واقعات آزادی

جمعہ 14 اگست 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

وطن عزیز پاکستان آج 73 سال کا ہوگیا ہے۔ ان 73 سالوں میں پاکستان کی آزادی پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ کچھ لوگوں نے تو یہ تک کہا کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار دیکھنے کے بعد تو سب کو سمجھ جانا چاہیے کہ قائد اعظم محمد علی جناح حق پر تھے۔اور انہوں نے اس وطن کو آزاد کرا کر ہم سب پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔

آج آزادی کے دن پر جذباتی تحریر لکھنے کی بجائے میں نے ضرورت محسوس کی کہ کیوں نا آزادی کے متعلق کچھ مُبہم واقعات پیش کیے جائیں۔ یقیناً ان واقعات کا جاننا ہر کسی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
برطانوی زیر اثر بھارت میں کل 560 کے قریب ریاستیں تھیں۔ ان ریاستوں کے لیے ایک پروٹوکول ترتیب دیا گیا تھا۔ ریاست کی حیثیت کے مطابق انکے سردار کو پروٹوکول دیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

پروٹوکول میں اکیس، انیس ،سترہ،پندرہ اور تیرہ توپوں کی سلامی شامل تھی۔ 560 میں سے 425 وہ ریاستیں تھیں کہ جن کے سردار یا راجہ کو زندگی میں کبھی پروٹوکول نہیں دیا گیا۔ یہ ریاستیں بنیادی طور پر کمزور اور چھوٹی ریاستیں تھیں۔ ان کے مقابلے میں حیدرآباد ،میسور، کشمیر،بروڈا اور گوالیار کے راجاؤں کو سب سے زیادہ اکیس توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔

یہ ریاستیں کافی بڑی اور مضبوط ریاستیں تھے۔ ان ریاستوں کے الحاق کے لیے دونوں ممالک پاکستان اور بھارت نے سر توڑ کوششیں کی۔
کشمیر کی ریاست چونکہ ایک مضبوط،مالدار اور جغرافیائی لحاظ سے اہم ریاست تھی۔اس لیے پاکستان اور بھارت اس کے حصول کے لیے آج تک لڑ رہے ہیں۔ کشمیر بنیادی طور پر جس مسئلے کا شکار ہوا۔وہ یہ تھا کے ریاست کے راجہ کو الحاق کا اختیار دیا گیا۔

چونکہ راجہ مسلمان نہیں تھا اس لیے اس نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا انتخاب کیا۔ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کے  لیے خود کشمیر گئے۔اور راجہ سے کہا کہ وہ پاکستان سے الحاق کر لے۔پر راجہ آزاد ریاست قائم کرنے کے موڈ میں تھا۔اس نے ماؤنٹ بیٹن کی رائے کو مسترد کر دیا۔ماؤنٹ بیٹن نے راجہ سے کہا کہ تمھاری ریاست سمندر سے کافی دور ہے۔

اس لیے تم آزاد حیثیت برقرار رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہو۔اگر تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو تمھاری وجہ سے انتشار پھیلے گا۔ اور یہی ہوا راجہ کے متنازعہ فیصلے نے برصغیر کی فضا کو گندا کر دیا اور آج تک دونوں ممالک کشمیر پر ایک دوسرے کا خون چوس رہے ہیں۔
1947 میں برطانوی راج کو بھارت پر بلا شرکت غیرے سو سال سے زیادہ ہو چُکے تھے۔  انگریز کے ہندوستان میں آنے سے پہلے ایک اندازے کے مطابق دنیا کی کل دولت کا 18 فیصد ہندوستان کی ملکیت تھا۔

یہاں کی زمین زر خیز تھی اور آبادی زیادہ تھی۔اس لیے اس جگہ پر حکومت انتہائی فائدہ مند تھی۔ برطانوی راج نے اپنے منصوبے کے مطابق1977 تک ہندوستان پر حکومت قائم رکھنی تھی۔مگر دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے بعد برطانیہ معاشی لحاظ سے اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ اس کے لیے ہندوستان پر حکومت قائم رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ ان حالات میں بھی برطانیہ کے سابق وزیر اعظم اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر چرچل آزادی ہندوستان کی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں تھے۔

ان کے خیال میں ہندوستان کا ہاتھ سے نکلنا برطانیہ کے مستقبل کے لیے زوال کی علامت ہوگا اور پھر یہی ہوا۔  ہندوستان میں آزادی کی تحریک اپنی جگہ مگر برطانیہ نے ہندوستان کو آزادی معاشی کمزوری کی وجہ سے دی تھی۔
3 جون 1947 کو ماؤنٹ بیٹن نے آزادی کا منصوبہ مسلم لیگ اور کانگریس کے سامنے پیش کیا۔ منصوبے کی منظوری کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے ایک لفافہ تمام لیڈران کے ہاتھ میں تھما دیا۔

لفافے کو پڑھتے ہی تمام لوگوں کے ہوش آڑ گئے۔ اس لفافے میں آزادی کے فوراً بعد درپیش انتظامی معاملات کی تفصیل تھی۔ ان معاملات کو سنبھالنا کانگریس کے لیے اتنا مشکل نہیں تھا۔کیوں کہ ان کے پاس گاندھی، نہرو،سردار پٹیل اور مولانا ابوالکلام پر مشتمل ایک اچھی ٹیم موجود تھی۔لیکن دوسری طرف مسلم لیگ کے پاس قائد اعظم کے لیول کا کوئی اور لیڈر ہی نہیں تھا۔

اس لیے قائد اعظم کے کندھوں پر اچانک بہت بڑا بوجھ  پڑھ گیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے لیے جو طریقہ کار ترتیب دیا گیا اس کے مطابق ہر چیز کو تقسیم کیا جائے گا۔اور تمام چیزوں میں پاکستانی حصہ 20 فیصد ہوگا۔ یہ بات بظاھر تُو آسان لگتی ہے مگر در حقیقت ہر چیز کو گنا پھر تقسیم کرنا اور پھر اُسکو منتقل کرنا بہت ہی محنت طلب کام تھا۔اس لیے تقسیم ہندوستان کو تاریخ کی سب سے مشکل طلاق بھی کہا جاتا ہے۔


آزادی کے وقت کچھ دلچسپ واقعات بھی پیش آئے۔ جیسا کہ جب وائسرائے کی بگیاں تقسیم کرنے کا وقت آیا تو سونے اور چاندی کے چھ چھ بگیوں کو کسی ایک ملک کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد میں لیے جو طریقہ کار وضع ہوا وہ انتہائی مضحکہ خیز تھا۔ دونوں ممالک کے نمائندوں کے سامنے ایک سکہ کے ذریعے ٹاس کروایا گیا اور ٹاس جیتنے پر بگیاں بھارت کے حوالے کر دی گئی۔

ایک اور واقعہ یہ تھا کہ آزادی کے وقت فوج کے نوجوانوں کو یہ اجازت دی گئی کہ پاکستان یا بھارت میں سے کیسی ایک کا انتخاب کریں۔ اس  آپشن کے ذریعے دو بھائیوں یونس خان نے بھارت اور یعقوب نے پاکستان کی فوج میں جانے کا فیصلہ کیا۔اب سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کشمیر پر جب جنگ شروع ہوئی تو پاکستانی فوج کی قیادت یعقوب جبکہ بھارتی فوج کی قیادت  یونس خان کے ہاتھوں میں تھی۔


تاریخ آزادی کے لیے 15 اگست کا اتنخاب بھی ایک عجیب سا واقعہ تھا۔ برطانیہ نے ماؤنٹ بیٹن کو جون 1948 تک کا وقت دیا تھا۔مگر حالات خراب ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے وائسرائے سے جلدی سے اختیارات منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ 15 اگست کی تاریخ کچھ اس طرح طے ہوئی کہ 3 جون کے منصوبے کے ماؤنٹ بیٹن پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ یہ کسی بھی وائس رائے کی پہلی پریس کانفرنس تھی۔

دنیا بھر کے صحافی  اس پریس کانفرنس میں موجود تھے۔ ایک صحافی نے ماؤنٹ بیٹن سے آزادی کے تاریخ پوچھی تو ماؤنٹ بیٹن نے پہلے سے فیصلہ کیے بغیر 15 اگست کی تاریخ دے دی۔ اس تاریخ کی وجہ یہ تھی کہ اسی دن 1945 کو جاپان نے ہتیارا ڈالے تھے۔اور  اسی دن  برطانیہ دوسری جنگ عظیم جیت گیا تھا۔ماؤنٹ بیٹن بنیادی طور پر اس تسلسل کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔


اب آخر میں ایک بہت بڑی غلط فہمی کی طرف آتے ہیں۔ لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ جب پاکستان آزاد ہوا تو اس پر کوئی قرضہ نہیں تھا۔ یہ ایک غلط افواہ ہے۔ 1947 میں ہندوستان پر 5 ارب کا قرضہ تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کے مابین یہ طے ہوا کہ ہندوستانی خزانے سے پاکستان کو سترہ اشاریہ پانچ فیصد حصہ ملے گا۔اور ساتھ میں پاکستان اتنے ہی فیصد قرضے کی ادائیگی اپنے ذمے لے گا۔

یوں آزادی کے وقت بھی پاکستان پر تقریباً 80 ملین کا قرضہ موجود تھا۔
یہ تھے کچھ واقعات جو آزادی کے وقت پیش آئے۔ یہ واقعات یقیناً تمام واقعات کی ترجمانی نہیں کرتے۔تمام واقعات تو شاید ایک کتاب میں بھی نہ سما سکیں۔ میرا مقصد تحریک پاکستان پر اُنگلیاں اٹھنا بلکل بھی نہیں تھا۔ میں بذاتِ خود قائد کا مرید اور دو قومی نظریے پر یقین کرنے والا بندہ ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس ملک نے آگے بڑھنا ہے تو اس ملک کے نوجوان کی اصل واقعات سے روشناسی ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :