لاہور رنگ روڈ SL3 کی تعمیر میں تاخیر

ہفتہ 18 جولائی 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

20 ماہ قبل تحریک انصاف کی برسراقتدار میں آئی اور جب سے تحریک انصاف پاکستان میں پاور میں آئی اس دن سے لیکر آج تک پنجاب کے وزیراعلٰی عثمان بزدار بنے اور تقریباً ہر 1/2 ماہ بعد وزیراعظم عمران خان کیپٹل سٹی اسلام آباد کو چھوڑ کرپنجاب کے صوبائی دارلحکومت لاہور میں 2/3 روز کیلئے آتے ہیں اور صوبائی معمولات کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔

لیکن جب بھی وزیراعظم عمران خان لاہور تشریف لاتے ہیں تو پورے ملک کے میڈیا میں یہ افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں کہ اس مرتبہ تو لازمی پنجاب کے وزیراعلٰی عثمان بزدار کا دور حکومت خطرہ میں پڑ جائیگا۔ کیونکہ سیاسی حلقوں میں عثمان بزدار کا سیاسی امیج کوئی اتنا زیادہ اچھا نہیں چل رہا۔ اور وزیراعظم عمران خان کی نظرمیں وہ ایک دن '' وسیم اکرم''ثابت ہونگے، ون ڈے میچ کو 20/20 سمجھتے ہوئے چوکے چھکے مارتے ہوئے پنجاب کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے۔

(جاری ہے)

لیکن اگر مجموعی طور پر اس بات کا جائزہ لیا جائے تو سیاسی حلقوں کی بزدار صاحب کے بارے میں رائے ٹھیک نظر آتی ہے، وہ اس لئے کہ وہ پنجاب کے حالات کو نارمل کرنے میں بالکل ہی ناکام نظر آتے ہیں۔ اب اس کو سیاسی پریشر کہا جائے یا کچھ اور، اس بارے میں مبینہ طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کی بات کو پورے صوبے میں کوئی سیریس نہیں لیتا۔ بیورو کریسی ان کے ہر حکم کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی ہے، آج تک وہ کسی بھی پریس کانفرنس میں پورے اعتماد کے ساتھ صحافیوں کے جوابات بھی نہیں دے پائے، اخبارات کی سرخیوں میں، میڈیا کی خبروں میں جس طرح ماضی میں وزیراعلٰی اپنی سرگرمیوں کو رکھتے تھے شائد وہ اس فن سے ناآشنا ہیں، لیکن وزیراعظم کو پتہ نہیں کون سی نادیدہ امید کی کرن ان میں دکھائی دیتی ہے کہ وہ اپنے ماہانہ ،یا سہ ماہی دورہ پنجاب میں اپنا وقت گزارتے اور واپس اسلام آباد چلے جاتے ہیں۔

ان کے خیال میں وزیراعلٰی عثمان بزدار ایک ایمان دار ، شریف النفس انسان ہیں اور ایک ایسی چنگاری کی مانند ہیں جو ایک نا ایک دن شعلہ بنے گی۔
2 دہائیوں سے پنجاب کے بڑے بڑے پروجیکٹس میں سے ایک بڑا پروجیکٹ لاہور کے اردگرد تعمیر ہونیوالی رنگ روڈ ہے ، اس رنگ روڈ کی تعمیر کا منصوبہ مشرف دور سے بھی پہلے کا ہے، اس کی تعمیر کئی سالوں پہلے شروع کی گئی اور رنگ روڈ کا کچھ حصہ تعمیر تو ہو چکا لیکن اس کا سدرن لوپ 3 جسے SL3 کہا جاتا ہے آجکل میڈیا میں بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔

جب سے اس مکمل لاہور رنگ روڈ 34 کلومیٹر کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا، اب تک گورنمنٹ آف پنجاب کے 100 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں اور آئندہ بھی خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مزید پیسے خرچ ہونگے۔ اس 34 کلومیٹر کی تعمیر میں سے 22کلومیٹررنگ روڈ تو تعمیر ہو چکی ہے لیکن اسے اتنے سارے سال گزر جانے کے باوجود مکمل نہیں کیا جا سکا۔ اب اس SL3 کے 8 کلومیٹر ٹکڑے جو اڈا پلاٹ سے ملتان روڈ تک ہے،کو تعمیر کرنے کیلئے پنجاب گورنمنٹ نے اجازت بھی دے دی ہے لیکن اس میں کچھ نہ کچھ رکاوٹیں حائل ہو رہی ہیں جس کے بارے میں میں اپنے کالم میں قارئین کرام کو آگاہ کرنے کی کوشش کروں گا۔

ابھی تازہ خبروں کے مطابق 13 جون 2020ء کو وزیراعظم عمران خان پنجاب کے صوبائی دارلحکومت لاہور تشریف لائے اور اعلٰی سطحی اجلاس کی صدارت میں فیصلہ کیا کہ پنجاب خصوصاً لاہور کے ارد گرد جتنے بھی ترقیاتی کام رکے ہوئے ہیں ان ترقیاتی کاموں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے، اس SL3 کے 8 کلومیٹر حصہ کوبھی جلد از جلد تعمیر کیا جائے تاکہ ان ترقیاتی کاموں کے منصوبوں کو مکمل کرتے ہوئے عوام کی تکلیف کا ازالہ کیا جا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ رنگ روڈ کے اس ٹکڑے کی تعمیر کے سلسلے میں کئی بے روزگاروں کیلئے روزگارکا بندوبست کیا جائے،جس کے باعث بہت سے غریبوں کے گھر کا چولہا جلے گا ۔

اس اہم اعلٰی سطحی اجلاس لاہور رنگ روڈ کے SL3 کو جلد از جلد مکمل کرنے پر وزیراعظم عمران خان کو بریفنگ دی گئی، جس میں اس تعمیراتی کمپنی این ایل سی) جس کے پاس اس رنگ روڈ کی تعمیر کا ٹھیکہ ہے( کے ڈی جی اور کمشنر لاہور سیف انجم کے درمیان ایک معاہدہ پر دستخط بھی کئے گئے۔اور وزیراعظم عمران خان نے بھی اس رنگ روڈ کی تعمیر کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

کیونکہ ماضی میں اس رنگ روڈ کی تعمیر پر بیشمار لوگوں نے عوام کے ٹیکس کے پیسے کی لوٹ مار میں شامل رہے، لہٰذا اسے جلد از جلد تعمیر کر کے عوام کو سہولت دی جائے۔یاد رہے کہ بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض نہیں چاہتے کہ رنگ روڈ کو بحریہ ٹاؤن کے اندر سے گزارا جائے، ان کا مئوقف یہ ہے کہ اس کا وہ حصہ جو بحریہ ٹاؤن کے اندر سے گزرنا ہے اسے اوورہیڈ برج بنا کر گزار لیا جائے ناکہ زمین پر سڑک کی تعمیر کی جائے،حالانکہ لاہور رنگ روڈ اتھارٹی اس سڑک کے اندر جتنی بھی زمین آتی ہے، اسے 2008 ء میں ہی نوٹس جاری کرتے ہوئے سیکشن 4 قرار دے چکی ہے، اور قانونی طور پرسیکشن 4 والی زمین حکومت کی ملکیت قرار دی جاتی ہے۔

سیکشن 4 والی زمین گورنمنٹ کی ملکیت ہونے کے باعث نا کوئی اسے خرید سکتا ہے اور نا بیچ سکتا ہے۔2008 ء کے بعد بحریہ ٹاؤن نے یہ سوچ کر کہ آئندہ آنے والے وقت میں اس زمین کی قیمت سونے کے بھاؤ بکے گی ، اس اردگرد پھیلی زمین کو کوڑیو ں کے بھاؤخود خریدنا شروع کر دیاتھا، اور پلاٹوں کی صورت میں مہنگے داموں آگے بھی بیچنا شروع کر دیا۔اس سلسلے میں ایل ڈی اے نے بھی ایک اشتہار کے ذریعے خبردار کرتے ہوئے پلاٹوں کی خریداروں کو متنبہ کیا کہ بحریہ ٹاؤن کے سیکٹر D,E,F کی زمین سیکشن 4 کے تحت گورنمنٹ کی ملکیت ہے اوراس کی خریداری کرنا منع ہے کیونکہ ایل ڈی اے نے اس زمین کی خریداری پر بحریہ ٹاؤن کو کسی قسم کا کوئی این او سی جاری نہیں کیالیکن سرمایہ دار عوام اور پراپرٹی ڈیلر حضرات نے اس پر کان نہیں دھرے اور اپنی کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری لینڈ انویسٹمنٹ کے طور پر کر دی۔

ماضی کی حکومتوں کی تو ملک ریاض کو آشیر باد حاصل تھی لہٰذا کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی، لیکن جب سے تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی ہے مبینہ طور پر اس نے اب تک اسی رنگ روڈ کی تعمیر کیلئے بحریہ ٹاؤن کے 73 تعمیر شدہ گھر اور 4 مال پلازہ کو ناجائز تجاوزات کے تحت زمین بوس کر دیا ہے۔جن دنوں یہ ناجائز تجاوزات آپریشن شروع کیا گیا اس وقت لاہور کے کمشنر مجتبٰی پاشا تھے،اس کارروائی کے نتیجہ میں عوام الناس کو تو علم ہو گا کہ ان کمشنر صاحب کو ہٹا دیا گیا،اس کے بعد لاہور کے کمشنر کا عہدہ بلال لودھی نامی شخص کو دیا گیا،مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ بلال لودھی کے تعلقات بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے ساتھ بہت اچھے ہیں،اس کمشنر نے لاہور پر ایک سال تک کمشنری کی اور ایک سال میں ایک فیصد تک بھی کام نہیں کرنے دیا گیا اور جہاں جہاں رنگ روڈ کی تعمیر کیلئے سڑک بننا تھی، سابق کمشنر بلال لودھی نے نہیں بننے دی۔

اس کے بعد سیف انجم نے لاہور کمشنر کا عہدہ سنبھالا اور اپنے کام میں مخلص ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو اس رنگ روڈ کے بارے میں بریفنگ دی اور کہا کہ اس کام کو جلد از جلد مکمل کرنا ضروری ہے جس پر عمران خان نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں یہ کام مکمل کرنے کی ہدایت دی ، مبینہ طور پر وزیراعظم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کمشنر صاحب نے ڈپٹی کمشنر کی زیر نگرانی ٹیم تشکیل دی اور اس ٹیم نے چند روز بعد ہی رنگ روڈ کی تعمیر کی سروے رپورٹ تیار کرنے کیلئے اپنا کام بحریہ ٹاؤن لاہور پہنچ کر شروع کر دیا۔

کیونکہ SL3 کا ایک بڑا حصہ لاہور کی اس بہت بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن لاہورکے اندر سے گزرنا ہے، اس دوران وزیر اعلٰی عثمان بزدار کا کمشنر کو فون آتا ہے کہ اس کام کو ابھی وہیں روک دیا جائے،اوراپنی ٹیم کو فوراً واپس بلالیا جائے، کمشنر نے انہیں یاد دلایا کہ جناب اس کا آرڈر خود وزیراعظم صاحب نے چند روز پہلے دیا ہے، تو بزدار صاحب نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں جو کہہ رہا ہوں ٹیم کو واپس بلاؤ، کیونکہ اب وزیراعظم عمران خان نے ہی مجھے حکم دیا ہے کہ فوراً ٹیم کو واپس بلایا جائے۔

کمشنر لاہور نے بھی اسی وقت ٹیم کو واپس بلا لیا، اور کمشنر لاہور کو یہ عذر پیش کیا گیا کہ کیونکہ بحریہ ٹاؤن لاہور کے اندر سے لاہور رنگ روڈ کو ناگزارنے پر بحریہ ٹاؤن نے عدالت سے حکم امتناعی لیا ہوا ہے اس لئے اس ڈپٹی کمشنر کی زیرصدارت ٹیم کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
وزیراعلٰی عثمان بزدار کے کام سے روکنے کے نتیجہ میں کمشنر سیف انجم نے اپنے طور پر لاء ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے ایک پٹیشن CM تیار کی اور سپریم کورٹ میں جمع کرائی اور عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ اس پٹیشن کو ارجنٹ بنیاد پر سنا جائے۔

اگر اسی کیس کی ماضی میں حیثیت پر نظر ڈالی جائے تو اس سے قبل متعدد مرتبہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ حکم امتناعی حاصل کرنے کیلئے اپنی کوشش کر چکی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین نے 17 جولائی 2017 ء کے اپنے فیصلہ میں ناصرف اس حکم امتناعی کو مسترد کر دیا ہے بلکہ بہت سخت الفاظ میں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کی یہ پٹیشن پر اپنے ریمارکس بھی دیئے۔

اس کے بعد ایک اورلاہور ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس شاہد جمیل اور پھر لاہور ہائیکورٹ کی ایک اور جج جسٹس عائشہ ملک نے بھی بحریہ ٹاؤن کی پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ایڈووکیٹ جنرل محمد شان گل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کا اس وقت تک کوئی بھی سٹے کسی بھی عدالت سے منظور نہیں ہوا، انہوں نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 25 ستمبر 2018 تک ملک کی ساری عدالتوں نے بحریہ ٹاؤن کی اس پٹیشن کو سنا اور اس کو مستر د کر دیا لہٰذا اب کسی بھی عدالت میں بحریہ ٹاؤن کی کسی عدالت میں کوئی پٹیشن موجود نہیں،کیونکہ D,E,F سیکٹر بحریہ ٹاؤن لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے منظور شدہ نہیں ہے۔

ان سیکٹرز میں بسنے والے تمام افراد غیرقانونی طور پر رہائش پذیر ہیں اور ان سیکٹرز میں موجود پلاٹوں کی خریداری اورپلاٹوں پر قابض ہونا غیرقانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہی وجوہات کی بناء پر رنگ روڈ کی تعمیر کا کام روکنا بھی غیرقانونی ہے۔ اور یاد رہے اس تعمیراتی کام پرعدالتی سٹے کی جھوٹی خبر اڑا کر پنجاب کے وزیراعلٰی عثمان بزدار نے کام رکوایا جو کہ سمجھ سے بالا ہے۔

اب وزیراعلٰی عثمان بزدار قانونی سٹے کی بات پھیلا کر اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کریں گے لیکن اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے ایک سینئر وکیل احمد اویس جو کہ پنجاب حکومت اور لاہور رنگ روڈ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے خلاف کیس کی پیروی کر رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ اگر ایساپٹیشن کا کوئی کیس عدالت میں چل رہا ہویا کوئی سٹے لیا گیا ہو تو میں خود اس کا ذمہ دار ہوں لہٰذا لاہور رنگ روڈ پر فوراً کام شروع کیا جائے۔

اب موجودہ صورتحال سے کچھ عرصہ قبل عثمان بزدار نے کمشنر لاہور سے اپنے آفس بلا کر جواب طلبی کی کہ آپ نے سپریم کورٹ میں میری اجازت کے بغیر اور میرے نوٹس میں لائے بغیر کیسے پٹیشن دائر کر دی، جس پر کمشنر لاہور سیف انجم نے اسے مفادعامہ کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے وضاحت کی کہ جناب اس رنگ روڈ کو بحریہ ٹاؤن کے اندر سے گزرنے سے نہ روکا جائے، کیونکہ اگر اس کو روکا گیایا اس کا کوئی اور تعمیراتی پلان تیار کیا گیا تو یہ سڑک پھر 2/4 سال کیلئے مئوخر ہو جائیگی جس پر پیسہ اور وقت برباد ہو گا۔

لہٰذا آخر کار بزدار کے بار بار اصرار پر کمشنر نے وزیراعلٰی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں پٹیشن کو کچھ بہانے سے روک لیا گیا۔اورجیسے ہی سیف انجم نے پٹیشن کو عدالت عالیہ سے واپس لیا اس کے اگلے ہی دن بزدار صاحب نے اس کمشنر کا بھی تبادلہ کرتے ہوئے سابق کمشنر بلال لودھی کوکمشنر لاہور مقرر کر دیا، جس نے اپنی پہلی ایک سالہ کمشنری کے دوران SL3 پر ایک انچ کا کام بھی نہیں ہونے دیا۔

مبینہ طور پر کہا جا رہا ہے کہ آخر ملک ریاض سے وزیراعلٰی عثمان بزدار کا ایسا کیا تعلق ہے کہ وہ رنگ روڈ کی تعمیر میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، اور آنے والے وقت میں ہی اس کا پتہ پاکستانی عوام کو تب چلے گا کہ جب ایک نئے نیب کے کیس کے طور پر اخبارات کی زینت بنے گا۔اس ساری صورتحال کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان خصوصی طور پر دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ آخر اس SL3 کی تعمیر میں کون کون کیا کیا کردار ادا کر رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :