18ویں ترمیم

جمعرات 7 مئی 2020

Suhail Noor

سہیل نور

پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر آب تک 3 آئین نافذ ہو چکے ہیں جن میں 1956, 1962 اور 1973 کا آئین شامل ہے۔ 1973 کا آئین ہی اس وقت نافذ العمل ہے اور اس آئین میں تقریبا ً25 ترامیم بھی کی جا چکی ہیں - ان ترامیم میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل اٹھارویں ترمیم ہے اور اسی بنیاد پر حکومتی بینچوں سے لے کر آپوزیشن کے بینچوں تک ہر طرف اسی کے چرچے ہیں مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے 70 فیصد سے زائد سیاستدانوں نے اب تک اسکو ایک دفہ بھی نہیں پڑھا ہو گا ۔


بنیادی طور پر اس ترمیم کے دو مقاصد تھے پہلا تو یہ کہ صدر پاکستان سے اختیارات واپس لے کر وزیراعظم کو دینا اور دوسرا اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی- دیکھنے میں تو یہ دونوں کام ہی بہت اچھے لگ رہے ہیں اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کیونکہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں پارلیمانی نظام نافذ ہے اور پارلیمانی نظام میں اختیارات وزیراعظم کے پاس ہی ہوتے ہیں تاہم اٹھارویں ترمیم کو کبھی سیریس ہمارے حکمرانوں نے ہی نہیں لیا چاہے وہ جس بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں۔

(جاری ہے)

اٹھارویں ترمیم یہ تو سو فیصد درست کہتی ہے کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہونے چاہیے لیکن صرف وفاق سے صوبوں تک نہیں بلکہ اس ترمیم کا آرٹیکل 148 چیخ چیخ کر بلدیاتی حکومتوں کی بات کرتا ہے مگر پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں (مسلم لیگ ن - پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف) کے ادوار میں بلدیاتی حکومتوں کے ساتھ صرف کھلواڑ کیا گیا۔
جہاں اس ترمیم کے بہت سے فوائد ہیں وہاں بہت سے نقصانات بھی ہیں مثال کے طور پر اگر کوئی صوبہ اپنا کام صحیح نہیں کرتا جیسے کرونا سے کچھ عرصہ پہلے کراچی میں کچرے کا بہت چرچا تھا لیکن وفاقی حکومت کچھ نہ کر سکی کیونکہ اٹھارویں ترمیم میں صاف صاف لکھا ہے کہ وفاق صوبائی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتا - 
اسی طرح آئین کا آرٹیکل(اے -63) یہ کہتا ہے کہ اپ (یعنی ایم۔

این۔اے،ایم۔پی۔اے) اپنے پارٹی لیڈر کے خلاف جا سکتے اور نہ ہی اسکی مرضی کے خلاف کسی بھی قسم کا ووٹ دے سکتے ہیں اور یہ بات ہمارے آئین میں لکھی ہے کیا یہ مضحکہ خیز نہیں کہ جمہوریت کے ساتھ ایسا مذاق کیا جائے اس کا مطلب کہ اگر لیڈر دن کہے تو دن رات کہے تورات مطلب یہ کہ پارٹی کا لیڈر جس کو مرضی چاہے وزیراعظم بنوائے جس طرح کے مرضی چاہے قانون بنوائے اور اس میں تبدیلی کروائے کیا کسی بھی جمہوری ملک میں ایسا ہونا چاہئے؟
سب سے اہم آرٹیکل(NFC)این ایف سی کا ہے این ایف سی سے مراد نیشنل فائینینس کمیشن ہے اور اس کا کام پیسوں کو تقسیم کرنا ہے وفاق اور صوبوں کے درمیان۔

این ایف سی کا آرٹیکل یہ کہتا ہے کہ وفاق کسی بھی صوبے کاحصہ پچھلے سال سے کم نہیں کر سکتا مثال کے طور پر اگر وفاق نے پنجاب کو 40 فیصد بجٹ دیا ہے تو اگلے سال اس سے کم نہیں کر سکتا۔اس میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر وفاق نے کسی صوبے کا حصہ پڑھانا ہے یا کوئی اور کام کرنا ہے تو تب بھی وہ کسی صوبے کے پیسے کم نہیں کر سکتا۔ اس بات سے تو بالکل بھی انکار نہیں کہ اگر کسی صوبے کے پیسے پڑھانے ہیں تو کسی دوسرے صوبے کے تو کم کرنے ہی پڑھیں گے یہ بھی اس ترمیم میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لہزا اس کا بھی کوء نہ کوء حل نکالنا چاہیے۔

مختصر بات یہ ہے کہ آئین میں کسی بھی قسم کی ترمیم کا استحقاق صرف اور صرف پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن ریاست کے تمام معاملات چونکہ حکومت چلاتی ہے اور اگر حکومت آئین میں کسی بھی قسم کی ترمیم کرنا چاہے تو وہ اس کا حق رکھتی ہے اگر اس کے پاس مطلوبہ ووٹوں کی تعداد پوری ہو۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی حکومت آئین میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تو اسے پی۔

ایم۔ ایل۔ این یا پی۔ پی کی حمایت درکار ہوگی کیونکہ آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے مطلب یہ کہ ان کی مرضی کے بغیر کسی بھی قسم کی آئین میں ترمیم ممکن ہی نہیں۔ اور اگر کوئی ترمیم ہوجا تی ہے تو وہ دو سو فیصد ان کی مرضی سے ہی ہو گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہر طرف سے اتنا شور کیوں آ رہا ہے اٹھارویں ترمیم کو لے کر۔ یہ تمام سیاستدان جمہوریت کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں اور جمہوریت کو عوام کے لئے نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں یہ سب شورشرابہ صرف اسی لیے ہے تاکہ عوام ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی رہے اور یہ سب مل کر عوام کو لوٹتے رہے۔ بدقسمتی سے یہ ہے ہماری جمہوریت اصل چہرہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :