اور ریاست ایک بار پھر ہار گئی

ہفتہ 30 مئی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

سال 2013اور2014دھرنوں اور لانگ مارچ کے سال بھی تھے۔کینیڈا کی ٹھنڈی ہواؤں سے کچھ لوگوں کو پاکستان بُلایا گیا جنہوں نے ریاست کو للکارا ، سیدھے سادھے پاکستانیوں کو مذہب کے نام پر ورغلایا اور پہلے شاہراہِ دستور پر کچھ دنوں کا تھیٹر لگایا اور پھر 126دنوں کا سرکس نما دھرنا دیا۔ اِس دھرنے کے دوران سپریم کورٹ کی دیواروں پر لوگوں نے کپڑے دھو دھو کر لٹکائے، سرکاری ٹی وی سنٹر میں توڑ پھوڑ کی گئی اور شہرِاقتدار کے آئی جی پولیس کو سڑکوں پر مار پیٹ کر اُس کی وردی پھاڑ دی گئی۔

اِس سب کے لیے لوگوں اور پیروکاروں کی لاشوں کی ضرورت تھی جوکہ ماڈل ٹاؤن لاہور واقعہ سے پوری کی گئی۔اِن شہید ہونیوالوں کو ابھی تک انصاف فراہم نہیں کیا گیا جنکی لاشوں پر سیاست کی گئی اور اب اِس سارے پس منظر کے مرکزی کردار واپس کینیڈا کی ٹھنڈی ہواؤں میں ملتِ اسلامیہ کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔

(جاری ہے)

۔۔

2013-2014کے دھرنے ریاست کی پہلی ہارتھے جسمیں مذہب کو ہتھیار بنا کر لوگوں کو اکٹھا کیا گیا اور اپنے مضموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے ریاست کی رِٹ کو چیلنج کیاگیا۔

اِس سارے ڈرامے میں ریاست کے کردار کو منفی ، ظالمانہ،اور سفاقانہ بنا کر پیش کیاگیا، اور یہ تاثر دیا گیا کہ اِس جنگل نما مُلک میں کوئی بھی شخص اُٹھ سکتا ہے، ریاست کی رِٹ کو چیلینج کر سکتا ہے اور پھر ریاست اُس کردار کے سامنے جُھکنے پر مجبور ہوجائے گی ۔ یہ ریا ست کی مجبوری اور بے بسی ہی تھی جِس کی وجہ سے اسلام آبادمیں 126دنوں کا دھرنا دیا گیا، تمام تجارتی سر گرمیاں اور معمولاتِ زندگی کو اِس طر ح مفلوج کر کے رکھا گیا، اور عالمِ اسلام سمیت پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔

میں یہ سمجھتاہوں کہ وہ ریا ست ِ پاکستان کی پہلی ہار تھی جس میں مذہب کی آڑ لیکر ریاست سے اپنی بات منوائی گئی۔اور پھر اِس واقعے کے بعد سے مُلک بھر میں دھرنوں اور لانگ مارچ کا ایک نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع ہوگیا ۔
چلیں اب ہم آتے ہیں کرونا وبا کی طرف اور عید سے دس دن پہلے وقوع پذیر ہونیوالے واقعات کیطرف جس میں حکومت نے مذہبی راہنماؤں اور مذہبی جماعتوں کے دباؤ میں آکر ملک میں دوبارہ مذہبی اجتماعات کی اجازت دے دی۔

ملک میں کرونا وبا کے باوجود یومِ علی کے اجتماعات منعقد ہوئے، ستائیسوں شب کو SOPsفالو کیے بغیر مساجد میں ختمِ قرآنِ پاک پڑھا گیا، جمعتہ الوداع پر بھی حفاظتی ہدایات کاخیال نہیں رکھا گیا اور پھر عید الفطر کے موقع پر لوگوں دل کھول کر ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کرعید کی خوشیاں منائیں۔یہ مانا جاسکتا ہے کہ یہ اجتماعات کسی حد تک ضروری بھی ہوں ، لیکن صوبائی حکومتوں (پنجاب اورسندھ)نے مزارات کے اجتماعات سے پابندی اُٹھا کر کرونا کے تابوت میں آخری کیل ٹونک دیااور ثابت کردیا کہ ریاستِ پاکستان طاقتور اور بآثر لوگوں کے سامنے بے بس ہے اور مُلک میں جسکی لاٹھی اُسکی بھینس کا نظام رائج ہے۔

مذہبی مکتبِ فکر اور تاجر تنظیموں کے سامنے ریاست جس طرح بے بس دکھائی دی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے جبکہ یہی ریاستِ پاکستان اُستادوں کو جلوسوں، نابینا حضرات،اور نرسوں کے اپنے جائز مطالبات ماننے والوں کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے اور صرف اِن چند پِسے ہوئے طبقوں کے جلسے جلوسوں کو دفعہ 144کی خلاف ورزی سمجھتی ہے، جبکہ اِس کے بر عکس مذہبی اجتماعات، تاجر ہڑتال، ڈاکٹروں، وکیلوں اور پی آئی اے پائلٹوں کی تنخواہوں میں اضافوں کی تمام ہڑتالیں حق بجانب ہو تی ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ عید سے پہلے، عید کے دوران اور عید کے بعد دباؤ میں آکر اِن مذہبی اجتماعات کی اجازت دینا ریاستِ پاکستان کی دوسری بڑی ہار ہے۔
اِس سب کے برعکس ملائیشیا میں 6,819کرونا کیسز اور 112اموات کے پیشِ نظر ملک میں عیدالفطر کے اجتماع پر صرف تیس لوگوں کو سماجی فاصلے کے تحت نماز کی اجازت دی گئی ۔گلف بزنس ویب سائٹ کے مطابق سعودیہ عریبہ نے عیدالفطر کے دِنوں پر اپنے تمام شہروں میں کرفیو نافذ کردیااور لوگوں سے گھروں پر عید کی نماز پڑھنے کی تلقین کی۔

اِسی طرح مراکش نے اپنے تمام شہروں کی مساجد کو عیدالفطر کے لیے بند کردیا اور لوگوں سے گھروں پر ہی عید کی نماز ادا کرنے کو کہا گیا۔کرونا وبا کی وجہ سے اِسلامی ملک الجیریا میں بھی عیدالفطر گھروں پر اداکی گئی۔میراسوال یہاں یہ ہے کہ اگر یہ ممالک کرونا وبا کے پیشِ نظر احتیاطی تدابیر اپناسکتے ہیں اور پنی عبادات کے اوقات یا طریقہ کار میں علماء کی رائے کے مطابق تبدیلی کرسکتے ہیں ،تو پاکستان میں رہنے والے لوگ اِس وبا کی صورتحال میں اپنے طریقہ عبادات کو تبدیل کیوں نہیں کر سکتے ؟کیا پاکستان میں رہنے والے لوگوں کا اِسلام اوربا قی مُسلم ممالک کے اِسلام میں کوئی فرق ہے؟آخر دنیا میں ہم پاکستانی اتنے ہارڈ لائینر (Hardliner)کیوں ہیں؟
پوری دنیا میں اِس کرونا وبا کے دوران فلاحِ عامہ کے فیصلوں میں ڈاکٹروں کی مشاورت شامِل ہوتی ہے اور ڈاکٹروں کے مشوروں سے حکومتیں عوام کے لیے معیشت، روزگار، ذرائع آمدورفت اور مذہبی رسومات کی اجازت دے رہی ہے۔

اگر کسی ملک میں وبا کی شدت ذیادہ ہے اور حکومت یہ سمجھتی ہے کہ مذہبی اجتماعات کیوجہ سے وبا کے مذید پھیلنے کا خدشہ ہے تو ریاست اپنے شہریوں کو مذہبی رسومات ادا کرنے سے روک رہی ہے، جبکہ ہمارے ملک میں اِسکے برعکس ہے حکومت تاجر برادری کے دباؤ، مذہبی طبقے کے دباؤاور صنعتی شعبے کے دباؤ میں آ کر لاک ڈاؤن میں کمی کرتی جارہی ہے اور اپنے شہریوں کو موت کے منہ میں دکھیلتی جارہی ہے۔

عید الفطر کے اجتماعات کے حوالے سے حکومتِ وقت کے پاس ایک تجویز تھی کہ وہ اپنے شہریوں کو عید گھروں پر ادا کرنے کا پابند کرتی۔ اِس مقصد کے لیے حکومت تمام ٹی وی چینلز، ریڈیو، F.Mاور انٹرنیٹ پر عیدکی نماز ادا کرواتی ، اور لوگوں سے کہا جاتا کہ وہ اپنے گھروں اورڈائنگ رومز میں رہتے ہوئے عیدالفطر کی نماز میں شامل ہوجاتے۔عالم حضرات نمازِعید کی امامت کرواتے ، اِس امامت کو ٹی وی چینلز کو سے براہِ راست نشر کیاجاتا،اور یوں لوگ گھروں میں رہ کر عید کی نماز اداکر لیتے۔

مذید یہ کہ عیدالفطر کی نماز کے دو اوقات مقرر کیے جاتے، مثلاً صبح سات بجے اور صبح نو بجے۔جن لوگوں کو صبح سات بجے آسانی ہوتی وہ سات بجے نماز ادا کر لیتے اور جن کے صبح نو بجے آسانی ہوتی وہ نو بجے اپنے گھروں پر ہی نماز پڑھ لیتے۔ یہ شاید عیدالفطر کی نماز کی اصل روح تو نہ ہوتی لیکن یہ موجودہ حالات میں عیدالفطر ادا کرنے کا ایک مناسب طریقہ سمجھا جاسکتا تھا۔

اِس عیدالفطر پر میں نے بھی نماز اِسی طرح گھر پر ادا کی، جب ہمارے گھر پر قریبی مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر نماز ادا کرنے کی آواز آرہی تھی اور میں اپنے بھائی کیساتھ ہی گھر پر امام صاحب کی آواز کی پیروی کرتے ہوئے نمازِعید ادا کررہا تھا۔دراصل ہم اِس طریقہ کار کوآئندہ آنیوالے جمعہ کے اجتماعات کے لیے بھی اپنا سکتے ہیں جس میں جمعہ کی نمازکے لیے دوپہرمیں دو مرتبہ(دوپہر01:00بجے اوردوپہر02:30)امام صاحب کی اِمامت کو لائیو ٹیلی ویژن چینلز ، ریڈیو اور انٹرنیٹ پر نشر کیا جائے،اور لوگوں کو گھروں پر رہ کر ہی نماز ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔

ٓآخر میں یہ کہ حکومت کو اب کرونا وبا پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ دوسری صورت میں ملک میں کوئی اور گروہ اُٹھے گا اور اپنی street power دکھا کر حکومت سے اپنی مرضی کے فیصلے کروا نے کیلئے اُسے مجبور کر دے گا۔موجودہ حالات میں پاکستان کا کرونا وبا پر قابو پانے کے لیے مذہبی اجتماعات پر پابندی پر عمل درآمد نہ کرواسکنا، دراصل ریا ست کی رِٹ کو نہ ماننے والی وہ فصل ہے جو پاکستان میں چھ سال قبل دھرنوں کی شکل میں بوئی گئی تھی ،اور آج ہم اُسے ہی کاٹ رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :