کرونا مسخرہ نہیں ہے

ہفتہ 9 مئی 2020

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ لاک ڈاؤن مکمل طور پر ہونا چاہیے یا جزوی طور پر۔ ہم اس حوالے سے بھی ابھی کوئی مکمل فیصلہ نہیں کر پائے کہ مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی ہونی چاہیے یا نہیں۔ ہم اس معاملے پہ بھی گو مگو کی کیفیت کا شکار ہیں کہ اگر جماعت قائم کی جاتی ہے تو نمازیوں کا درمیانی فاصلہ تین فٹ ہونا چاہیے یا چھ فٹ۔ درزی کی دُکان کھلے گی یا نائی کی، ہمارا فیصلہ اس حوالے سے بھی غیر یقینی کا شکار ہے۔

ہم ابھی اس سوچ وچار میں ہیں کہ ہمیں قصائیوں کی دُکانیں کھولنی چائیں یا سبزی فروٹ والی۔ ہم پریشان ہیں کہ آیا ہم سکولوں میں گرمیوں کی تعطیلات کا دورانیہ بڑھا دیں یا حاضری کی طرف جائیں۔ سرکاری دفاتر ہوں یا نجی دفاتر، کارخانے ہوں یا فیکٹریاں، سمال انڈسٹریز ہوں یا بڑی صنعتیں انہیں کھولنے یا بند کرنے کے حوالے سے نا ہمارے پاس واضح پالیسی ہے اور نا ہی ہم اس حوالے سے اس سوچ کی طرف جا رہے ہیں کہ کہیں جن مزدوروں کے لیے ہم لاک ڈاؤن نہیں کر پا رہے انہی مزدوروں کی زندگیاں عارضی فیصلوں کی وجہ سے خطرے میں نا ڈال دیں۔

(جاری ہے)

 
ایران میں جو کچھ ہوا اسے کچھ لوگ ہٹ دھرمی قرار دے رہے ہیں تو کچھ لوگ کوتاہی۔ کچھ بھی ہو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایران میں مذہبی سوچ کی گرفت قدرے مضبوط ہے۔ اور اس حوالے سے جب ابتدائی اطلاعات آئیں تو یہ سننے میں آیا کہ وہاں کے علماء نے اس حوالے سے کمزور کردار ادا کیا اور عوام کو وقت پہ آگاہ کرنے کے بجائے اس وباء کے خلاف سینہ تان کے کھڑے ہو گئے۔

نتیجتاً آج حالات آپ کے سامنے ہیں۔ اٹلی کی دوسری مثال ہے۔ وارننگ جاری ہوئی۔ نہ تو حکومت نے اور نا ہی اطالوی شہریوں نے اس کو خاطر میں لانا گوارا کیا۔ اور آج حال یہ ہے کہ فوجی ٹرک لاشیں ڈھو رہے ہیں۔ اور قبروں کے لیے جگہ کم پڑنا شروع ہو گئی ہے۔
 امریکہ کو دیکھیے، عالمی وباء کا راستہ روکنے کے بجائے چین کی خبر لینا شائد زیادہ ضروری تھی اور امریکہ نے یہ کیا بھی۔

اس کا لب لباب دیکھ لیجیے کہ روزانہ اوسطاً پانچ سو کے قریب لوگ جاں سے جا رہے ہیں۔ برطانیہ میں دیکھ لیے حالات کس نہج پہ جا رہے ہیں۔ کوتاہی اور اس وباء کو سنجیدہ نہ لینے کی وجہ سے اس وباء نے بورس جانسن تک کو نہ چھوڑا۔ اس کے مقابلے میں چین، جاپان، جنوبی کوریا، سنگا پور نے اس وباء کو نہایت سنجیدگی سے لیا۔ اور اس حوالے سے فوری طور پر اقدامات کرنا شروع کر دیے۔

اور ان اقدامات کے نتائج آپ کے سامنے ہیں کہ وہاں اس وباء نے یقینی طور پر نقصان تو پہنچایا ہے لیکن اس کا زور ان ممالک میں ٹوٹ رہا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں وہاں سے اس وباء کے مٹ جانے کی نوید بھی سنائی دینے لگے گی۔ دنیا کے بہت سے ممالک ہیں جو اس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ اس حوالے سے ویکسین پہ نا صرف کام جاری ہے بلکہ روزانہ کی بنیاد پہ دنیا کے ساتھ اپنے تجربات شئیر کیے جا رہے ہیں۔

 
دنیا کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ اب آپ اپنے وطن پاکستان کے حالات سامنے رکھیے۔ اس بات میں دو رائے تو ہو ہی نہیں سکتیں کہ ہمیں اس نازک صورتحال میں حکومتِ وقت پہ تنقید کرنے کے بجائے اس کا ساتھ دینا چاہیے لیکن یہ ساتھ کسی بھی صورت اظہار رائے کی آزادی کی قیمت پہ تو ہونے سے رہا۔ غلط کو غلط کہا جانا مخالفت برائے مخالفت نہیں۔ بلکہ یہ تو اصلاح کے لیے ہے۔

آپ اندازہ لگائیے کہ وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ تک اس وباء سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ اور اب ہنگامی بنیادوں پہ یقینی طور پر وزیراعطم پاکستان بھی ٹیسٹ کی زحمت سے گزرے۔
 لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس پوری صورتحال کے بعد بھی ہم لاک ڈاؤن کرنے یا نا کرنے کا فیصلہ نہیں کر پار ہے۔ وزراء کہتے ہیں تعداد ستر ہزار تک جا سکتی ہے اور پھر ہم سارے کاروبار زندگی بھی کھول دیتے ہیں۔

اموات کی کم تعداد پہ ہم خوش ہوتے نظر آتے ہیں یہ سوچے بناء کہ ابھی تو ہماری ٹیسٹنگ کی سہولیت ہی مقررہ عالمی تعداد کے مطابق نہیں ہو سکی۔ پنجاب جیسے بڑے شہر میں، جس کی آبادی ہی 10 کروڑ سے زائد ہے وہاں روزانہ کی بنیاد پہ ٹیسٹ صرف 5 ہزار ہو رہے ہیں۔ لہذا یہ کہنا ہرگز بے جا نہیں کہ ابھی تو تعداد ہمارے اندازوں سے زیادہ بڑھے گی۔ ابھی کامیابی کے دعوے صرف اور صرف دیوانے کی بڑھک ہیں اور کچھ نہیں۔

ہم کرونا پہ جگتیں بنانے میں مصروف ہیں اور کرونا ہماری کمر توڑ رہا ہے۔ 
ایک ماہ، صرف ایک ماہ مکمل کرفیو نافذ ہو جائے تو حالات کیا ہوں گے؟ لاک ڈاؤن کے دوران ہم نے دیکھا کہ حکومت کی طرف سے تو محدودے چند علاقوں کے علاوہ کہیں بھی راشن کی تقسیم ممکن نا ہو سکی۔ حکومتی سطح پہ بھی کچھ ایم پی ایز اور ایم این ایز نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ تقسیم یقینی بنائیں۔

ورنہ اکثریت تک راشن تو عام عوام نے پہنچایا۔ فاؤنڈیشن فار پور سولز، جے ڈی سی، اخوت اور اس جیسے بیشمار ادارے ہیں جو اس حوالے سے کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔ انفرادی کوششیں اس کے علاوہ ہیں۔ تو کیا کوئی بھوکا سویا؟ نہیں۔ مکمل کرفیو ایک ماہ کا لگا دیا جائے تو کم از کم اس وباء سے نمٹنے میں تو مدد مل سکتی ہے اور جہاں تک بات ہے غرباء میں راشن تقسیم کی تو وہ بے فکر رہیں۔

یہ قوم دنیا میں عطیات دینے کے حوالے سے مشہور ہے۔ اور راشن بھی یہ پہنچا دے گی ضرورت مندوں تک اگر حکومت بے بس ہے تو۔ لیکن ہم لاک ڈاؤن یا کرفیو جیسا نظام لاگو کرنے یا نا کرنے میں جس ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ ہمیں ایک ایسے نقصان کی طرف دھکیل دے گا جس کا ازالہ ممکن نہیں ہو گا۔ ہم نے اس وقت عملاً پورا ملک کھول دیا ہے۔ تمام کاروبار دھڑلے سے شروع ہو گئے ہیں۔

یوں کہیے ہم نے کرونا کو کہا ہے کہ تم نے جو کرنا ہے آؤ کر لو، ہم کسی بھی طرح کی عالمی وارننگ کو بھی خاطر میں نہیں لائیں گے۔ دیس پرائے سے پیغامات ملتے ہیں کہ خدارا آپ احتیاط کیجیے۔ خدارا اپنا اور اپنے خاندان کا خیال رکھیے کہ حالات بہت نازک ہیں۔ لیکن انہیں بھلا کوئی کیسے سمجھائے کہ جناب ہمارے ہاں تو حکومتی سطح پر بھی شائد کرونا کو ایک مسخرہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جو عوام کے ساتھ بس مخول کر رہا ہے۔ خدارا یاد رکھیے یہ کرونا نام کی وباء کوئی مسخرہ نہیں ہے کہ کچھ دیر آپ کو ہنسائے گا، ڈرائے گا اور چلا جائے گا۔ یہ ایک عالمی وباء ہے اور ہمیں اس کو وہی مقام دینا ہو گا جو وقت کا تقاضا ہے۔ 
یہ"زُبانِ اہلِ زمیں"ہے۔قارئین اپنی تجاویز اور آراء کے لئے رابطہ کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :