قومی اسمبلی کی مچھلی منڈی اور برطانوی ریڈ لسٹ

پیر 21 جون 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

بابا جی اشفاق احمد اپنے ٹی وی پروگرام اور انہی ٹی وی پروگرام کے سکرپٹ پر مبنی اپنی لکھی ہوئی کتاب '' زاویہ '' میں کہتے اور لکھتے ہیں کہ صوفی ازم کے نامور بابے فرماتے ہیں کہ جب دوست احباب کی محفلوں میں مختلف موضوعات پر گرما گرم بحث کے دوران ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے کسی بندے کے پاس کوئی ایسی دلیل ذہن میں آ جائے جس سے آپ کو پکا یقین ہو کہ یہ دلیل دینے کے بعد آپ کے سامنے بیٹھے آپ کے دوست یا رشتہ دار کے پاس کسی قسم کا کوئی جواب نہیں ہو گا اور وہ آپ کی دلیل سن کر ڈھیر ہو جائیگا اور پوری محفل میں شرمندہ ہو جائیگا تو فوراً اپنی زبان کو اس دوست کو ڈھیر کر دینے والی دلیل سے روک لو ، اور اپنے دوست یا رشتہ دار کو بچا لو۔

اگر اس چھوٹی سی بات پر غور کیا جائے تو بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے۔

(جاری ہے)

ایسی باتوں پر آج کل کوئی بھی دھیان نہیں دیتا، بلکہ آج کل تو ہمارے پورے معاشرے میں ایک عجیب سا ماحول پروان چڑھتے چڑھتے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ دوستوں و رشتہ داروں کی محفلوں میں ہر کوئی اس کے ساتھ بیٹھنا اور اسی کا ساتھ دینے کو ترجیح دیتے ہیں جو سب کا مذاق اچھی طرح جگت بازی کرتے ہوئے اڑائے ، اور اس کی جگتوں کا رخ اس کے سوا دوسروں پر رہے ۔

جس سے وہ تو خوب لطف اندوز ہو لیکن دوسروں کے سامنے اس کا مذاق نہ بنے۔ہمارے پیارے پاکستان کے تقریباً تمام ٹی وی چینلز پر کوئی نہ کوئی ایسا پروگرام ضرور نشر کیا جا رہا ہے جس میں انسان اور انسانیت کا مذاق اڑاتے ہوئے مرد وزن کی تمیز کے بغیر ایسے ایسے فقرے اور جملے کسے جاتے ہیں کہ کسی بھی شریف آدمی کا سر جھک جائے۔پورے پاکستان کے چھوٹے شہروں کے سٹیج ڈراموں کے چھچھورے آرٹس جو کسی طرح بھی آرٹس کہلانے کے لائق نہیں ہوتے ، اور وہ سرعام سڑکوں پر عوام کو اپنے کیمروں کے سامنے ایسی ایسی باتوں پر شرمندہ وذلیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پورے پاکستان کے تقریباً سب ہی ٹی وی چینلز اور ہر آرٹس کے اپنے ذاتی نوعیت کے یوٹیوب چینلز پر دکھائے جاتے ہیں ، جن کو دیکھ کر ہماری نئی نسل اسی کو اپنا شعار سمجھتے ہوئے اسی جگت بازی انداز کو اپنا کلچر سمجھتی ہے۔

مولانا رومی اپنی کتاب داستان رومی میں بھی لکھتے ہیں کہ آپ 40 عالموں کو صرف ایک مستند و جامع دلیل سے ہرا کر زیر کر سکتے ہیں لیکن آپ کسی جاہل کو 40 زبردست قسم کی دلیلیں دے کر بھی نہیں ہرا سکتے۔
پچھلے ہفتے قومی اسمبلی میں پاکستان کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا، اس کے بعد قومی اسمبلی میں ہی اس پر بحث کا آغاز کیا گیا۔ اور اس ساری کارروائی کو پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز نے براہ راست نشر بھی کیا۔

اس دوران مختلف مواقع پر قومی اسمبلی کا ہال حسب سابق کئی بار مچھلی منڈی بن گیا۔ بجٹ گزٹ کی کتابوں کو میزائل بنا کر ممبران اسمبلی نے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا ، اس کے بعد ایک نیا آرڈر جاری کر دیا گیا ہے کہ آج کے بعد کوئی ممبر اسمبلی کے اندر کسی قسم کی کوئی کتاب یا کتابچہ لیکر نہیں جا سکتا،اور سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ آئندہ چند روز تک ممبر ان اسمبلی اجلاس میں ننگے پاؤں یعنی جوتے پہنے بغیر ہی اندر جایا کریں گے، تاکہ ان جوتوں سے ایک دوسرے پر حملہ آور نہ ہو سکیں۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آئندہ اجلاس میں پانی کی بوتلوں، سینی ٹائزر کی بوتلوں کو ساتھ لیکر جانے پر بھی پابندی لگ جائیگی۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے ممبران اسمبلی کو اپنی اوقات دکھاتے ہوئے بیشتر مواقع پر ایسی ایسی حرکات کرتے ہوئے پوری قوم نے دیکھا کہ کسی بھی باشعور بندے کا خود شرمندہ ہونا ایک قدرتی امر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، یہ ہنگامہ خیزی ہر سال بجٹ اجلاس اور اس پر بحث کے دوران دیکھنے کو ملتی ہے۔

حکومت اپنے بنائے گئے بجٹ کو ایک مثالی بجٹ قرار دیتی ہے اور اپوزیشن کا کام ہے کہ وہ اس بجٹ میں ایسے ایسے کیڑے نکالے کہ خود وہ عوام جس نے اپنے ووٹوں کی مدد سے انہیں اپنی نمائندگی کرنے کیلئے انہیں اسمبلی میں بھیجا ہوتا ہے ان حرکات پر بھی وہ خود بھی شک میں پڑ جائے کہ ہم نے ان لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلی میں اپنی نمائندگی کیلئے بھیجا، یہ تو اس لائق ہی نہیں کہ ہماری آواز بنتے ہوئے ہمارے دیئے ہوئے ووٹ کی عزت رکھ سکیں، ایک دوسرے کو گندی اور ننگی گالیاں وہ بھی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر دینا ، جس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں پاکستانی عوام کی نمائندگی کرنے والے یہ نمائندگان نے انہیں دیئے گئے ووٹ کی عزت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا جاتا ہے۔

افسوس کہ اس ساری کارروائی میں خواتین ارکان اسمبلی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ قوم کو یہ بھی یاد ہو گا کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے سابق وزیراعظم خاقان عباسی نے سپیکر اسمبلی کو اسمبلی فلور پر کہہ دیا تھا کہ میں جوتا اتار کر آپ کو ماروں گا۔ اس ہنگامہ کے دوران گالی گلوچ، دور سے ہاتھوں سے گندے اشارے، اور ننگی گالیاں دیتے ہوئے لاہور سے ممبر اسمبلی روحیل اصغر نے تو تمام حدیں پھلانگتے ہوئے میڈیا میں یہ بیان دے ڈالا کہ گالیاں دینا پنجاب کے کلچرکا حصہ ہے ، اگر پنجابی زبان میں کسی بات میں دو چار گندی گالیاں نہ نکالی جائیں تو مزہ ہی نہیں آتا، ویسے بھی یہ صاحب مسلم لیگ ن کے ''کن ٹٹے''مشہور ہیں۔

انہیں پنجاب میں گندی گالیوں کو پنجاب کا کلچر کہنے والے ان پڑھ رہ جانے والے سے کوئی پوچھے کہ ان کی نظر میں سلطان باہو، بابا بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید اور شاہ محمد جیسے صوفی شعراء کے کلام پنجاب کا کلچر نہیں بلکہ گندی گالیاں ہیں؟
کرونا وائرس کی ایک کے بعد دوسری اور اس کے بعد تیسری لہر بھی خاصی پرانی ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی تک اس وباء پر مکمل کنٹرول کرنے کا کوئی ملک حتمی دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہا۔

برطانیہ میں کچھ عرصہ سے جاری ویکسین کے لئے ساری کوششیں دکھائی تو دے رہی ہیں، بلکہ ابھی تک برطانیہ کے مختلف شہروں میں حکومت کی جانب سے قائم ویکسی نیشن سنٹر میں ہفتہ اور اتوار کو بھی چھٹی نہیں ہو تی بلکہ اس روز بھی ان سنٹرز کے باہرویکسی نیشن لگوانے والوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ اور اس ماحول کے دیکھتے ہوئے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس وباء پر قابو پا لیا گیا ہے لیکن پھر کوئی نا کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے جس سے دوبارہ کرونا پر قابو پانے کیلئے جزوی لاک ڈاؤن لگا دیا جاتا ہے۔

ابھی چند ہفتوں قبل برطانیہ میں انڈین وائرس کی دریافت ہوئی اور اس دریافت نے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق برطانوی شہر مانچسٹر میں35 افراد جاں بحق ہو گئے۔ ان ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے حکومت نے مانچسٹر اور اس کے گردو نواح کے چند شہروں میں دوبارہ لاک ڈاؤن کا عندیہ سنا دیا۔ جس سے یہاں موجود عوام سخت مایوسی اور تشویش کا شکار ہو گئے۔ ہر ہفتے سوشل میڈیا اور ٹی وی میڈیا پر برطانوی حکومت کی جانب سے اٹھائے جانیوالے اقدامات اور اعلانات سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت ملک میں کرونا کی کیا صورتحال ہے۔

سنا جا رہا ہے اسی ماہ کی 29 تاریخ کو اس بارے میں ایک حکومت میٹنگ ہونے جا رہی ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جائیگا کہ کون کون سے ممالک کو اس ریڈ لسٹ سے نکالا جائے اور کون سے ملک اسی لسٹ میں شامل رہیں گے۔ اسی صورتحال میں ہم تارکین وطن سخت تشویش میں مبتلا ہیں ، اور ان کی خواہش ہے کہ اگلے مہینے سکول وکالجوں میں ہونیوالی گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ پاکستان جا سکیں گے یا پھربصورت دیگرے حسب سابق ساری چھٹیاں گھر پر ہی گزارنی پڑیں گی۔

کیونکہ ابھی تک پاکستان برطانوی حکومت کی جانب سے بنائی جانیوالی ریڈ لسٹ سے باہر نہیں آ سکا حالانکہ پاکستان پر اللہ کی مہربانی اور پی ٹی ایم حکومت کی دانشمندنہ پالیسی کے باعث پاکستان میں کرونا مریضوں کی تعداد اور کرونا کے باعث مرنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن ریڈ لسٹ سے نکلنے کیلئے برطانوی سرکار کی نظر میں کیا معیار ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں۔

اسی لئے بے شمار تارکین وطن اپنے پیاروں سے ملنے اور اگلے مہینے آنے والی عیدالضحٰی پاکستان میں منانے کی آس لئے اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ پاکستان کو ریڈلسٹ سے کب نکالا جائے۔ اسی طرح بے شمار پاکستانی ایسے بھی ہیں جو کچھ مہینے پہلے پاکستان گئے تھے لیکن ابھی تک واپس اس لئے نہیں آ سکتے کیونکہ یہاں آنے کے بعد سخت برطانوی قانون کے مطابق انہیں 10 روز کیلئے ہوٹل میں اپنے خرچ پر آئسولیٹ ہونے اور فی بندہ 1750 پونڈ کا خرچ اور ان 10روز میں 2 مرتبہ کرونا کے ٹیسٹ جن کی مالیت 210 پونڈ ہے بھی خوداپنے خرچ کی مد میں ادا کرنا ہو گا،اسی خرچ کے باعث ہر کوئی اسی کو ترجیح دے رہا ہے کہ اتنے زیادہ اضافی پیسے خرچ کرنے سے بہتر ہے وہ اپنے گھر پر موجود رہیں۔

اللہ کے حضور دعا ہے کہ اس وبائی مرض سے پوری دنیا کو جلد سے جلد چھٹکارا نصیب فرمائے ۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :