ترکی یا سعودی عرب؟ فیصلہ پاکستان کا

بدھ 20 مئی 2020

Suhail Noor

سہیل نور

پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کا اختتام ہو گیا جو تقریباً 600 سال تک مسلمانوں کا مرکز رہی۔ اس کی بنیاد ارطغرل نامی شخص نے رکھی تھی جس کا تعلق ایک خانہ بدوش کائی قبیلے سے تھا وہ لوگ سچے مسلمان اور بہادر جنگجو تھے۔ ارطغرل کی موت کے بعد اس کے بیٹے عثمان نے باقاعدہ سلطنت قائم کی اور خلافت شروع ہوگی۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک دنیا کے بیشتر علاقے سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے جن میں (موجودہ نام) عراق، شام، اردن، فلسطین، بلغاریہ، یونان اور مصر وغیرہ شامل تھے۔

مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد عثمانیہ خاندان کو شکست ہوگئی اور برطانیہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ترکی کیساتھ ایک معاہدہ کیا جس کا نام معاہدہ لوزان ہے یہ معاہدہ 1923 میں کیا گیا جس کی معیاد 100 سال تھی اس معاہدے میں ترکی پر بہت سی پابندیاں لگائی گئیں۔

(جاری ہے)

جیسے خلافت ختم کر دی گئی۔ ترکی کو سیکولر بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ ان پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ ترکی سے تیل نہیں نکال سکتے۔

اس کے ساتھ ساتھ ترکی کی اہم بندرگاہ باسفورس کو انٹرنیشنل سمندر قرار دے دیا گیا مطلب یہاں سے جو مرضی سفر کرے ترکی اس پر ٹیکس نہیں لے سکتا۔ جبکہ نہر سوئس کے بعد تجارت کے لئے یہ سب سے اہم راستہ ہے اگر ترکی اس پر ٹیکس لینا شروع کر دے تو ان کی سوچ سے بھی زیادہ پیسہ اکٹھا ہو گا۔
جیسا کہ میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ یہ معاہدہ 100 سال کا ہے اس لئے 2023 میں اس کا اختتام ہو جائے گا۔

اس کے بعد نہ صرف اسلامک ورلڈ میں بلکہ پوری دنیا میں ایک نئی ہلچل پیدا ہوگی۔ ترکی معاہدہ ختم ہونے کے فوراً بعد تیل نکالے گا اور اسے پوری دنیا میں بیچے گا اور خود کفیل ہونے کی کوشش کرے گا۔ اس کے علاوہ باسفورس کی بندرگاہ پر ٹیکس نافذ کرے گا جس سے ان کی معیشت بہت مضبوط ہوجائے گی جس کی حالت پہلے ہی کافی بہتر ہے۔
 ان سب کے علاوہ سب سے اہم مسئلہ جس پر پوری دنیا نظر رکھے ہوئے ہے وہ ہے حجازمقدس کا معاملہ۔

ترکی بطور ریاست حجازمقدس کی میزبانی واپس لینا چاہتی ہے اور یہ ان کی عوام کی بھی دیرینہ خواہش ہے لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں ہوگا مگر ناممکن بھی نہیں۔ اس کی تیاری ترکی نے بہت عرصہ پہلے ہی شروع کردی تھی۔ ارطغرل غازی نامی ڈرامہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے یہ ڈرامہ اس وقت نہ صرف مسلم ممالک بلکہ پوری دنیا میں بہت مشہور ہو چکا ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ بہت متنازع بھی ہو چکا ہے۔

دنیا کے بیشتر ملکوں میں اس پر پابندی بھی لگائی جا چکی ہے۔ جیسے علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے جگایا اسی طرح ترکی بھی اس سے کچھ ایسا کام ہی لے رہا ہے۔ 
مگر قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس سارے کھیل میں پاکستان سب سے اہم کھلاڑی ثابت ہوگا۔ اس وقت سعودیہ کا سب سے بڑا حمایتی امریکہ ہے لیکن امریکہ کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ صرف اور صرف اپنا مفاد ہی دیکھتا ہے اور سعودیہ میں امریکہ کا مفاد صرف تیل ہے اس وقت بھی سعودیہ سے تقریباً سارا تیل امریکن کمپنیاں ہی نکالتی ہیں مگر چونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے آئیل انڈسٹری بری طرح متاثر ہوئی ہیاور معاہدہ ختم ہونے کے بعد ترکی بھی اپنا تیل عالمی منڈی میں لے آئے گا اس سے قیمتی اور بھی کم ہو جائیں گی نتیجہ یہ نکلے گا کہ امریکہ کا مفاد ختم ہوجائے گا اور وہ سعودیہ کی طرف سے پیچھے ہٹنے لگے گا۔

ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سعودیہ کا آخری سہارا پاکستان ہی ہوگا اور اس بات کی گواہی تو تاریخ بھی دیتی ہے کہ جب بھی سعودیہ پربراوقت آیا پاکستان نے دل و جان سے ان کی مدد کی۔ شدت پسندوں کے قبضے سے خانہ کعبہ کو خالی کروانا اس بات کی سب سے اہم اور بڑی مثال ہے۔ اسی طرح مسلم ممالک کی فوج جس کے پیچھے سعودی عرب کی ہی کاوشیں ہیں ان کا سربراہ بھی اس وقت ایک پاکستانی ریٹائرڈ جنرل ہے۔

(جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف) مگر دوسری طرف ترکی سے بھی پاکستان کے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ ان تعلقات میں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان پہلے سے کئی گناہ بہتری بھی لاچکے ہیں اور یہ تعلقات مزید بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ 
تاہم اب اس پورے کھیل میں فیصلہ پاکستان کو کرنا ہے کہ ترکی کا ساتھ دینا ہے یا سعودیہ کا۔ پاکستان کی سمت کا تعین 2023 میں ہونے والے انتخابات کریں گے کیونکہ ان انتخابات کے بعد نئی حکومت بنے گی۔

سیاسی پنڈتوں کے مطابق 2023 میں وسیع امکان ہے کہ نون لیگ یا پی ٹی آئی کی حکومت ہی بنے گی۔ ان تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک (سعودیہ عرب اور ترکی) اپنی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں کہ پاکستان کی حمایت حاصل کی جائے کیونکہ پاکستان مسلم ورلڈ میں واحد ایٹمی قوت ہے اور دنیا کی بہترین فوج بھی رکھتا ہے اس لیے دونوں ممالک کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ پاکستان جس ملک کی طرف ہوگا اس کا پلڑا بھاری ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :