ان مسائل اور مشکلات سے جلد نجات دلائے گا۔


اس وقت درپیش چیلینجز میں سب سے بڑا چیلنج معاشی بد حالی کی صورت میں ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ دنیا بھر میں بہت سے چھوٹے بڑے کاروبار اور کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں حال ہی میں ہوا بازی کی مشہور کمپنی ورجن اٹلا نٹک نے بھی آسٹریلیا میں اپنے ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں جس سے لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کا خطرہ ہے اس کے علاوہ برطانیہ میں پرائمارک اور برٹیش ائیر ویز بہت زیادہ نقصان میں جا رہی ہیں۔

(جاری ہے)

یورپ بھر میں بیروزگار افراد کی تعداد ایک ملین تک جا پہنچی ہے حالانکہ یورپ نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے سو بلین یورو کا بجٹ بھی مختص کر رکھا ہے۔اس کے علاوہ برطانیہ میں بھی دو ملین افراد موجودہ صورت حال کے باعث اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جس کی دو بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں ایک برطانیہ کا پورپی یونین سے اخراج اور دوسرا کورونا وائرس سے پیدا شدا صورتحال ہے۔

ان حالات سے نمٹنے کے لیے برطانیہ نے بھی ۲۳ بلین پاؤنڈز کے بجٹ کا اعلان کیا تھا۔
اب دوسری طرف امریکہ کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو تقریباً پانچ ملین سے بھی زیادہ افراد کورونا وائرس کے معاشی اثرات کے نتیجے میں نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور چوہتر ہزار سے زائد افراد اس وبا کے کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں جو کہ اس وقت دنیا بھر میں ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

اب اسی تناظر میں پورپ کا جائزہ لیں تو اٹلی میں تقریباً ہی چند دن قبل تک تیس ہزار ہلاکتیں رپورٹ کی گئی ہیں فرانس اور سپین میں تقریباًستائیس ستائیس ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں بیلجیم اور جرمنی میں نو ہزار جبکہ برطانیہ میں ہلاکتوں کی تعداد تقریباً تینتیس ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے جو کہ پورپ بھر میں ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

ان تباہ کاریوں کے پیشِ نظر ماہرین کی مختلف آرا اور تجزیے سامنے آرہے ہیں ۔حال ہی میں یونیورسٹی آف کیمبرج کے پروفیسر سر ڈیوڈ سپیکل ہالٹر کے مطابق رپورٹ کئے گئے اعداد و شمار کورونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے حقیقی نمبروں سے کافی کم ہیں۔ برطانوی پبلک ہیلتھ کی میڈ یکل ڈائر یکٹر یوون ڈوئل کہتی ہیں کہ مختلف ممالک وائرس کا اندازہ مختلف طریقے سے لگاتے ہیں جس سے بین الاقوامی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے اس کی تصدیق برطانوی ہیلتھ چیف ایڈوائزر کرس و ٹی نے بھی حال ہی میں کی ہے جو کہ بہت حیران کن بات ہے اور اس سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔

اب ذرا برطانیہ میں وائرس کی اس قدر پھیلاؤ کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک تجزیے کے مطابق برطانیہ میں وائرس کے بد ترین حد تک پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ برطانوی حکومت نے اس کی روک تھام کے معاملے میں بہت تاخیر سے کام لیا اور اس کے تدارک کے فیصلے میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرنا بتائی جاتی ہے۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ برطانیہ کا لاک ڈاؤن کا فیصلہ تا خیر کا شکار ہوا جس کے پیچھے ہرڈ ایمیو نٹی کی سوچ کار فرما تھی یعنی لوگوں کو آپس میں گھولنے ملنے دیا جائے اُ ن کے اجسام خود بخود اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لیں گئے۔

 حکومت کو اس تناظر میں کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو کی بہت بڑا رسک ثابت ہو سکتا تھا۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ سویڈن ابھی تک ہرڈ ا یمیونٹی کے اصول پر کار بند ہے اور وہاں بھی کورونا کے تقریباً تیس ہزار کے قریب مریض ہیں مگر شرع اموات حیرت انگیز طور پر بہت ہی کم ہے۔ بہر حال اگر برطانوی حکومت کے دوسرے بڑے فیصلے کا جائزہ لیں کہ جس کو بھی کورونا کے پھیلنے کی بہت بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے وہ ہے برطانیہ میں ۔

بیرون ملک پروازوں اور آمدورفت کا سلسلہ بہت عرصے تک جاری رکھنے کی اجازت دی گئی جس سے صرف چین سے تقریباً پانچ سو سے زائد کورونا وائرس کے مریض سفر کر کے داخل ہوئے اور سب سے پہلا چینی مریض انگلینڈ کے شہر برائیٹن سے برآمد ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں پھیل گیا پھر ایک اور تحقیق کے مطابق کورونا وائرس اُن ممالک میں کم پھیلا ہے کہ جن ممالک نے کورونا ٹیسٹوں کی وافر مقدار کو شروع دن سے ہی اپنا لیا تھا مگر برطانیہ اس کلیے کو اپنانے میں بھی تذبذب کا شکار ہوا اور مریضوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ شرح اموات میں بھی اٹلی کے مقابلے میں دس فیصد اضا فہ دیکھنے میں آیا حالانکہ ہر دن ایک لاکھ ٹیسٹ کرنے کی اہلیت رکھنے کے باوجود برطانیہ آج تک بھی روزانہ ٹیسٹوں کی تعداد کو ایک لاکھ تک لے جانے میں قاصر رہا ہے۔

اس تمام لاپرواہیوں پربرطانوی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی روزینہ الین کی جانب سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اس کے علاوہ برطانوی حکومت طبی امداد مہیا کرنے والے عملے کے لیے حفاظتی سامان مہیا کرنے میں بھی ناکام ہے۔ اس کے برعکس جن ممالک نے بروقت اقدامات کیے اُن میں جرمنی اور جنوبی کوریا نے بہت حد تک ان تمام احتیاطی تدابیر کو اپنایا جس کی وجہ سے ان مالک میں شرع اموات بہت کم رہی اٹلی نے بھی لاک ڈاؤن کرنے میں تاخیر کی مگر زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کی مہم چلائی مگر ان کی حکومت نے بھی وہی غلطی کی جو غلطی برطانوی حکومت نے کی ٹیسٹ کی تعداد کو تب بڑھایا جب وبا ء اٹلی میں خطرناک حد تک پھیل چکی تھی۔

اب موجودہ صورت حال میں بڑی بڑی حکومتیں مستقبل کے لیے پریشان نظر آرہی ہیں اور ان کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
ماہرین کی آرا کے بعد یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کورونا وائرس کے کیسز کو یورپ اور دیگر ممالک میں درست انداز میں ریکارڈ کیا جا رہا ہے کہ نہیں؟ کیا ٹیسٹ کٹس درست رزلٹ دے رہی ہیں؟ کیا کورونا وائرس کی پھیلاؤ کو روکنے والی احتیاطی تدابیر پر مکمل طور پر عمل کیا جا رہا ہے؟ یہاں اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہسپتالوں میں ہلاکتوں کو تو درست انداز سے رجسٹر ڈ کیا جا تا ہے مگر اس کے برعکس کیر ہومز میں ہونے والی ہلاکتوں کا درست اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ و اقعی کورونا وائرس کی وجہ سے ہوئیں یا اس کی کوئی اور وجہ تھی ۔

اب ذرا کچھ اور ماہرین کی رائے بھی جائزہ لیتے ہیں چند روز قبل بیلجیم کے ورولوجسٹ اور حکومت کے ترجمان پروفیسر سٹیون وان کوچ کے مطابق لوگ کورونا وائرس کے متعلق ناقص موازنے کر رہے ہیں جس سے اصل حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح بی بی سی ہی کے مطا بق آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جیسن اوّک نے بھی اس بات کی اہمیت پر زور دیا ہے کہ تمام ممالک درست حقائق دنیا کے سامنے رکھیں تاکہ صورت حال کا بھی درست اندازہ لگایا جا سکے اور درست فیصلے کئے جا سکیں۔

اس بات سے بھی ایک سوال جنم لیتا ہے کہ جب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس کے واضع مندرجات بیان کر دئیے ہیں تو کون سے ممالک درست انداز میں ہدایات پر عمل نہیں کر رہے؟ ان کم مالک کا نام واضح کرنے کی ضرورت ہے اور میں پوچھتا ہوں کہ ان ممالک کو اعداد و شمار درست اصولوں پر اکھٹے کرنے پر راہنمائی کیوں نہیں کی جا رہی؟ 
بہر کیف اس میں کو ئی دوسری رائے نہیں کہ ہمیں بھی ان ممالک کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔

ہمیں پروفیسر جیسن کی رائے کو سمجھنا چاہیے تجزیوں کو تجربوں کی کسوٹی پر پَرکھنا ہو گا تاکہ حالات کا درست انداز میں جائزہ لے کر مستقبل کے لیے درست فیصلے کیے جا سکیں۔ 
جن ممالک میں لاک ڈاؤن ختم ہوا ہے یا اس میں نرمی دیکھنے میں آئی ہے اس وقت وہاں بھی احتیاط کی اشد ضرورت ہے کیونکہ سائنسدان اس بات سے بھی متفق ہیں کہ اگر کرونا وائرس کی سیکنڈ ویو آئی تو وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں ہر ملک میں ہلاکتوں کی تعداد لاکھوں تک تجاویز کر سکتی ہے۔

 
پاکستان میں خاص طور پر سمارٹ لاک ڈاؤن کا ناجائز استعمال کرنے کے اثرات اور ممکنہ نتائج سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے تاکہ وہ کسی قسم کی غلطی نہ کریں اور پاکستان دنیا بھر میں ایک محفوظ ملک بن کر اُبھرے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :