بھارت جیت رہا ہے؟

جمعرات 28 فروری 2019

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

 بھارت کیا حالیہ جاری کشمکش جیت رہا ہے؟ یہ کہنے کوتو ایک عام سا سوال ہے لیکن حقیقتاً اس کے اندر شاید مکمل ایک داستان رقم ہے۔ وہ آئے، پے لوڈ گرایا، اور بھاگ نکلے۔ بات نہایت سادہ سی تھی لیکن اس کو ہمارے ہمسائے نے اپنی فتح سے تعبیر کیا اورسونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ ہمارے و طن کے اندر بھی اس معاملے پہ لوگوں کی رائے تقسیم ہونا شروع ہو گئی۔

کچھ بے وقوف دانشور یہ قلابے ملانے لگے کہ یہ لیں جی بس دیکھ لیا ، یہی طاقت تھی ہماری کہ وہ آئے اور بم گرا کے چلتے بنے اور ہم کچھ کر بھی نہ سکے۔ اور کچھ عقلمند پاگل ایسے رہے جو لٹھ لے کے اپنوں کے ہی پیچھے پڑ گئے کہ کر کیا رہے تھے تم جو ایک جہاز نہ گرایا گیا اور مثالیں ترکی و روس کی دی جانے لگیں۔ کہ ایک آدھ جہاز پھڑکا دیتے تو لگ پتا جاتا ان کو۔

(جاری ہے)

اور بے عزتی کروا دی ہے۔نقاد ہمیشہ اپنے لفظوں کے نشتر تیار رکھتا ہے اور یقین کامل ہے کہ جتنے افراد بھی ان کے پے لوڈ گرانے کو اپنی نا اہلی سے تعبیر کر رہے ہیں وہ اگر جہاز گر جاتا تو جنگ کا نقارہ بج جانے پہ پہلی صف میں کھڑے ہوتے، بھاگنے کو تیار۔
ہم بنیادی طور پر ایک جوشیلی قوم ہیں لیکن ہم ایک ایسی جوشیلی قوم ہیں جو جوش میں ہوش کھو بیٹھتی ہے ، نتیجتاً نقصان اپنا ہی ہوتا ہے۔

جہازوں کاآنا ، اضافی بوجھ گرانا، اور ان کو نہ گرانا، عوام کا غصہ یہ تمام نقاط ذہن میں رکھیے ۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے ریٹائرڈ ائیر مارشل صاحب سے اس معاملے میں چند سوالات کا جوابات مانگا جو شائع ہو چکا ہے اور ان کی ویب سائیٹ پہ موجود ہے۔ سوال کیا ہیں؟ ہمارا ردعمل کیسا تھا؟ ائیر مارشل صاحب کے مطابق کم و بیش ردعمل کا وقت تین سے پانچ منٹ کا ہوتا ہے اور اسی وقت میں پاکستانی طیاروں نے بھی یقینا ردعمل دیا اور بتائے گئے مقام پہ پہنچ گئے۔

مزید ان کا کہنا کہ امکان یہی ہے کہ براہ راست جھڑپ کی ہدایات نہ ُانھیں تھیں نہ ہمیں۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بھگانے پہ اکتفا کرنا تھا ، انہوں نے بھاگنا ہی تھا۔ اور اگر وہ پے لوڈ یعنی جہاز کے پروں کے نیچے نصب ہتھیار و گولہ بارود نہ گراتے تو شاید اتنی تیز رفتاری سے ان کا بھاگنا ممکن نہ ہوتا۔ تو اندازہ لگایے ہم اکثر ایک مثال دیتے ہیں کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی، اس ضرب المثل کو بھارتی بھاگتے طیاروں کے مطابق رکھیے اور خود فیصلہ کیجیے ۔

دوسرا سوال کہ کتنے کلومیٹرہماری حدود میں داخل ہوئے؟بالاکوٹ ہی سمجھیے تو تیس سے چالیس کلومیٹر کا فاصلہ، اور یہ فاصلہ اس رپورٹ کے مطابق فائٹر جیٹ تین سے پانچ منٹ میں ہی طے کرتے ہیں اور اتنی دیر میں ہی ہم نے ردعمل دے دیا تو ان کے پاس سوائے بھاگنے کے کیا چارہ تھا؟ عقل استعمال کیجیے وہ ہتھیاروں سے لیس تھے، مقصد کچھ اور بھی ہو سکتا تھا لیکن بروقت ردعمل کی وجہ سے بھاگنا پڑا۔

تنقید کیجیے مگر عقل کے ساتھ۔اس رپورٹ میں ایک اصطلاح نائن جی کی استعمال ہوئی ہے کہ اس صلاحیت کے ہوتے ہوئے طیارہ موڑ کاٹتے ہوئے نو گنا زیادہ وزنی ہو جاتا ہے۔ لہذا اپنی رفتار بڑھانے کے لیے ، کہ ہمارے شاہین ان کے سر پہ تھے، پے لوڈ گرا کے بھاگنے میں سرعت دکھانا ان کی مجبوری بن چکا تھا۔ کیوں کہ سابق ائیر مارشل صاحب کے مطابق دونوں طرف سے جنگ کو بڑھانا مقصد نہیں تھا۔

اسی لیے براہ راست جھڑپ سے اجتناب کیا گیا۔ لیکن اس تمام صورت حال کے باوجود ہم اس پورے معاملے میں فوری مثبت ردعمل دینے سے قاصر رہے۔
 بالاکوٹ کی فرضی سرجیکل اسٹرائیک کے بعد ہم نے فوری طور پر اپنا گریباں خود چاک کرنا شروع کر دیا اور عملاً اپنی افواج کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان اٹھانا شروع کر دیے۔ خاطر جمع رکھیے ہماری افواج میں تو نہ صرف صلاحیت ہے بلکہ وہ کچھ کر گزرنے کا فیصلہ بھی کرنے کی ہمت رکھتی ہیں، لیکن ہم بطور عوام کہاں کھڑے ہیں؟ جھوٹی خبریں جدید دور کی جنگوں کا مہلک ترین ہتھیار ہیں۔

اس کا مقابلہ ہم عوام کو کرنا ہے نہ کو افواج نے۔ افواج سرحد کا محاذ سنبھال چکی ہیں۔ جھوٹی خبروں کا محاذ ہم نے سنبھالنا ہے۔ طیارہ گرا دیا جاتا تو اس وقت دنیا مکمل طور پر ہماری مخالف ہو چکی ہوتی جس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے پلوامہ حملے کے بعد عالمی رائے عامہ کواپنے حق میں استوار کرنا شروع کر رکھا ہے۔سفارت کاروں کو اکٹھا کر کے واویلا کیا گیا، جس کا اُن کو فائدہ بھی ہوا۔

اس فرضی سرجیل اسٹرائیک کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جس طرح فوری ردعمل دیتے ہوئے عالمی راہنمائی سے بات چیت شروع کی ہے وہ انتہائی اہم اور شاندار ہے۔ امریکی وزیر خارجہ سے بات ہو یا او آئی سی کے سامنے اپنا موقف رکھنا ہو ، قابل ستائش ہے۔ ہمسایوں کے لیے سونے پہ سہاگہ ہمارے عسکری ترجمان کی پریس کانفرنس ثابت ہوئی۔ اور وہ جانتے ہیں ان کا کہنا عملی طور پہ ہو گا، صرف کہنے کی بات نہیں ہے۔

عالمی میڈیا نے شکوک پہلے ہی اُٹھانا شروع کر دیے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں ان کشیدہ حالات میں بھی سرحد کے قریب کسی گروہ کے لوگ جمع ہو سکتے ہیں؟ کیا تین سو سے زائد لاشیں آناً فاناً غائب کی جا سکتی ہیں؟ اتنی بڑی کاروائی ہوئی تو علاقے کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی کیوں نہ لگی؟ کیا جس علاقے میں اتنی بڑی کاروائی ہوئی ہو وہاں صوبائی اسمبلی کی نشت کے لیے ضمنی انتخاب پر سکون انداز میں مکمل ہو سکتا تھا؟ کیا کوئی ایسی خاص ٹیکنالوجی سے ہمارے ہمسائے لیس تھے کہ رات کی تاریکی میں وہ مار کے گنتے رہے کہ نشانہ بننے والے افراد کی تعداد کیا تھی؟
دشمن صرف ہتھیار ہی نہیں ، جھوٹ کی مدد سے بھی ہمارے سامنے ہے۔

سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیجیے، یہ ہم بعد میں کر لیں گے۔ فی الحال مکمل اتحاد کا ثبوت دینا ہمارے دشمن کے منہ پہ طمانچے کی صورت ہو گا۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس ثابت کرنے کو کافی ہے کہ ہم خواب غفلت میں نہیں اور کسی اقدام سے پہلوتہی نہیں برتیں گے۔ پارلیمانی راہنمائی کا اجلاس بھی اس معاملے میں اہم کڑی ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس مزید بہتری کی نوید لائے گا۔

عوامی سطح پہ اپنے کانوں تک جعلی خبروں کو نہ پہنچنے دیں۔ ہمارے خالد، ضرار،غوری، حتف، شاہین، تھنڈر مکمل تیار ہیں۔ لیکن ہم ہوش مند قوم ہیں ، آنے والی نسلوں کا سوچنے والی قوم ہیں۔ ہم فیصلے صرف انتخابات جیتنے کے لیے ہمسایوں کی طرح عجلت میں نہیں کرتے۔ ہم دفاع کرتے ہیں مگر ہمارا دفاعی وار سہنا بھی اُن کے بس میں نہیں ہوگا۔یاد رکھیے بھارت جیت نہیں رہا، جیت کا واویلا کر رہا ہے۔ اور ہم جیت کا واویلا نہیں کریں گے ہم عملی طور پر اپنے عمل سے ثابت کریں گے۔ پاکستان زندہ باد، پاک فوج پائندہ باد ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :