دو نہیں ایک پاکستان

منگل 29 جون 2021

Tariq Zaman

طارق زمان

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت میں آتے ہی دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگایا تھا جس کا مطلب نظام کی تبدیلی اور نچلے طبقات کے استحصال کا خاتمہ تھا وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور ان کی کابینہ کے بیشتر اراکین نے بارہا اصلاحات کا تذکرہ بھی کیا لیکن پی ٹی آئی حکومت کے تین سال پورے ہونے کو ہیں۔ عدلیہ ، پولیس ، محکمہ مال ،   تعلیم ، صحت الغرض جس سرکاری ڈیپارٹمنٹ سے رجوع کیا جائے تو عملی طور پر دو نہیں بلکہ کئی پاکستان آپ کو دیکھنے کو ملیں گے کسی بھی ادارے سے واسطہ پڑے تو طاقتور حلقوں ، راشی عناصر اور عوام کے لیے الگ الگ نظام اور طریقہ کار موجود ہے محکمہ پولیس میں اعلیٰ شخصیات کے جائز و ناجائز کام بھی اس قدر تیزی اور قانونی پیچیدگیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چالاکی سے سر انجام دیے جاتے ہیں جس پر آئین و قانون بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ سارے معاملے کے دوران آئین کو کس طرح بالائے طاق رکھا گیا لیکن عوام کو ایک ایف آئی آر کے اندراج کے لیے ایسے ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کا خون ناحق بھی وقتی طور پر معاف کرنے اور مٹی پاؤ والی پالیسی اپنانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)

حصول انصاف کے لیے عدلیہ سے رجوع کیا جائے تو چند حلقوں کے لیے رات کے اوقات میں بھی عدالت لگا کر منشا کے مطابق فیصلے کروا لیے جاتے ہیں لیکن عوام کیس کے فیصلے کی امید میں جہان فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں یا قاضی صاحب کا ضمیر جاگ جائے تو دو تین دہائیوں بعد قیدی کو بے گناہ قرار دے کر رہائی دے دیتے ہیں اور ملبہ سسٹم کی خرابی پر ڈال دیا جاتا ہے۔

تعلیمی نظام میں اعلیٰ طبقے کے بچوں کی تعلیم پر کرونا وائرس بھی اثر انداز نہیں ہوتا جبکہ نچلے طبقے سےتعلق رکھنے والے بچوں کے والدین پیٹ کاٹ کر بھی بند سکولوں کی فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور ان کے بچوں کو تعلیم بھی آ، تی آتی اور جا،تی جاتی کی حد تک ہی دی جاتی ہے تاکہ یہ نسل بھی عملی زندگی میں صرف اپنے بڑوں کی طرح ایک مخصوص طبقہ کی جذباتی تقریروں پر نعرے لگاتی اور تالیاں بجاتی رہے۔

محکمہ مال میں جائیں تو جتنے سائلین ہوں گے آپ کو اتنے ہی پاکستان دیکھنے کو ملیں گے کسی کو سرکاری زمین مفت الاٹ کی جارہی ہوگی کوئی پیسے کے زور پر غریب کی جائیداد کا انتقال اپنے نام کروا رہا ہوگا کسی کو چاپلوسی کے صلے میں املاک سے نوازا جا رہا ہوگا تو کسی بدقسمت پاکستانی سے جعلی رسیدوں پر ٹیکس کی صورت میں  بھتہ وصول کیا جا رہا ہوگا۔

صحت کی سہولیات دیکھیں تو ملک کے بیشتر علاقوں کے مریض باالخصوص بچے سہولیات کے فقدان کے باعث تڑپ تڑپ کر جان دینے پر مجبور ہیں تو دوسرے پاکستان کے جرائم پیشہ عناصر اور قیدی و عادی مجرموں کو ماہرین طب کی ٹیمیں ان کی دہلیز پر عالمی معیار کے مطابق علاج معالجہ کی سہولیات قومی خرچ پر پہنچا رہی ہوں گی یہی حال دیگر محکموں ، شعبہ جات اور اداروں کا بھی ہے۔


صرف یہی نہیں وطن عزیر کے ہر ادارے اور شعبہ میں طبقاتی نظام عروج پر ہے حکومتی اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں بھی اس قدر تفاوت کا شکار ہیں کہ ایک کم اہم ڈیپارٹمنٹ کا ملازم 30 ہزار ماہانہ لے رہا ہے تو اعلیٰ عدلیہ سمیت کسی دوسرے اہم محکمہ کا ملازم متوازی سکیل کے ساتھ کئی گنا اضافی تنخواہ اور مراعات سمیٹ رہا ہے اور اختیارات کا اس قدر بے دریغ استعمال ہے کہ قواعد و ضوابط کو جوتی کی نوک پر رکھنا تو عام سی بات ہے طاقتور سیاسی شخصیات کے گماشتے خود کو سب سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

اسی دوہرے نظام کے دلدادہ بااثر اور اعلیٰ طبقات قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کر رہے ہیں کرپشن ، لوٹ مار اور چھینا چھپٹی کا دور دورہ ہے قومی وسائل پر قابض بالا دست طبقات نے قانون کو موم کی ناک بنا رکھا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں بھی حسب سابق قبضہ مافیا ، سرمایہ دار و جاگیردار دن بدن مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں اور متوسط و غریب عوام کی قانون اور سہولیات تک رسائی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔


تین سال پورے ہونے پر پی ٹی آئی حکومت اگر دعویٰ کرے کہ دو نہیں ایک پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو چکا ہے تو یہ بات یقیناً ناقابل یقین ہوگی عمران خان کو بشمول اپنے چند فیصد صاحب اقتدار اور اشرافیہ کے حالات کے ساتھ ساتھ متوسط و غریب طبقات کے حالات کا مشاہدہ بھی کرنا ہوگا ضرور ان پر حقیقت واضح ہو جائے گی کہ تین سالوں میں کس قدر طبقاتی نظام مضبوط یا کمزور ہوا اور حکومتی کارکردگی کیا رہی ہے وزیر اعظم و صدر سمیت وزراء اور پارلیمنٹیرینز ، ججز ، جرنیلوں اور افسران کی ماہانہ تنخواہیں اور مراعات کتنی ہیں جبکہ ایک مزدور اور کلاس فور کی آمدن کیا ہے وزیر اعظم پاکستان کو ان معاملات اور حالات کا بغور مشاہدہ کرکے یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ دو سے ایک پاکستان بننے کے لیے آخر مزید کتنا عرصہ درکار ہوگا۔


پاکستان سے طبقاتی نظام کے خاتمے اور تبدیلی کے لیے عوام نے عمران خان کو نجات دہندہ سمجھتے ہوئے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا اگر پی ٹی آئی حکومت دو نہیں ایک پاکستان کا خواب پورا کر دے تو معیشت کی بہتری ، گرین پاسپورٹ کی عزت ، کروڑ نوکریاں ، ڈیموں کی تعمیر ، بچت کرکے قرض اتارنے اور 50 لاکھ گھروں والے وعدے ایفا کرنا تو کوئی بڑی بات نہیں بصورت دیگر عوام کے لیے عمران خان کی صورت میں امید کی آخری کرن بھی ماند پڑ جائے گی اور ہر سو مایوسیاں ڈیرے ڈال لیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :