جوشیلی تقریر کا حاصل ۔۔۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا

پیر 30 ستمبر 2019

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

عمرن خان کی تقریر کی تعریف نہ کرنا بدزوقی ہوگی اور اس سے کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد ہونے کی توقع کرنا سراسر بیوقوفی ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ 5 اگست سے ابتک بھارتی عزائم و عمل کے خلاف کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے سے محروم چلے آنے والا یہ شخص اب 55 دن کی ناکامیوں اور بے عملیوں کے بعد ایسی جذباتی تقریر ہی نہ کرتا تو اور کیا کرتا ۔۔۔ اقوام عالم کے سامنے آپ وہاں لاکھ واویلا کرکے دکھائیں مگر بیرونی دنیا بیوقوف نہیں ہے کیونکہ وہ کھلی آنکھوں سے آپکی بے عملی دیکھ ہی رہی ہے ۔

۔۔ پھر وہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ والے ملک سے خواہ مخواہ کیوں بگاڑے جبکہ خود پاکستانی حکومت ہی نے اسکے ساتھ بڑا بگاڑ مول لینے کی جرآت ہی نہیں کی ہے ،،، تا دم تحریر پاکستان نے بھارت سے نہ تو سفارتی تعلقات منقطع کیئے ہیں اور نہ ہی نمک کی تجارت منسوخ کی ہے حتیٰ کہ اسکی کمرشیل پروازوں کے لیئے فضائی حدود بھی کھلی ہیں کہ جنکی بندش سے بھارت کو سالانہ اربوں کا نقصان پہنچ سکتا ہے ،،،البتہ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیئے اور وہ بھی بڑے عوامی شورشرابے کے بعد بھارتی صدر اور وزیراعظم کی آخری ایک پرواز کو اجازت نہ دینے کا ڈرامہ ضرور رچایا گیا تھا جبکہ اس سے ذرا پہلے اور مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ لینے کے بعد جب وہ ایواڈ لینے کے لیئے دبئی گئے تھے تو زخم بھی تازہ تھے لیکن وہ انہی فضاؤں سے بڑے طمراق سے گزارے گئے تھے۔

(جاری ہے)

۔۔
اور اب توجنرل اسمبلی کے سامنے پاکستانی وزیراعظم کی تقریر کا مرحلہ بھی آکے گزر گیا ۔۔ اسکے بعد کیا ہوگا ۔۔۔ درحقیقت اور عملاً کچھ بھی نہیں ۔۔۔
مانو نا مانو مقبوضہ کشمیر اب باضابطہ بھارت کا حصہ ہے
تقریریں اب چاہے جتنی کرلو رات گئی بات گئی والا قصہ ہے  
ابھی دو تین روز پہلے ہی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے سامنے بھارت کے مقابل پاکستان کو جس طرح ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس نے اقوام عالم میں ہماری حیثیت کو پوری طرح کھول کے بیان کردیا ہے کیونکہ ہماری جس قرارداد کو پیش کرنے کے لیئے پاکستان کو 16 ووٹ اور منظوری کے لیئے 48 ووٹ درکار تھے تو پاکستان محض 16 ووٹ بھی نہ لے سکا اور مخالفت میں بھارت نے 58 ووٹ حاصل کرلیئے اور کمال بیشرمی کی بات یہ ہے کہ امریکیوں کا ایک بیحیا پٹھو اور ہمارا نکما اور نااہل وزیر خارجہ اب بھی دانت نکوس نکوس کراور چبڑے چڑھا کے بہت چبا چبا کر اپنی لاپتہ خارجہ حکمت عملی کے ناپید اوصاف کی تحسین کرتے نہیں تھک رہا ۔

۔۔ وہ سمجھ رہا ہے کہ جیسے وہ میڈیا سے بات نہیں کررہا بلکہ شاید اپنی پشتینی سجادہ نشینی والی گدی پہ بیٹھ کراپنے گم صم بےمغز عقیدتمندوں سے 'خطبہء عالیہ' ارشاد فرما رہا ہے      
بات تلخ سہی مگر حقیقت ہے کہ اب جبکہ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے کسی بھی ٹھوس اقدام کے بغیر مقبوضہ کشمیر کے جبری انضمام کو دو ماہ ہوگئے اور خلیج کی صورتحال کی گرمی نے ہر خبر کو جھلسا دیا ہے تو یوں سمجھیئے کہ اب ہمارے پیارے وزیراعظم کی یہ تقریر دراصل کشمیر کے ؛جنجالی ' محاذ پہ انکی توپ کا وہ آخری گولہ تھا کہ جو انہوں نے جنرل اسمبلی میں داغ دیا ہے تاکہ انکے حالی موالی اسی اعتماد کے ساتھ ڈٹ کے یہ کہ سکیں کہ ہمارے ہیرو نے تو اخیر ہی کردتی جے ۔

۔۔ ویسے بھی انکے قائد تو اس مسئلے کے آغاز ہی میں یہ یہ کہ کے اخیر کر ہی دی تھی کہ  کہ ' کیا میں بھارت پہ حملہ کردوں ' اب جبکہ اس ارشاد عالیہ کے بعد یہ طے ہوگیا کہ اب بھی ہم نے کچھ نہیں کرنا، بھارت نے ہی کرنا تو پھر مناسب یہی ہے کہ سب بھول جائیے اور قائد کی اس روح پرور و جوشیلی تقریر کے خوب خوب گن گائیئے  اور آرام سے سوئے سری نگر پیر پھیلا کے سوئیئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :