ریپ کی وجوہات

بدھ 16 ستمبر 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

جس معاشرے کے مرد کی گالی عورت کے نام سے ہو۔ تو اس معاشرے میں ریپ کا ہونا کوئی حیران کن بات نہیں ہونی چاہئے۔ کیوں کہ ہر مرد جسمانی طور پر نہ سہی لیکن ذہنی طور پر بہت سی عورتوں کا ریپ کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان تو اس بات کو گہری دوستی کی علامت سمجھتے ہیں کہ سامنے والا بندہ اسے ماں بہن کی گالی دیتا ہے لیکن اسے اس سے فرق نہیں پڑتا ۔

یہی نہیں آج کل کے نوجوان اس بات پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ فحش فلموں کے اداکاروں کو جانتے ہیں اور کسی محفل میں جب کوئی ایک دوست کسی فحش فلم کی زبان استعمال کر دیتا ہے تو اس کی بات کا جواب دینا والا فخر محسوس کرتا ہے کہ وہ اس زبان سے آشنا ہے۔ اب اگر کسی معاشرے کے نوجوانوں کے یہ رویے ہوں گے تو اس معاشرے میں کسی خاتون پر ایسا ظلم ہونا یقیناً کوئی حیران کن عمل نہیں ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)


پاکستانی قوم بنیادی طور پر ریکشن دینے کی ماہر قوم ہے۔ کوئی واقعہ ہونے کے بعد یہاں چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے کہ انصاف نہیں مل رہا لیکن ہماری قوم یہ کبھی جاننے کی کوشش نہیں کرتی کہ آخر کار یہ واقعہ پیش کیوں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ واقعہ رونما کے بعد ہم کچھ دنوں تک سوشل میڈیا پر گولہ باری کرتے ہیں۔اور بعد میں بھول جاتے ہیں۔ اگر کوئی یاد دلائے تُو سسٹم کو گالی دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔


پاکستان میں زیادتی کے واقعات میں جو اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کی اصل وجہ ہمارے خاندانی نظام میں موجود ایک خامی ہے۔ وہ خامی یہ ہے کہ ہماری مائیں بیٹوں کو عورت کی عزت کرنا نہیں سکھاتی ہیں۔ وہ بیٹوں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ بہنوں کی نقل و حمل  کو کنٹرول کریں۔ اگر گھر میں ایک گلاس لسی ہو تو ہمارے گھروں میں وہ گلاس کبھی بہن کو نہیں ملتا بلکہ وہ گلاس ہمیشہ بھائی کا ہوتا ہے۔

وہی ماں جو خود ایک عورت ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو برابری نہیں سکھاتی۔اس طرح بچپن ہی سے ایک مرد عورتوں کو خود سے کمتر سمجھنے لگتا ہے۔
ہماری شادیوں میں مرد حضرات خواجہ سراؤں کے ساتھ رقص و سرور کی محفلیں کرتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جب یہ لوگ ان محفلوں میں ہوتے ہیں تو انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ ان کی والدہ، بہن،بیٹی اس وقت ان کے بارے میں کیا سوچ رہی ہونگی۔

اور یہ کہ والدہ اپنے بچوں کو ان محافل میں جانے سے کیوں نہیں روکتی ہیں۔ والدین کی تربیت سے ہی ایک چھوٹا بچہ بڑا ہو کر اچھا انسان بنتا ہے۔لیکن آج کل کی ہماری مائیں یہ اخلاق وغیرہ زیادہ تر بیٹیوں کو ہی سکھاتی ہیں۔جس کا اثر آج کل معاشرے میں صاف نظر آرہا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ کہ جب بھی کوئی ریپ کا واقعہ ہوتا ہے تو ہم اس ظلم کی شکار بنے والی عورت کے لیے الفاظ عجیب قسم کے استعمال کرتے ہیں۔

عورت کے عزت لٹ گئی،عصمت دری ہوگئی۔ اب عقل سے خالی بات یہ ہے کہ جس پر ظلم ہوا ہے عزت بھی اسی کی لٹ گئی۔ عزت اگر لٹنی ہے تو ظلم کرنے والے کی لٹنی چائیے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو مظلوم خاندان اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔کیوں کہ ایک تُو ظلم کا صدمہ ہوتا ہے۔ دوسرا لوگوں کے آنکھیں اس خاندان کو کھانے لگتی ہیں۔
ہماری قوم طرح ہمارے وزیر اعظم بھی ایک جذباتی آدمی ہیں۔

ان کا رویہ ایک تیز گیند باز کا ہے۔کہ سامنے والا نے چھکا مارا ہے۔اس لیے اب وہ ضرور باؤنسر مارے گا۔ عمران خان کہتے کہ ریپ کرنے والے شخص کو آپریشن کے ذریعے نا مرد بنا دیا جائے۔ اب اگر ہم کسی کو ریپ کیس کے بعد نا مرد بنا کر چھوڑ دیں گے تو وہ مسجد میں جاکر ذکر و اذکار میں نہیں لگے گا۔ بلکہ وہ جرائم کی دنیا میں جائے گا۔ کیوں کہ وہ تو یہی سمجھے گا کہ جو اس کے ساتھ ہو چکا ہے۔

اس سے برا تُو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔اس لیے یہ نا مرد بنانے والی سزا بہت بیہودہ قسم کے سزا ہے۔جس کا نقصان ہوگا لیکن فائدہ کوئی نہیں۔
ان جیسے واقعات کے ہونے کی بنیادی وجہ تربیتی فقدان ہے۔ یہ زمہ داری ہمارے والدین کی ہے۔کہ وہ وہ بچوں کو ایک دوسری کی عزت کرنا سکھائیں۔ مرد حضرات سے میری گزارش ہے کہ وہ دوسروں کو اول تو گالیاں نہ دیں اور اگر ان کا دل نہیں بھرتا گالی کے بغیر گفتگو کرنے سے تو اتنی مہربانی ضرور کر لیں کہ خواتین کو اپنی گالیوں کی زبان سے علیحدہ کر لیں۔

اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو براہ کرم اپنے آپ کو غیرت مند کہلوانا چھوڑ دیں کیوں کہ عورت کی عزت نہ کرنے والا شخص کبھی غیرت مند نہیں ہو سکتا۔ ان چیزوں کا اثر شاید بہت جلدی نظر نہ اسکے۔ لیکن اس مسئلے کا اصل حال سوچ کی تبدیلی ہے۔اور جب تک سوچ تبدیل نہیں ہوگی۔ تب تک یہ واقعات ہوتے رہے ہیں۔ پھر سزا چاہے نا مرد بنانا ہو یہ پھانسی پر چڑھنا ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :