رویوں میں تبدیلی لائیے

پیر 29 اپریل 2019

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پہلے سروے (جاری) کا سوال تھا کہ،
کیا وزارتوں کی تبدیلی حکومت کی ناکامی ہے یا بہتر کارکردگی کی جانب ایک قدم؟
کل 64 ووٹس میں سے (ابھی تک) 26 افراد (41 فیصد) کے نزدیک یہ حکومت کی ناکامی ہے، جب کہ 38 افراد (59 فیصد) کا خیال ہے کہ یہ بہتری کی جانب ایک قدم ہے۔ یعنی عوام ابھی بھی عمران خان سے مایوس نہیں ہیں۔اور تبدیلی سرکار کو اور وقت دینا چاہتے ہیں کہ وہ ملک میں حقیقی تبدیلی لا سکیں۔


دوسرے سروے(ختم) کا سوال تھا کہ ،
کیا عمران خان کا بلاول کو ''صاحبہ'' کہہ کے مخاطب کرنا عورتوں کی تذلیل ہے؟
کل 58 ووٹس میں سے 35 افراد (60 فیصد) کا خیال ہے کہ یہ عورتوں کی تذلیل ہے۔ جب کہ 23 افراد (40 فیصد) کے نزدیک ایسا کہنا عورتوں کی تذلیل نہیں ہے۔یعنی واضح اکثریت کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کی زبان اس وقت معیار سے نیچے ہے۔

(جاری ہے)

اور اس میں بہتری کی توقع کی جا رہی ہے۔


فرق نہایت واضح ہے۔ اور اس بات کا غماز ہے کہ جہاں عوام عمران خان کی حکومت سے مایوس نہیں ہیں اور ان کو ابھی کچھ وقت دینے کے موڈ میں نظرآتے ہیں۔ وہاں وہ یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ اب کنٹینر اور دھرنے کی زبان میں کچھ تبدیلی ضروری ہے۔ عوام امید نہیں توڑ رہے بلکہ وہ عمران خان و حواریوں سے توقع کر رہے ہیں کہ وہ حقیقی معنوں میں اپوزیشن کے موڈ سے نکل آئیں۔

اب وہ حکومت میں آ چکے ہیں۔ اور لازم ہے کہ ذمہ داری کا ثبوت دیں۔ اپوزیشن میں رہ کے تو پاکستان تحریک انصاف کے سرخیل بھی ایسی ایسی ہانکتے تھے کہ الاماں۔ اب مگر حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ اور تقاضائے وقت ہے کہ ہوش مندی کا ثبوت دیا جائے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے عوام آپ کے جوش خطابت میں کہی گئی باتیں نظر انداز کر جاتے ہیں۔ لیکن کرسی اقتدار پہ براجمان ہونے کے بعد وہ آپ سے ایک الگ رویے کی توقع کرتے ہیں۔

کیوں کہ آپ پورے پاکستان کے نمائندہ بن جاتے ہیں۔ جس میں آپ کے حامی بھی شامل ہیں اور مخالف بھی۔ اب کم از کم آپ کو جلسے جلوسوں کی سوچ سے باہر نکلنا ہو گا۔ آپ کو بردباری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ملکی سطح پہ یا عالمی سطح پہ آپ پاکستان کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی ذمہ داری لیے ہوئے ہیں۔ آپ کا اب رتبہ یہ نہیں رہا کہ آپ بد کلامی کو اپنائیں۔


آپ کی کارکردگی کوئی اتنی حوصلہ افزاء نہیں ہے اور نہ ہی آپ اپنی کارکردگی میں بہتری کے لیے کوئی انقلابی اقدامات کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت توقع کیے بیٹھی ہے کہ شاید بہتری آ جائے اور اس امید پہ ہی وہ مکمل خلاف نہیں جا رہے۔ حیران کن پہلو یہ ہے کہ مخالفین بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کچھ دن اور دیکھ لیتے ہیں۔ اس دیکھنے میں دو وجوہات ہیں ایک تو مثبت پہلو یہ کہ بائیس سال محنت کا راگ جو الاپا جاتا ہے دیکھا جائے کچھ اور وقت دے کے کہ کیا تبدیلی آتی ہے۔

اور دوسرا پہلو اس انتظار کا یہ ہے کہ لوگ مکمل طور پہ دیکھ لیں کہ جن کو ملک میں تبدیلی لانے کی ذمہ داری دی گئی تھی وہ کیسی تبدیلی لائے ہیں۔ دوسرے معنوں میں یہ کہنا بے جا نہیں کہ وہ مکمل ناکامی تک اس حکومت کو چھیڑنا نہیں چاہتے۔ اور مکمل ناکامی سے اس بری طرح عوام کی امیدیں ٹوٹیں گی کہ ارباب اختیار کی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔ ایک وزیر کا ارشاد ہے کہ تبدیل ہونے والی دوسری وزارت کے تبدیل ہونے والے وزیر صاحب وزارت میں ڈاکے کے مترادف معاملات چلا رہے تھے۔

نئے آنے والے وزراء پرانوں کی کلاس لے رہے ہیں، اور اپنی کرسی پکی کر رہے ہیں۔ جب کہ پرانے وزیر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ اور کچھ پرانے وزراء نئی ملنے والی وزارتوں میں خاص دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے۔ معاملات جمود کا شکار تو نہیں لیکن حرکت پذیری بھی مثبت اعشاریے نہیں دکھا رہی۔ یہاں امتحان قیادت کا آتا ہے۔ اور ہماری قیادت کے سرخیل عوامی فلاح پہ توجہ دینے کے بجائے ابھی تک جلسے جلوسوں سے فارغ نہیں ہوئے۔

ان کے نزدیک عوامی فلاح سے زیادہ اہم شائد مخالفین کی ذات کے بخیے ادھیڑنا ہے۔ حکومت برداشت اپناتی ہے تو مخالفین خود بخود خاموش ہونا شروع ہو جاتے ہیں اگر کام درست سمت میں جا رہا ہو۔ پٹرولیم، خزانہ، زراعت، صنعت، سمیت کم و بیش سارے ہی معاملات تنزلی کی طرف اگر جانا شروع ہو جائیں تو صرف ریلوے یا مواصلات کی بہتری کتنی دیر تک سہارا دے سکتی ہے۔


جلسے جلوسوں کا وقت گزر چکا ہے۔ عمل کا وقت آ پہنچا ہے۔ شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی سے باہر نکلیے اور ملک کی بھاگ دوڑ اب آپ کے ہاتھ میں ہے، ثابت کیجیے کہ عوام کا فیصلہ ٹھیک تھا۔ عملی اقدامات سے پہلوتہی برتتے جائیں گے تو عوام کی امیدوں کی لو پھڑپھڑاتے ہوئے بجھ جائے گی۔ اس موقع کو غنیمت جانیے۔ آپ نے ہی عوام کو شعور دیا ہے، یہ آپ کا دعویٰ ہے۔

اگر آپ کے دعوے کو سچ مانا جائے تو اسی شعور کے تحت عوام آپ کی بدزبانی کو آپ کی بہتر کارکردگی کے متبادل کے طور پر قبول نہیں کرئے گی۔ آج ایک چھوٹے سے سروے میں فرق سامنے ہے تو کل عوامی ردعمل میں حالات کیا ہوں گے یہ سمجھنا چنداں مشکل کام نہیں ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ حالات مشکل ہیں، اسی لیے وہ وقت دینے پہ آمادہ ہیں۔ مگر آپ مخالفین کی ذات کے بخیے ادھیڑنے کو کچھ لمحے موقوف کر دیجیے اور توجہ مکمل طور پہ کارکردگی پر دیجیے۔

آپ کی کارکردگی نہ صرف عوام کا دل میں آپ کے لیے محبت پیدا کر دے گی بلکہ آپ کے مخالفین کے منہ پہ بھی ایک طمانچے کی صورت ہو گی۔
پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں ایک موقع کی تلاش میں عوام کی منتیں کرنے والے موقع ملنے پہ اپنے وعدے یکسر بھول جاتے ہیں۔ اور دوبارہ انتخابات کا موسم آتے ہی ان وعدوں کی پوٹلیوں کو نئے رنگ کے کپڑے میں لپیٹ کر دوبارہ عوام کے سامنے آ جاتے ہیں۔

اور یقینی طور پہ ایسا پاکستان میں ہوتا بھی رہا ہے۔ لیکن اب حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ تبدیل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ عوام میں شعور بیدار کرنے کا دعویٰ ہر ایک کرتا ہے۔ لیکن ڈریے اس وقت سے کہ جب حقیقی معنوں میں عوام میں شعور بیدار ہو جائے اور وہ آپ کے ہر غلط فیصلے کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ اور ایسا ہونا دور بھی نہیں ہے۔ آج کے حالات ہی دیکھ لیجیے کہ عوام اپنے جذبات کا کھل کے اظہار کرنے لگے ہیں۔ وہ اب خوف کی فضاء سے نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ وہ اپنی رائے دینے میں اندھی سیاسی تقلید کو خاطر میں نہیں لا رہے۔
اپنی روش اس لیے تبدیل کیجیے کہ آپ کا منصب اب ایک نئی سوچ کا متقاضی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :