لوکل سفری نظام کی اصلاح وقت کی اہم ضرورت

منگل 17 مارچ 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

وطن عزیز پاکستان کا شمار بنیادی طور پر ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے، یہاں کی اکثریت آبادی کا تعلق مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس طبقے سے ہے،ہمارے ہاں 80 فیصد سے زائد آبادی کا رہن سہن ایسا ہے کہ سر ڈھانپیں تو پاؤں ننگے،اور پاؤں ڈھانپو تو سر۔۔۔۔ یہاں زندگی کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول کے گرد گھومتی ہے --- صرف 7 فیصد آبادی ایسی ہے جسے اپر کلاس میں شمار کیا جا سکتا ہے، ان میں زمیندار، کاروباری طبقہ اور چند گنے چنے باشعور سیاستدان شامل ہیں، یہی وہ امراء کا چھوٹا سا طبقہ ہے جن میں سیاستدان، بیوروکریٹس، اداکار و صحافت سے وابستہ لوگ جن کو ہر آسائشِ زندگی ضخیم مقدار میں میسر ہیں- یہ معدودے چند لوگ ہی وہ لوگ ہیں جن کے پاس مہذب اور باقار سفری سہولیات ذاتی گاڑی یا کسی اور دوسری شکل میں موجود ہیں- 
ان کے علاوہ باقی 80 فیصد سے زائد کا مڈل کلاس طبقہ انسان ہو کر بھی جانوروں جیسا اندازِ سفر اختیار کرنے پر مجبور ہے، اندرون شہر کہیں جانا پڑے یا ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر مقصود ہو،ٹوٹی پھوٹی، ناکارہ اور کھٹارہ گاڑیوں اور رکشوں پر عوام جان ہتھیلی پر لئے پھرتی ہے، کسی ایک شہر سے دوسرے شہر کی لوکل بسوں، ہائی ایسز، یا دوسرے ذرائع نقل و حمل کا بغور مشاہدہ کر کے دیکھ لیجئیے، ایسے ایسے غیر مہذب اور شرمناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ باشعور اور سمجھ بوجھ والے تڑپ کے رہ جائیں، لوڈنگ کپیسٹی سے کئی کئی گنا زیادہ لوگ ایسے ایسے ٹھونس کے بٹھائے جاتے ہیں، کہ انسانیت شرما کے رہ جائے، تین سیٹوں پر چار چار لوگ اور پھر فرش پر ایک ٹانگ پر کھڑے،کھڑکیوں اور چھتوں سے لٹک کر سفر کرتے موت کو دعوت دیتے نظر آتے ہیں، پھر اس حالت میں چند منٹوں یا چند گھنٹوں کے سفر میں کسی شریف زادے یا کسی شریف زادی کے پلے تو ویسے ہی کچھ نہیں رہ جاتا-
ابھی کل ہی کی بات ہے ایک ادھیڑ عمر سادہ سی خاتون کو بٹھانے کے لئے سیٹ نہ ہونے پر کنڈیکٹر نے پھٹے والی سیٹ پر بٹھا لیا، اب ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں وہ خاتون 90 ڈگری کا زاویہ بنائے حالتِ رکوع میں بے بسی سے لہو کے گھونٹ پیتی نظر آئی،اس سے پہلے گاڑی کے انتظار میں اس شریف زادی نے سٹاپ پر جو دو تین گھنٹے برباد کئے وہ تو کسی شمار میں ہی نہیں آتے- اسی طرح ان لوکل گاڑیوں کا عملہ اکثر غیر تعلیم یافتہ ہوتا ہے، گفتگو کے ہر جملے میں گالیوں اور غیر مناسب الفاظ کی تشبیہات و استعارات کا بے دریغ استعمال تو بالکل عام سی بات ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ ہلڑ بازی، دھکم پیل،شور و غل اور سواریوں کے ساتھ غیر مہذب اور غیر انسانی سلوک کو اس پیشے کی روایت سمجھا جانے لگا ہے، اسی طرح اوور سپیڈنگ، ریس لگانے، سواریوں کو بٹھانے کی کھینچا تانی میں اب تک کئی خوفناک اور اندوہناک حادثات رونما ہو چکے ہیں، شہروں کی چھوٹی چھوٹی سی ون وے سڑکوں پر سائیکل اور گدھا گاڑی سے لے کر ہیووی ٹرک اور ٹرالے تک ہر قسم کی ٹریفک موجود ہوتی ہے،ایسے میں ذرا سی غلطی نہ صرف درجنوں جانوں کے ضیاع باعث بنتی ہے، بلکہ بعض دفعہ تو انسانی جسموں کو کاٹ کر باہر نکالنے کے دلخراش مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں-
 ٹریفک کے اس نظام کے حوالے سے ہمارے ہاں رولز اور قوانین دفتری اور کتابی حد تک تو ضرور موجود ہیں لیکن ان کا اطلاق یا تو سرے سے ہی نہیں ہوتا اور اگر کہیں ہو بھی رہا ہو تو کسی ایک مخصوص حد سے آگے نہیں جا پاتا، اسی طرح نہ تو گاڑیوں کی چیکنگ، مینٹیننس اور سروسنگ کا کوئی ٹھوس میکنزم موجود ہے اور نہ ہی ہمارے پاس اس طرح کا جدید آپریٹس اور ٹیکنیکل و لاجیسٹک سپورٹ سسٹم دستیاب ہے کہ جس کو قابل بھروسہ قرار دیا جا سکے، اسی طرح ٹریفک قوانین کی آگاہی کا بھی شدید فقدان ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ٹریفک کے نظام میں سقم ہی اس قدر زیادہ ہیں کہ ان فٹ اور ناکارہ گاڑیاں بھی باآسانی قانون سے اجازت لے کر سڑک پہ لائی جاتی ہیں اور موت کا یہ رقص سرکار کی آشیرباد کے ساتھ اس وقت تک جاری رہتا ہے کہ جب تک کہ کوئی بڑا سانحہ رونما نہ ہو جائے اور خدانخواستہ اگر دس بیس جانیں چلی جائیں تو خوب فلسفے جھاڑے جاتے ہیں، سیاسی ساڑ پھونک بھی نکالی جاتی ہے، لفاظی اور نوحہ کنی کے بھی خوب دور چلتے ہیں، یہ صرف آج کا نہیں بلکہ پون صدی کا قصہ ہے۔

(جاری ہے)

حقیقت یہ ہے کہ ہمارا لوکل سفری نظام حد درجہ پیچیدگیوں کا شکار ہے، اور کسی بڑی تبدیلی کا متقاضی ہے، شہریوں کے جان مال اور ان کی عزت نفس کی حفاظت کسی بھی حکومت کا فرض عین ہوا کرتی ہے،دنیا بھر کے ملکوں نے دیگر شعبوں میں مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے ٹریفک اور سفری سسٹم کو بھی جدید خطوط پہ استوار کیا ہے لیکن ہم آج بھی اسی پرانے، گھسے پٹے اور بوسیدہ نظام کو چلا رہے ہیں، اگر محض گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ ہی میرٹ پہ جاری ہونا شروع ہو جائیں تو مکینیکل فالٹس کی بنیاد پہ ہونے والے حادثات میں نوے فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے، اگر فائن سسٹم اور جرمانوں پہ اصل روح کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے تو ڈرائیونگ کے دوران لاپرواہی کے باعث ہونے والے حادثات میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے، اسی طرح اگر ڈرائیونگ ٹیسٹ اور ڈرائیونگ لائسینس کے حصول کے لئے اخلاقیات کو نصاب کا باقاعدہ حصہ بنا دیا جائے، اور ڈرائیور طبقے کو مہذب اور تہذیب کے دائرے میں لانے کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق بنا دیا جائے تو بہت سے مسائل بنا کسی بڑے بجٹ کو مختص کیے بغیر ہی حل کیے جا سکتے ہیں، اسی طرح ڈرائیورز کی اخلاقی تربیت اور ان کے سکلز یا مہارت میں اضافے کے لئے گاہے بگاہے ریفریشر کورسز کے انعقاد سے بھی بہت سے ایسے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :