گلگت بلتستان، پیش منظر اور پس منظر

منگل 24 نومبر 2020

Suhail Noor

سہیل نور

جنت نظیر گلگت بلتستان پاکستان میں شمالی علاقہ جات کے نام سے مشہور ہے کیونکہ یہ پاکستان کے شمال میں واقع ہے۔ اپنی حسین وادیوں دلکش پہاڑوں اور سریلی آبشاروں کی بدولت نا صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں بے حد مقبول ہے۔ اس کے جنوب میں آزاد کشمیر، مغرب میں کے پی کے، شمال میں افغانستان کا واخان کوریڈور، مشرق میں چین اور شمال مشرق میں ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر جبکہ جنوب مشرق میں لداخ کے علاقے واقع ہیں۔

گلگت بلتستان 3 ڈویژنز (گلگت، دیامیر اور بلتستان)، 14 اضلاع اور 28 تحصیلوں پر مشتمل ہے اس کا کل رقبہ 27 ہزار 971 مربع کلومیٹر ہے جبکہ کل آبادی 15 سے 20 لاکھ ہے۔ جی بی میں شرح خواندگی 90 فیصد سے زائد ہے جس سے اس علاقے کے لوگوں کے بارے میں با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس حد تک سیاسی شعور رکھتے ہیں کیونکہ اس کا براہ راست تعلق تعلیم سے ہی ہوتا ہے۔

(جاری ہے)


اگر اس علاقے کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ساتویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک مختلف خاندانوں نے حکمرانی کی جن میں مغلوٹ، عیاشو اور تراخان قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد 1840 میں مہاراجہ ڈوگرا نے اس علاقے کو قبضے میں لے کر یہاں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ 1935 میں ڈوگرا خاندان نے اس علاقے کو لیز پر انگریزوں کے حوالے کر دیا اس کے بعد 1947 میں تقسیم ہند کے وقت انگریز اس علاقے کو واپس مہاراجہ کے حوالے کر گئے۔

تقسیم ہند کے وقت مہاراجہ کو بھارت اور پاکستان دونوں میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کرنا تھا لہذا مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کر لیا کیونکہ وہ خود ہندو تھا مگر اکثریت مسلمانوں کی تھی۔  اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے مگر وہاں کے لوگ اس بات سے انکار کرتے ہیں اور اسی تناظر میں 1948 میں جی بی کے لوگوں نے بغاوت کر دی اور یکم نومبر 1948 کو آزاد ہوگیا اور پاکستان سے الحاق کر لیا اس کے بعد سر عالم خان کو جی بی کا پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کردیاگیا۔

1949 میں معاہدہ کراچی کے بعد اس علاقے کا کنٹرول وزارت امور کشمیر کے حوالے کردیاگیا۔
1969 میں جنرل یحییٰ خان نے نادرن ایریاز ایڈوائزری کونسل کے نام سے ایک مجلس مشاورت قائم کی اور 1970 میں پاکستان سے الحاق کے بعد پہلی مرتبہ انتخابات کروائے گے جس میں 16 ارکان منتخب ہوئے 1975 میں اس علاقے میں پی پی پی کی بنیاد رکھی گئی اور یوں اس علاقے میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔

1993 میں پی پی کے دور حکومت میں کچھ اصلاحات متعارف کروائی گئیں اور نادرن ایریاز ایڈوائزری کونسل کی نشستوں کی تعداد بڑھا کر 26 کر دی گئی۔ اس کے بعد 2009 میں اس وقت کے صدر جناب آصف علی زرداری نے ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت جی بی کو صوبے کا درجہ دے دیا اور ایڈوائزری کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ دے دیا گیا جس کی وجہ سے اس علاقے کو اپنی وزارت اعلی نصیب ہوئی۔


حال ہی میں اس علاقے میں عام انتخابات منعقد ہوئے ہیں جس میں پی ٹی آئی نے 9، پی پی نے 4، نون لیگ نے 2 اور آزاد امیدوار نے 7 جبکہ ایم ڈبلیو ایم نے ایک نشست حاصل کی۔  یہ انتخابات جی بی کی تاریخ کے پہلے انتخابات ہیں جس میں اس حد تک سیاسی گہما گہمی دیکھنے میں نظر آئی۔ ان انتخابات کی کمپین کے دوران تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کا نعرہ لگایا۔

جی بی کے یوم آزادی پر وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے باقاعدہ اس کا اعلان کیا۔ آئینی صوبے کا مطالبہ نہ صرف گلگت بلتستان کی عوام بلکہ چین کی بھی خواہش ہے کیونکہ چین کا سب سے بڑا معاشی منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ یہاں سے ہو کر گزرتا ہے اسی لیے چین کی خواہش ہے کہ آئینی صوبہ بنا کر اس منصوبے کو مکمل طور پر محفوظ بنایا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :