دروازے پر آئینہ ہے

ہفتہ 21 مارچ 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

ایک دیسی کہاوت ہے کہ اگر قدرت قد کی لمبائی دیکھ کر اختیار دیتی تو آج سب اونٹ کوتوال ہوتے لیکن مشکوک جمہوریت میں ایسا ممکن ہے کہ کسی کو اونچا عہدہ مل جائے جو اُس کے ظرف سے بہت بلند ہو۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان فاؤل کھیلنے کے عادی ہیں۔ انہیں باربار فاؤل کھیلنے کے باوجود بھی ٹیم سے علیحدہ نہیں کیا جاتا بلکہ ہرمرتبہ وہ معذرت کی سفید جھنڈی ہلاکر کھیل میں دوبارہ آجاتے ہیں۔

 
وزیر موصوف نے خودسر مہم جوئی کے معرکوں میں حال ہی میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ معذور بچے والدین کی غلط کاریوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یعنی اُن والدین کے لیے اللہ کا عذاب اُن کے معذور بچوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ بیان دیتے ہوئے وزیر موصوف کوتو کچھ نہیں ہوا لیکن جس نے بھی سنا یا پڑھا وہ کانپ گیا۔

(جاری ہے)

سننے والوں میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ وہ اِس انسانیت سوز بیان کو دہرا سکیں۔

یہاں تک کہ محترم حامدمیر صاحب نے اپنے شو میں اِس بیان پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے صحت کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا سے کہا کہ ”میں اس بیان کے الفاظ ادا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا، آپ کیا کہتے ہیں؟“ اس پر ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ ”پلیز فیاض الحسن چوہان کا یہ بیان مت دہرائیے، اسے سننے کی کوئی بھی ہمت نہیں رکھتا، یہ بیان انتہائی قابل مذمت اور افسوس ناک ہے“۔

 فیاض الحسن چوہان نے اپنی عادت کے مطابق شدید تنقید کے بعد اس بیان پر بھی روایتی معذرت کی۔ یہ معذرت سننے اور پڑھنے سے صاف پتا چلتا ہے کہ انہوں نے سخت ردعمل کے گھیرے میں سے باہر جانے کے لیے سیاسی معذرت کا دروازہ استعمال کیا۔ مثلاً ان کے معذرتی بیان کے تین جملے ملاحظہ ہوں۔ نمبر ایک ”میرے منہ سے ایک فقرہ ایسا نکلا ہے کہ جس سے سوسائٹی کے اندر شاید کچھ دوستوں کو بہت برا محسوس ہوا ہے اور ان کی دل آزاری ہوئی ہے“۔

گویا وزیر موصوف کو ابھی بھی اپنی غلط بیانی پر یقین نہیں ہے اسی لیے انہوں نے شاید کا لفظ استعمال کیا۔ نمبر دو ”شاید میرے خیال میں میرے سے الفاظ کا چناؤ غلط انداز سے ہوا“۔ گویا وزیر موصوف ابھی بھی دل سے یہ قبول نہیں کررہے کہ ان کے الفاظ کا چناؤ یقینی غلط تھا بلکہ انہوں نے یہاں بھی شاید کا لفظ استعمال کیا۔ نمبر تین ”میں معذرت خواہ ہوں اگر میرے الفاظ اور کلمات کی وجہ سے کچھ دوستوں کے اور کچھ کمیونٹی کے افراد کے جذبات مجروح ہوئے“۔

 گویا وزیر موصوف نے یہاں بھی تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اگر کا استعمال کیا۔ وزیر موصوف کے مذکورہ بیان پر مخالف سیاسی رہنماؤں نے جو کہا سو کہا، اُن کی اپنی جماعت پی ٹی آئی کے اراکین نے بھی اس بیان کی بھرپور مذمت کی۔ مثلاًوفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اِس بیان کو قابل مذمت اور ناقابل معافی قرار دیا۔ ڈیجیٹل پاکستان پروگرام کے لیے وزیراعظم کی معاون خصوصی تانیہ ایدرس نے بھی اِس بیان کی شدید مذمت کی اور کہا کہ سپیشل بچوں کے خلاف ایسے الفاظ تکلیف دہ اور ناقابل معافی ہیں۔

 مختصر یہ کہ فیاض الحسن چوہان کے اپنے کولیگز ڈاکٹر ظفر مرزا، شیریں مزاری اور تانیہ ایدرس وغیرہ اُن کے اِس بیان کو سننے اور دہرانے کی ہمت نہیں رکھتے اور مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل معافی قرار دیتے ہیں۔ اِس موقع پر خصوصی افراد کے ممکنہ ردعمل درج ذیل ہو سکتے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ احتجاجی پروگراموں کے ذریعے جلسے جلوس کرتے، دھرنا دیتے، سڑکیں بلاک کرتے اور سوسائٹی کی روزمرہ کی زندگی میں رکاوٹیں پیدا کرتے۔

اگر کوئی انہیں ایسے اجتماعات کرنے پر کورونا بیماری سے ڈراتا تو وہ کہہ دیتے کہ پرویز خٹک نے اپنی حکومت کی ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں کورونا کی موجودگی کے باوجود سیاسی جلسہ کیا اور صحافی اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے ابھی بھی احتجاجی جلسے کررہے ہیں تو پھر خصوصی افراد بھی احتجاجی مہم کیوں نہیں چلا سکتے تھے؟ لیکن خصوصی افراد نے حکومت کی بات کو مانتے ہوئے اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس حوالے سے احتجاجی پروگراموں کی منصوبہ بندی نہیں کی۔

 
دوسرا یہ کہ سِول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ مل کر خصوصی افراد وزیر موصوف کے استعفے کا مطالبہ کرتے لیکن انہیں معلوم تھا کہ ملک کی 72 سالہ تاریخ میں ملک کے کسی حکمران میں ایسی اخلاقی صفت موجود نہیں کہ وہ اپنی کسی سیاہ کاری پر استعفیٰ دے بلکہ جب بھیجنا لازم ٹھہرے تو اُسے کوئی بہانہ کرکے ہی نکالا جاتا ہے۔ یعنی خصوصی افراد کی سیاسی دانش مندی فیاض الحسن چوہان کی سیاسی دانش مندی سے زیادہ تھی کیونکہ وزیر موصوف تو اپنے اپوزیشن کے زمانے میں اُس وقت کے حکمرانوں سے استعفے کا مطالبہ کرتے رہے جو پورا نہ ہوا۔

تیسرا یہ کہ خصوصی افراد وزیر موصوف کو عدالت کے کٹہرے میں لاسکتے تھے لیکن انہوں نے معاملہ سوسائٹی کے ضمیر کی عدالت پر چھوڑ دیا۔ وہ خصوصی افراد جنہیں وزیر موصوف نے معذور کہہ کر ایک عذاب قرار دیا تھا ان کا مندرجہ بالا ردعمل ایک بِگ سلیوٹ کے قابل ہے۔ بیشک بڑے ظرف اور چھوٹے ظرف میں یہی فرق ہوتا ہے۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ ”نخرہ چوڑے دا“ اور ایک لٹریری کہاوت یہ بھی ہے کہ ”قدرت ہاتھی کو ایک چیونٹی سے بھی مروا سکتی ہے“۔

پوری دنیا سمیت ہندوستان میں بھی خصوصی بچوں اور افراد پر انوراگ، سپارش، بلیک اور تارے زمیں پر وغیرہ جیسی حیرت انگیز فلمیں بنیں۔ رنگیلہ کی 1971ء کی کھڑکی توڑ پاکستانی فلم ”دل اور دنیا“ تھی جس کا مشہور گانا رونا لیلیٰ کی آواز میں ”چمپا اور چنبیلی یہ کلیاں نئی نویلی“ تھا۔ اس فلم میں ہیروئن نابینا تھی جس کا کردار اداکارہ آسیہ نے ادا کیا۔

وزیر موصوف ثقافت کے بھی وزیر ہیں۔ کیا اب خصوصی افراد پاکستانی فلم انڈسٹری اور ڈراموں کے تھیم کی توجہ کا مرکز نہیں بن سکتے؟ کیا وزیر موصوف پیمرا کے پبلک سروس میسجز پر میڈیا ہاؤسز کی خاص توجہ دلوا کر خصوصی افراد کے حوالے سے سوسائٹی کے مائنڈسیٹ میں بہتری لانے کی کوشش نہیں کرسکتے؟
 دنیا کی تاریخ میں خصوصی افراد اہم پوزیشنز پر نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں بھی اِس وقت بیشمار خصوصی افراد اپنی فیلڈز میں ناقابل تسخیر مقام حاصل کرچکے ہیں جس کی ایک جھلک پاکستان میں سوشل میڈیا کے گروپ ”بلائنڈ پروفیشنلز“ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کے ممبران کی گفتگو، لب و لہجہ، علم و دانش، پروفیشنل میچورٹی، بردباری اور ذہنی پختگی کو جانچ کر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے خصوصی افراد کی فہم و فراست یعنی انٹلیکٹ انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے اَپ ٹو مارک ہے۔

ڈاکٹر شیخ محمد اقبال، زاہد عبداللہ، سلطان شاہ، صائمہ سلیم، ارشد عباسی، عمران شیخ، محمد شبیر اعوان، طلال وحید، رابیل پیرزادہ، یوسف سلیم، سلمان خالد، ثاقب محمود، احمد خان، عائشہ اویس، سلمان صدیقی، ثاقب جاوید، ڈاکٹر راجہ عامر حنیف، سلیمان ارشد، ذوالقرنین اصغر، شیراز تنویر، فیاض حسین، ہما شاہان، روبینہ شاد، سنبل سرور، علی شبر، نوید منظور، ماریہ ضیاء، عاقل سجاد، ضیاء اسلم، سمیہ رؤف، انور علی، محمدجہانزیب، افتخار حسین جاذب، اسد کھوکھر، محمد فرقان، محمد شفیق اعوان، محمد بابر شہزاد، عادل رشید، علی کائرہ، افتخار ملک، بلال ستی، رانا یاسر، سعدیہ ممتاز، اعجاز احمد، پروفیسر الیاس ایوب، شیر بہادر آفریدی، طالش طور اور تاب عرفانی وغیرہ ایسے نام ہیں جو ملک کی بیوروکریسی، رائٹ ٹو انفارمیشن، درس و تدریس، ریسرچ، کمپیوٹر سائنس، عدلیہ، وکالت، صحافت، میڈیا، ریڈیو ٹی وی، میڈیکل، سپورٹس، لٹریچر، منیجمنٹ، آرٹ اور میوزک وغیرہ کے درخشاں ستارے ہیں۔

مزید یہ کہ فاطمہ شاہ، ڈاکٹر سلمیٰ مقبول اور صائمہ عمار جیسی نامور شخصیات کو کون بھول سکتا ہے۔
 جب ایک سوالی نے بادشاہ سے سوال کیا تو بادشاہ نے کہا مانگ کیا مانگتا ہے؟ سوالی نے کہا آپ بادشاہ ہیں، اپنے مقام اور ظرف کے مطابق دیجئے۔ وزیر صاحب یقین کیجئے خصوصی افراد کا مقام اور ظرف بلند ہے۔ ایک دفعہ کسی نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تم میرے گھر کیوں نہیں آتے؟ دوست نے جواب دیا کہ مجھے ڈر لگتا ہے کیونکہ تمہارے دروازے پر آئینہ نصب ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :