آن لائن تعلیم اور طالبعلموں کا مستقبل

پیر 8 جون 2020

Tahir Abbas

طاہر عباس

کرونا کی وبا ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور روز ہزاروں زندگیوں کو لقمہ اجل بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہا ہے ۔ اس کرہ ارض پر شاید ہی کوئ ایسا خطہ, ریاست یا ملک نہ ہو, جہاں پہ اس موذی مرض نے ڈھیرے نہ ڈالے ہو ۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی ان ممالک کی  فہرست میں شامل ہے جو اس وبا کا شکار ہیں ۔اس وباء نے زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کو بلا امتیاز رنگ,نسل, ذات پات اور دین لپیٹ میں لیا ہے۔

تجارت سے تعلق رکھنے والے ہو یا تدریسی فرائض سنبھالنے والے اساتذہ, ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والی انتظامیہ یا ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں طالبعلم اس اچھوت زدہ بیماری سے متاثر ہوا ہے ۔
پڑوسی ملک, چین سے پھیلنے والے اس وائرس نے دینا کو تگنی کا ناچ نچوا رکھا ہے کیونکہ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ یہ ایک لا علاج بیماری ہے اور اس کا واحد حل حفاظتی تدابیر پہ عمل درآمد ہے ۔

(جاری ہے)

حکومت وقت نے اس وبا کے تدارک کے لیے مختلف حکمت عملیاں تشکیل دی ہیں ۔ مختلف ادارے اپنا اپنا کردار نبھانے کی سعت کر رہے ہیں ۔ حکومت وقت نے لاک ڈاؤن جیسے سخت اقدام سے لیکر سمارٹ لاک ڈاون جیسے نرم اقدام اٹھاۓ جو کہ قابل تحسین ہیں ۔اس دوران معاشی سیکٹر کو ٹیکس سے ریلیف, بےروزگار کو ماہانہ بارہ ہزار روپے نقد اور اساتذہ کو گھر بیٹھے تنخواہ دینے جیسے امور سرانجام دیے ۔


مکتبہ فکر و تدریس سے وابستہ طلبعلم, اس سارے کھیل کے دوران ظلم کا گہوارہ سمجھا جا رہا ہے ۔ وفاقی اور صوبائ تعلیمی وزراء نے سکول و کالجز کے لیے ایک جامع پالیسی بنائ,جس میں طالب علموں کو کرونا کے پھیلاؤ کے پیش نظر بغیر امتحان لیے اگلی کلاسز میں پروموٹ کرنے کا اعلامیہ جاری کیا ۔ ان طلباء میں اس حکمت عملی پر ایک ملا جلا رد عمل پایا گیا اور بعض ماہر تعلیم کے مطابق یہ فیصلہ درست گردانا جا رہا تھا ۔


مگر, یہی بات جب اعلئ تعلیم کے طالبعلموں پر آئ تو حکومت نے اس امور کے سارے فرائض اعلی تعلیم کے کمیشن کے سپرد کر دیے گۓ ۔ بالاآخر, چند عناصر کو مد نظر رکھتے ہوۓ, اس کمیشن نے تدریسی عمل کو آن لائن شروع رکھنے کا فیصلہ کیا اور پروموٹ کرنے کی حکمت عملی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ۔ یوں, ظلم کا سب سے بڑا حقدار, جامعات کا طالبعلم ٹھہرا ۔

  میں  بغیر معقول وجہ پروموٹ کرنے کے نظام کی طرف داری نہیں کر رہی بلکہ حکام بالا کی توجہ اس بات کی طرف مرکوز کروانا چاہتا ہوں کہ ہم جانتے ہیں کہ عالمگیریت کا دور ہے اور یہ دنیا گلوبل ویلج کا روپ دھار چکی ہے مگر آپ کے ہی ملک میں جنوبی پنجاب, شمالی و جنوبی وزیرستان, گلگت بلتستان,کشمیر  اور ژوب جیسے علاقے بھی پاۓ جاتے ہیں جہاں انٹرنیٹ تو کیا خالی نیٹ ورک کے سگنل بھی چھت پہ بیٹھے تو آتے ہیں بلکہ میں یوں کہوں گا کہ سگنل کیا خاک آئیں گے, جب پینے کو میسر صاف پانی بھی نہیں ہے ۔


جہاں کرونا کی وباء کے خوف نے زندگی اجیرن بنا رکھی تھی وہاں پہ مظلوم طالب علموں کی ایک اور مصیبت میں اضافہ ہو گیا ۔ اس مسائل سے نہ کہ طلباء بلکہ کئ اساتذہ بھی پریشان ہیں ۔
اس کے ساتھ, اگر یہ مان بھی لیا جاۓ کہ تمام طالبعلموں کے پاس انٹرنیٹ تک رسائ ہے تو طب, کیمیا, شماریات اور معاشرتی علوم جیسے مضامیں کو ٹیکنالوجی کے استعمال میں نا تجربہ کار اساتذہ کیسے پڑھائیں گے, جن میں بحث اور عملی اقدامت وقت کی ضرورت سمجھے جاتے ہیں ۔


ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہاں پہ حکمت عملی "ایک حکمت عملی, تمام کے لیے " کے فارمولا کو مدنظر رکھ کر بنائ جاتی ہے ۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ, شہری طلباء کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ, پسماندہ علاقوں کوزیر نگاہ رکھتے ہوۓ ایک جامع پالیسی اپناۓ, جو سب کے لیے برابر طور پر فائدے مند ہو اور جامعات کے طالبعلموں کو ذہنی قرب سے چھٹکارا دیا جاۓ ۔ امید محور ہیں کہ حکمران اس درخواست کو ردی کی ٹوکری نہیں بلکہ میز کی زینت بناۓ گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :