یہ آئین سیاست دانوں کا محافظ ہے یا عوام کا؟

منگل 30 جولائی 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

پوچھا جاتا ہے کہ سب الزامات صرف سیاست دانوں پر ہی کیوں لگتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ سیاست دان ہی ریاست چلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں جمہوریت ریاستی امور چلانے کا بہترین ماڈل ہے۔ اس ماڈل کا سب سے اہم حصہ انتخابات اور منتخب ہونے والے سیاست دان ہوتے ہیں۔ انتخابات اور منتخب کرنے کے قوائدو ضوابط کو آئین کا نام دیا جاتا ہے۔

انتخابات کا جیسا طریقہ کار ہوگا اور منتخب سیاست دانوں کا جو میرٹ مقرر کیا جائے گا ملکی حالات اُسی کی عکاسی کریں گے۔ پاکستان میں بھی آئین سازی کی مختلف کوششیں کی گئیں۔ سب سے پہلی کوشش ناکام رہی جس کی سزا آج تک بھگتی جارہی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا افتتاح کیا لیکن یہ اسمبلی برس ہا برس تک کوئی بھی آئین نہ بناسکی۔

(جاری ہے)

آئین سازی کی دوسری کوشش 1956ء اور تیسری 1962ء میں کی گئی لیکن یہ سب دستاویزات تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ آئین سازی کی سب سے موثر اور جان دار کوشش 1973ء میں ہوئی۔ اسی آئین کے تحت ہمارا موجودہ سیاسی ڈھانچہ قائم ہے۔ اسی آئین کے تحت عام انتخابات ہوتے ہیں اور سِول حکومتیں اپنا کام سنبھالتی ہیں۔ مختصر یہ کہ 1973ء کا آئین وہ قواعدو ضوابط ہیں جن کے تحت ریاستِ پاکستان کا انتظام چلایا جارہا ہے۔

اس آئین کے ظہور پذیر ہونے کے بعد کے مسلسل واقعات کا جائزہ لینے سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 1973ء کا آئین کس حد تک عوام دوست اور صاف ستھری جمہوریت لانے کا حامل ہے۔ مثلاً اگست 1973ء میں آئین کے نفاذ کے ٹھیک 4سال بعد ملک میں سیاسی بدامنی پھیل گئی اور فوج نے آئین کو نکرے لگا کر اقتدار سنبھال لیا۔ یہ کہنا درست ہے کہ اُس وقت کی فوج نے غیرآئینی حرکت کی لیکن یہ پوچھنا بھی درست ہے کہ اُس وقت کی سیاسی قیادت جو آئین بنانے میں شامل تھی وہ سیاسی انتشار میں داخل کیوں ہوئی؟ کیا اُس وقت کی سیاسی قیادت آئین سے دغا کرگئی یا انہی کا بنایا ہوا آئین اُن سے دغا کرگیا؟ یاوہ آئین اپنی کمزوریوں کے باعث جمہوری اقتدار کی بجائے شخصی اقتدار کی نذر ہوگیا؟ 1973ء کا آئین 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔

اگر اُس مارشل لاء کو ہوا میں دھماکے سے نہ اڑایا جاتا تو شاید 1973ء کا آئین مزید کئی برس دفن رہتا۔ 1988ء میں 1973ء کے آئین کی دوبارہ رونمائی کے بعد آئندہ 11 برسوں تک اس آئین نے اپنا سراٹھائے رکھا لیکن پاکستان کی سیاست میں جمہوریت یا امن کی بجائے بدامنی اور غیرجمہوریت ہی چلتی رہی۔ بیشک 90ء کی دہائی میں کوئی مارشل لاء ڈکٹیٹر نہیں آیا لیکن حقیقی جمہوریت بھی نہیں آئی۔

کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ 1973ء کے آئین نے سِول دور میں بھی عوام کو مایوس کیا؟ کیا یہ آئین اتنا بانجھ تھا کہ اپنی کوکھ سے حقیقی جمہوریت اور اچھے سیاست دان پیدا نہ کرسکا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اُس وقت پاکستان کی سیاست میں سازشیں ہی سازشیں تھیں۔ تو کیا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ 1973ء کا آئین اُن سازشوں کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہوا؟ اس ناکامی کی سزا ایک مرتبہ پھر پاکستانی عوام نے 1999ء کے مارشل لاء کی صورت میں بھگتی۔

جنرل پرویز مشرف نے آئین کے ساتھ وہی کیا جو غریب کی جورو کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ یہاں بھی آئین اپنا دفاع کرنے میں مات کھا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کی بے ہنگم مزاجی شخصیت اور کچھ غلط فیصلوں کی بدقسمتی نے اُن سے پاکستانی عوام کی جان چھڑائی۔ 1973ء کے آئین کو ایک مرتبہ پھر نہلایا دھلایا گیا اور سولہ سنگھار کیے گئے۔ 2008ء میں اسی آئین کے تحت انتخابات ہوئے۔

اس آئین کے تحت بننے والی جمہوری حکومت نے پانچ برس پورے کیے اور نئے انتخابات ہوئے۔ ہرطرف ڈھول بجائے گئے کہ 1973ء کے آئین کے تحت پہلی مرتبہ سِول حکومت نے اپنا جمہوری عرصہ مکمل کیا اور جمہوری طریقے سے جمہوری انتخابات کے ذریعے 2013ء میں اقتدار نئی منتخب سِول حکومت کو دیا۔ اِس حکومت نے بھی آئین کے تحت پانچ برس پورے کیے اور مسلسل تیسری مرتبہ آئین 1973ء کے تحت 2018ء میں جمہوری انتخابات کے بعد اقتدار سِول حکومت کو منتقل ہوا۔

گزشتہ گیارہ برس سے وہی 1973ء کا آئین چمک دمک رہا ہے لیکن کوئی ہے یہ پوچھنے والا کہ آئین کی اس چمک دمک سے پاکستانی عوام کس حد تک مطمئن ہیں؟ دور کی بات چھوڑیں صرف چند برس پہلے آئین میں کی جانے والی 18ویں ترمیم سے عام لوگوں کو کیا فائدہ ملا؟ اور تو اور اسی ترمیم کے تحت ہمارا وفاقی تعلیمی نظام بھی دربدر ہوگیا۔ 1973ء کا آئین پیپلزپارٹی کا فخر ہے کیونکہ اس آئین کی ایجاد کا پھول پیپلز پارٹی کے کالر پر سجا ہے۔

اگر اس پھول کی جگہ کوئی تازہ پھول آگیا تو پیپلزپارٹی کے پاس کیا بچے گا؟ 1973ء کا آئین ن لیگ کے لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اسی کے تحت وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے اور خاندانی سیاست کے باعث آئندہ بھی باربار اقتدار میں رہنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ آئین کو مقدس کہنے والے دراصل عوام کو غیرمقدس بناگئے ہیں۔ عوام کو طاقت کا سرچشمہ کہنے والے بتاسکتے ہیں کہ گزشتہ 46 برسوں میں اس آئین کے تحت عوام کتنے طاقتور ہوئے۔

آئین کو ملک کی سلامتی کی ضمانت کہنے والے تفصیل سے بتائیں کہ اس آئین کی موجودگی کے باوجود بلوچستان کے لوگ ناراض کیوں ہوئے؟ کراچی اور سندھ میں لسانی تعصب کیوں پھیلا؟ آئین کی موجودگی کے باوجود ملک میں نوگو ایرےئے کیوں قائم ہوئے؟ آئین کے باوجود ملک کی سلامتی کے لیے ضربِ عضب اور ردالفساد کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ یہاں تک کہ یہ آئین چھوٹو گینگ کو بھی کنٹرول نہ کرسکا۔

اگر مذہب میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے تو 1973ء کے آئین کو اجتہادی عمل سے کیوں نہیں گزارا جاسکتا؟ یہ آئین مخصوص ٹولے کو باربار اقتدار پر قبضہ کرنے سے نہیں روک سکا۔ یہ آئین سیاست میں عام لوگوں کی بجائے خاندانی قبضے کو نہیں روک سکا۔ یہ آئین امیر کو امیرتر اور غریب کو غریب تر ہونے سے نہیں روک سکا۔ بکریوں کا ریوڑ جب اپنے راستے سے ہٹنے لگے یا اِدھر اُدھر منہ مارنے لگے تو چرواہا ایک گرجدار آواز لگاتا ہے تو سب بکریاں پھر سے صحیح چلنے لگتی ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ کا فیصلہ ہو، گڈگورننس کی نشاندہی ہو یا کرپشن سے پاک معاشرے کی بات ہو، اِن سب کے لیے ایک گرجدار آواز کا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟ عوام کو آئین کے خلاف سازشوں سے نہیں بلکہ مفادی آئین کا دفاع کرنے والوں کی نیتوں سے خطرہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :