جسینڈا آرڈرن، گمنامی سے عالمی راہنما تک

ہفتہ 30 مارچ 2019

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

دنیا کے بڑے اور اہم ممالک کے علاوہ اگر آپ کسی تعلیم یافتہ شخص سے بھی کسی چھوٹے اور قدرے غیر اہم (غیر اہم اس حوالے سے کہ اس کا مجموعی کردار عالمی سطح پہ نمایاں نہ ہو، اور ایسے ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں) ملک کے سربراہ کا نام پوچھیں تو وہ اس سے لاعلم ہو گا، دارلحکومت کا نام پوچھیں تو ہو سکتا ہے کہ اسے اس کا بھی علم نہ ہو۔

اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس شخص کے علم میں کوئی کمی ہے یا جہاں سے وہ فارغ التحصیل ہوا اس درسگاہ میں کوئی مسلہ ہے، بلکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ دنیا کے چند ممالک ایسے ہیں جو ہر لمحہ خبروں میں رہتے ہیں، ان پہ شہہ سرخیاں اخبارات میں شائع ہوتی ہیں، ان کا اقوام عالم کے دیگر مسائل میں کردار نمایاں ہوتا ہے اس لیے ان کی ایچی بیچی ہم میں سے اکثریت کو پتا ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن بعض ترقی یافتہ ممالک بھی جو عالمی سطح پہ نمایاں نہیں ہوتے، یا اخبارات، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا وغیرہ کی زینت زیادہ نہیں بنتے ان سے اکثریت لا علم رہتی ہے، یعنی ان کے اہم شہروں، اور راہنماؤں سے لاعلمی رہتی ہے۔
سانحہ کرائسٹ چرچ سے پہلے کتنے لوگ جانتے تھے کہ کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کا ایک شہر ہے؟ اس سوال کااپنے حلقہ احباب سے ہی جواب تلاش کرنے پہ دس میں سے چھ لوگ اس سے لاعلم تھے۔

اور حیرت کی بات یہ ہے کہ تقریباً دس میں سے پانچ لوگ تو اب بھی نیوزی لینڈ کے دارلحکومت (ویلینگٹن) سے لاعلم نکلے۔ لیکن آج پوری دنیا کی نظریں نہ صرف نیوزی لینڈ پہ ہیں، بلکہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اس وقت عالمی سطح پہ ایک ایسی راہنما کے طور پہ ابھر کے سامنے آئی ہیں، جو اس سانحے کو دہشت گردی کہنے سے ہچکچانے پہ سپر پاور امریکہ کے صدر تک کو بھی قدرے تلخی سے مخاطب کر چکی ہیں۔

انہوں نے ہمارے لہجے کی طرح بیانات تو نہیں داغے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تعاون کی پیشکش پہ ان کا جواب ہی ایسا تھا کہ مجبوراً یا طوعاً کرعاً امریکی صدر کو لولی لنگڑی وضاحت دینا پڑی، اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس سانحے کی مذمت کرنا پڑی۔ اور پوری دنیا نے نہ صرف نیوزی لینڈ سے اظہار یکجہتی کیا بلکہ عالمی راہنماؤں نے جسینڈا آرڈرن کو ہر ممکن مدد و حمایت کا بھی یقین دلایا۔

لیکن کیا کسی کے وہم و گماں میں بھی تھا کہ پاکستان سے دو حصے چھوٹے اور آبادی کے لحاظ سے تو کئی گنا کم حیثیت میں موجود دنیا کے نقشے پہ اس ملک کی وزیر اعظم پوری دنیا کی پیشکش کا شکریہ کہہ کے معذرت کر کے ایسے اٹھ کھڑی ہو گی کہ لمحوں میں پوری دنیا نہ صرف اس کے نام سے واقف ہو جائے گی بلکہ اسے بصد احترام عالمی راہنما کا درجہ بھی مل جائے گا۔


سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد کے واقعات پہ نگاہ دوڑائیے۔ جسینڈا آرڈرن ایک گمنام راہنما سے کس طرح عالمی راہنما کے طور پہ ابھریں۔ وہ اس پورے معاملے کو یورپی رنگ دینا چاہتیں، امریکی صدر کی ہاں میں ہاں ملاتیں اور مسلمانوں کو ہی اس کا قصور وار ٹھہراتیں، تارکین وطن کو اس کا سبب کہہ دیں تو یقینی طور پر آج شاید وہ چند دن خبروں میں رہنے کے بعد خطے کی ہی راہنما ہوتیں۔

لیکن ان کے طرزعمل نے معاملے کو الگ رخ دے دیا۔ سانحے کے بعد آنے والے روزِ جمعہ نہ صرف جسینڈا آرڈرن خود پوری طرح مستعد اور عملاً میدان میں نظر آئیں بلکہ اپنی وزیر اعظم کی تقلید کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کے عوام نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے مساجد کا رخ کیا۔ نیوزی لینڈ کی مقامی عورتوں نے سر پہ اسکارف لیا کہ وہ یہ بتا سکیں کہ مسلمان تارکین وطن نیوزی لینڈ کا حصہ ہیں۔

اور ایسے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ نیوزی لینڈ کے مقامی باشندے کبھی آنسوؤں کے ساتھ اور کبھی غصے میں اعلان کرتے نظر آئے کہ دہشت گرد اپنے مقاصد میں نہ کامیاب ہو سکا ہے نہ وہ کامیاب ہونے دیں گے۔ یاد رہے کہ اس سانحے کے بعد برطانیہ سمیت چند دیگر ممالک میں اکا دکا واقعات مسلمانوں کے خلاف ہوئے لیکن اس کے باوجود نیوزی لینڈ کے عوام نے واضح سمت چن لی۔

وزیر اعظم متاثرین کے گھر گئیں۔ پاکستانی نژاد نعیم رشید شہید کو ایوان میں تقریر کے دوران اپنا ہیرو قرار دیا۔ ایوان کی کاروائی سے پہلے قرآن حکیم کی تلاوت اور سلام کرنے کا انداز ہی شاید مسلمانوں کے دل میں ان کا احترام بڑھا گیا۔ دیگر شہدا کے دکھ پہ اُن کی آنکھوں کے آنسو ان کے خلوص کا ثبوت بنے۔ ڈی ڈبلیو جرمنی (اردو) کی ایک ویڈیو رپورٹ میں وہ بلا جھجک کہتی نظر آئیں کہ ''آپ (ان کا مخاطب مسلمان کمیونٹی اور نیوزی لینڈ کے مقامی افراد دونوں تھے) اس واقعے کے بعد گھروں کے دروازے بجا طور پہ بند کر سکتے تھے، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور اس عمل پہ میں آپ کی شکرگزار ہوں''۔

یہ طرز عمل ان کو عالمی سطح پہ پہچان دے گیا۔ اور قابل داد ہے نیوزی لینڈ کی عوام بھی کہ جب اسی رپورٹ میں ایک نیوزی لینڈ کی مقامی خاتون سے پوچھا گیا کہ آپ نے سر پہ اسکارف کیوں پہنا تو رندھی ہوئی آواز میں ان کا کہنا تھا کہ اگر دوبارہ سے کوئی ایسی گھناؤنی کاروائی کرنا بھی چاہے تو ہم مقامی باشندے ایسے ان کے سامنے ہوں کہ وہ ہم میں اور مسلمانوں میں تمیز نہ کر سکے۔

حیرت ہے، خوشی ہے، کہ کیسے زندہ قومیں اپنا وجود ثابت کرتی ہیں۔ مقامِ تقلید ہے کہ کس طرح عوام اپنی راہنما کے ایک ایک لفظ کے امین بن جاتے ہیں۔ کل تک لوگ جس راہنما کے نام تک سے واقف نہ تھے آج اُس کی تصاویر اپنی پروفائل پہ لگا رہے ہیں۔ کل تک جو لوگ ایک ملک کے طول و عرض سے ناواقف تھے آج اسی ملک کے شہروں و قومی نشانات کو اپنے سینے پہ سجا رہے ہیں۔
دل سے پوچھا کہ کیسے جسینڈا آرڈرن جیسی گمنام راہنما لمحوں مین عالمی راہنما بن گئی، تو جواب صرف اتنا ملا کہ، اپنے ملک سے مخلص، اپنے عوام سے محبت، اور بنا رنگ و نسل اپنے عوام کے لیے کام کرنا ہی اس گمنام وزیر اعظم کو عالمی راہنما بنا گیا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :