کیا سنگدلی اورمنافقانہ رویہ ہی سیاست ہے۔۔۔؟؟

ہفتہ 9 جنوری 2021

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

کل بروز ہفتہ 9 مئی کو انجمن اتحاد ہزارہ والے شام کو 'ہزارہ کلچر ڈے' منارہے ہیں اور اس ضمن میں ہم اور ہماری تنظٰیم شہری حقوق محاذ بھی وہاں مدعو تھے اور ہم کو اپنے ہزارہ وال بھائیوں کی اس خوشی کی ثقافتی تقریب میں میں شرکت کے ذریعے اردو وال طبقے کی جانب سے یکجہتی کا اظہار کرنا تھا اور یوں‌ سندھ میں بسنے والی سبھی ثقافتوں کے لیئےمحبت اور بھائی چارے کا پیغام دینا تھا ۔

۔۔  لیکن جب کوئٹہ میں 11 بیگناہ شیعہ کانکنوں کا بہیمانہ قتل ہوا اور انکی میتیں سڑک پہ رکھ کے دھرنا دیا گیا اور اس احتجاج کا دائرہ ملک کے کئی علاقوں تک پھیل گیا تو ہم نے انجمن اتحاد ہزارہ کے کرتا دھرتاؤں سے یہ گزارش کی کہ وہ سوگ کی اس صورتحال میں اپنے اس پرمسرت و رنگا رگ کلچر ڈے کو چند روز کے لیئے ملتوی کردیں‌ تو انہوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا اور پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ  انکی اس ‌ بیحسی پہ ہم انکی اس تقریب میں اپنی اور اپنی تنظیم شہری حقوق محاذ کی شرکت سے قطعی انکار کردیں جو ہم نے کردیا ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔
اس معاملے میں زیادہ اہم اور بتانے لائق بات یہ ہے کہ ہزارہ کلچر ڈے کی اس تقریب کے مہمان خصوصی سندھ  کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ ہیں کہ جنکی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کل کوئیٹہ پہنچ کرمرکزی احتجاجی دھرنے کے کیمپ میں حاضری دی ہے اور مقتولین کے سوگوار اہلخانہ و اعزہ و اقرباء و غمزہ افراد سے ملاقات کی ہے اور انکے دکھ کو اپنا دکھ قرار دیا ہے تو یہاں‌ میرا اس جماعت سے یہ گستاخانہ سوال ہے کہ کوئی بتائے کہ آخر یہ کیسا عجب دکھ ہے کہ جو مرکزی قیادت کو تودرجہ اؤل پہ بتایا جارہا ہے لیکن جس کا اثر صوبائی قیادت کے دلوں پہ مطلق نہیں ہوا ہے ۔

۔ بدقسمتی سے یہی معاملہ مسلم لیگ نون کے چند مقامی و غیر مقامی رہنماء بھی اس ہزارہ کلچر ڈے کی رنگینیوں میں شریک ہورہے ہیں جبکہ انکی نائب صدر محترمہ مریم صفدر نے بھی کوئیٹہ کے احتجاجی کممپ کا دورہ کیا تھا اور وزیراعظم عمران خان ے وہاں نہ پہنچنے پہ انہیں خوب خوب لتاڑا تھا اور انہیں بیحسی و بزدلی کے طعنے بھی دیئے تھے  -
لیکن اس انسانی المیئے کے حوالے سے ہم اور ہماری تنظیم اپنی انسان دوست سوچ پہ مستقیم ہیں اور کسی بھی کنفیوژن یا بیحسی کا ہرگز ہرگز شکار نہیں اور اسی لیئے ان سیاسی گرو گھنٹالوں سے برملا شکوہ کناں ہیں کہ  آخر یہ کیسی سیاست ہے کہ اسکا کوئیٹہ والا چہرہ کوئی اور روپ لیئے ہوتا ہے اور کراچی میں اسکے تیور مختلف بلکہ بالکل جداگانہ ہوتے ہیں ۔

۔۔ کاش کوئی ان سیاسی مجاورں کو بتائے کہ ایک دکھ اور سکھ کا مشترک طرز احساس ہی تو مختلف النوع ثقافتوں اور قبیلوں کو ایک قوم بناتا ہے وگرنہ تو انکی حیثیت ایسے گروہو‌ں سے زیادہ کچھ بھی نہیں کہ جنکے لیئے دوسرے افراد کا وجود محض اپنی اغراض پوری کرنے کے لیئے ہے ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :