
کرونا کا خوف پھیلانے والے مجرم ہیں
پیر 16 مارچ 2020

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
اب ذکر خیر پاکستان کا سنیے۔ ہمارے تمام میڈیا چینلز، اخبارات، سوشل میڈیا فورمز ہیجانی کیفیت سے بھرے پڑے ہیں۔ پاکستان میں ایک رجحان پایا جاتا ہے کہ صارفین کی اکثریت پوسٹ کی تفصیلات میں جانا پسند نہیں کرتی۔ وہ سوشل میڈیا پہ سرخی دیکھتے ہیں اور رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اور بطور مجموعی اس عوامی رجحان کو ادارے خوب کیش کرواتے ہیں۔ سرخی اس قدر ہیجان انگیز ہوتی ہے کہ عوام اس سرخی پہ ہی رائے بنا لیتے ہیں۔ جیسے ابھی فوری ایک سرخی ایک مشہور و معروف میڈیا گروپ کی سوشل میڈیا پوسٹ پہ تھی کہ ''ملک میں لاک ڈاؤن کے حوالے سے اہم حکومتی شخصیت کا بیان'' اور جب لنک پہ کلک کیا تو معلوم ہوا کہ اس شخصیت کا بیان تھا کہ لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں ہے۔ اب اگر یہ سرخی صرف اس طرح ہوتی کہ ''ملک میں لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں، اہم حکومتی شخصیت کا بیان'' تو جو لوگ صرف سرخی پڑھ کے رائے بنا لیتے ہیں ان کا بھی بھلا ہو جاتا۔ لیکن ہم تجسس پیدا کرنے کے ماہر ہیں۔ اور تجسس کی ماری عوام میں خوف پھیلانے کی وجہ بنتے ہوئے لائیکس اور شئیرز جمع کرتے ہیں۔ ایک اور خبر ملاحظہ کیجیے کہ سرخی تھی ''کرونا کا ڈر لوگوں نے سٹور خالی کر دیے''۔ اب یہ خبر پاکستان کی تھی نہیں۔ کسی اور ملک میں ایسا ہوا۔ لیکن ایسا معلوم تو تب ہونا ہے جب لنک اوپن کیا جائے گا۔ میرے جیسے جو طالبعلم صرف پوسٹ دیکھ کے اپنی سوچ کا معیار قائم کر کے فیصلہ کرنے لگتے ہیں ان کے لیے تو یہ خبر یقیناً ہیجان، خوف اور بے چینی کا باعث بنے گی۔ اور ناجانے اس خبر سے کتنے اذہان متاثر ہوں گے۔ یہ خبر یوں بھی ہو سکتی تھی کہ ''فلاں ملک میں لوگوں نے کرونا کے خوف سے سٹور خالی کر دیے''۔ لیکن اس خبر سے ہمیں شائد کم لائیکس ملتے۔ اب سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ اخبارات بھی اسی روش پہ چل نکلے ہیں۔ آپ شہہ سرخی یا ذیلی سرخی پڑھیں آپ پہ حالات واضح نہیں ہوں گے۔ لیکن تفصیل میں جائے بناء صرف سرخیاں پڑھنے والے کہاں جائیں؟ اب اگر کوئی ایسا صارف جو جلدی جلدی میں انگلیوں کی پوروں کو موبائل یا لیپ ٹاپ پہ حرکت دینے کا عادی ہے وہ جب پڑھے گا کہ ''کرونا نے ملک کا نظام جام کر دیا'' تو وہ اسے پاکستان کی ہی کوئی خبر سمجھتے ہوئے نہ صرف ہیجان میں مبتلا ہو جائے گا بلکہ اس ہیجانی کیفیت میں نا جانے اور کیا کیا ہنگامی فیصلے کرنے پہ ذہن سازی کا عمل مکمل کر لے گا۔ لیکن وہ سرخی کی تفصیلات میں یہ نہیں پڑھ پائے گا کہ ایسا اٹلی میں ہوا ہے پاکستان میں نہیں۔ لیکن لینے والا لائیکس لے چکا ہے۔ ادارہ تشہیر حاصل کر چکا ہے۔ ایک عام شخص مگر مکمل خبر جانے بناء ذہن سازی کر چکا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ عوام کو بھی خبر کی تفصیلات پڑھنی چاہیے۔ لیکن جہاں یہ عمومی رویہ بن چکا ہے کہ تفصیلات پہ نظر نہیں ڈالی جاتی وہاں زیادہ ذمہ داری میڈیا گروپس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پہ عائد ہوتی ہے کہ وہ ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے اس وباء کے حوالے سے ملک میں خوف پھیلانے کے بجائے اس وباء کے مقابلے کے لیے عوام کو تیار کریں۔
ہم ایسی کہانیاں فخر سے شیئر کرتے رہے کہ کیسے چین میں ہسپتال بنا، کیسے وہاں ڈاکٹروں نے تین تین ماہ ڈیوٹیاں سر انجام دیں۔ کس طرح نرسنگ سٹاف کے چہروں پہ ماسک لگانے سے پڑنے والے نشانات کو بھی وہاں کے میڈیا گروپس نے مثبت انداز سے پیش کیا۔ اور ایک ہم ہیں کہ ہیجان انگیزی کو اپنی شہرت کا ذریعہ بنائے بیٹھے ہیں۔ پوری دنیا میں اس وقت محدودے چند ممالک میں پاکستان شامل ہے جہاں اس وباء سے موت واقع نہیں ہوئی۔ ہم سندھ حکومت کی توصیف کو مثبت چہرہ کیوں نہیں بناتے کہ کیسے انہوں نے فوری اقدامات کیے اور ابھی بھی جو کرونا وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے وہ تفتان سے سندھ حکومت کی درخواست پہ زائرین بھجوانے سے ہوا جن میں وائرس کی تصدیق ہوئی۔ وہ بھی سندھ حکومت نے خود وفاق سے درخواست کی کہ سندھ کے شہریوں کو سندھ بھیج دیا جائے۔
سروسز ہسپتال لاہور کی کہانی ایک سوشل میڈیا صارف نے شیئر کی کہ کیسے وہاں عدم توجہ المیے کا باعث بن سکتی ہے تو اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں عفت رضوی نے ایک مثبت کام کیا غلطیوں کی وہاں نشاندہی کر کے۔ ہم تو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں یہ بھی بھول گئے کہ نسٹ یونیورسٹی میں اشتراکی کوشش میں پاکستان میں کرونا وائرس کی تشخیصی کٹ تیار کر لی گئی ہے۔ ہم تو ہیجان پھیلانے اور خوف کی فضاء قائم کرنے میں یہ تک بھول گئے کہ چین میں اگر پاکستانی ڈاکٹر رضاکارانہ طور پر فرائض سر انجام دے رہا ہے تو پاکستان میں خوف و سراسیمگی پھیلانے کی وجہ سے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں تیرہ ڈاکٹرز نے فرائض سر انجام دینے سے انکار کر دیا ہے۔
ہم دنیا سے مثبت کہانیاں شیئر کرتے ہیں لیکن خود کسی مثبت کہانی، کسی روشن مثال کا کردار بننے کو کیوں تیار نہیں ہیں۔ چینی ارب پتی جیک ما پوری دنیا میں ماسک تقسیم کر رہا ہے اور پاکستانی ارب پتی ستو پی کر سو گئے ہیں ہم بجائے خوف پھیلانے کے ان لوگوں کو بیدار کیوں نہیں کرتے۔ کوئی شک نہیں کہ کرونا ایک عالمی وباء ہے اور پاکستان میں اس کے مریض بڑھ رہے ہیں۔ لیکن حکومتی سطح پہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کرونا کو ملک میں خوف اور دہشت کی علامت بنانے والے ہر میڈیا گروپ کو بین کر دیجیے۔ ایسے تمام سوشل میڈیا پیجز کو پی ٹی ائے بلاک کر دے جو خوف پھیلا کے لائیکس سمیٹ رہے ہیں۔ عالمی نشریاتی اداروں کے آفیشل صفحات کھنگالیے وہاں آپ کو صرف معلومات و اطلاعات ملتی ہیں لیکن ہمارے ہاں معلومات و اطلاعات کے لبادے میں اور بہت کچھ زبردستی پیش کیا جاتا ہے۔
قومی ذمہ داری یہ ہے کہ عوام کو معلومات و اطلاعات دیجیے ان میں خوف نا بانٹیں۔ پاکستانیوں کو اس وباء کے تدارک کے لیے احتیاطی تدابیر بتائیے، انہیں ڈرا کے اپنی شہرت نا بڑھائیے۔ کرونا جیسی وباء سے نمٹنے کے لیے کردار ادا کرنے والے اداروں کے اہلکار ہیرو ہیں، سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیرو ہیں جو اس وباء کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ دفتر کے باہر کھڑا وہ گارڈ ہیرو ہے جو دفتر آنے والے ملازمین اور ملاقاتیوں کو چھوئے بناء بخار چیک کرنے والا آلہ لیے کھڑا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے تمام لوگ، جتھے، ادارے، گروپس قومی مجرم ہونے کے ضمرے میں گردانے جا سکتے ہیں جو اس وباء کے حوالے سے خوف پھیلا رہے ہیں۔ جو 150 روپے کا سینیٹائزر 480 روپے کا بیچ رہے ہیں۔ جو ماسک کی قلت پیدا کرنے کا سبب بنے ہیں۔ جو ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کیے بیٹھے ہیں۔ جو انسانیت کے بجائے اپنے منافع کو ترجیح دیے بیٹھے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.