کرایے کے حکومتی ترجمان

ہفتہ 1 اگست 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

گزشتہ روز وزیرِاعظم عمران خان صاحب کے دو سپیشل ایڈوائیزرجناب ظفر مرزا اور تانیہ ایدرس صاحبہ اپنے عہدے سے مستعفٰی ہو گئیں، اِن دونوں نے موقف اپنایا ہے کہ اُنہوں نے یہ استعفٰی اُن پر ہونیوالی تنقید اور رائے عامہ کے مفاد میں دیا ہے۔کیونکہ پچھلے چند دنوں سے وزیرِاعظم صاحب کے مشیران پر بڑی سخت تنقید ہو رہی تھی کہ اُنکے اپنے ایڈوائیزراور مشیران دوہری شہریت کے حامل ہیں۔

وزیرِاعظم پاکستان آئین اور قانون کے تحت دوہری شہریت والے مشیران اور ایڈوائیزر رکھ تو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ کوئی پبلک آفس یا کابینہ کی کسی میٹینگ کا حصہ نہ ہوں یا کسی خاص طرح کی سہولیات کو انجوائے نہ کرتے ہوں۔ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ ایڈوائیزصرف عمران خان صاحب کو مشورے اور اپنی قیمتی آراء دیا کریں اور کسی میڈیا بریفنگ یا میڈیا ٹاک میں شامل نہ ہوا کریں۔

(جاری ہے)

جبکہ اِسکے برعکس شہباز گِل صاحب، شہزاد اکبر صاحب اور فیاض الحسن چوہان صاحب اور دیگر ترجمان سمیت اپنا اپنا بنیادی کام کرنے کی بجائے اپوزیشن پر تنقید اور اُنکو بَدنام کرنے کے مشن پر لگے ہوتے ہیں۔ یہ عظیم مشن یقینا اُنکے عظیم قائد نے اِن مشیران کو سونپا ہوگا کہ وہ میڈیا (ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا)پر جا کر مختلف طرح سے اپوزیشن پر تنقید اور ر الزامات لگایا کریں۔

اگرعمران خان صاحب کی حکومت کے اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات اتنے ہی سچ ہیں تو لاکھ کوشش کے باوجود یہ الزامات نیب اُن پر عدالت میں ثابت کیوں نہیں کر پاتی۔حکومت کے اِس مشکوک احتساب کے عمل نے نیب کے ادارے کی کریڈیبلٹی کو بالکل تبا ہ کرکے رکھ دیا ہے۔نیب جس طرح حکومت کے بڑے بڑے کیسز (بی آر ٹی ، مالم جبہ، آٹا ،چینی ، پڑول بحران)پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں ،وہ اپنی مثال آپ ہے۔


صرف ابھی کے موجودہ ہی نہیں ، اگر آپ اِس حکومت کے پرانے ترجمان ( فردوس عاشق اعوان، اجمل وزیر وغیرہ)کے بیانات بھی سنیں تو آپ کو لگے گا کہ یہ پی ٹی آئی حکومت کے لوگ تو دودھ اور شہد کے دُھلے ہوئے لوگ ہیں، اور قصور وار صرف اور صرف اپوزیشن والے ہی ہیں۔جبکہ بعد میں وہی اُونچا اُونچا گلا پھاڑ کے بولنے والے حکومتی ترجمان خود کسی نہ کسی کرپشن کے الزام یاسکینڈل میں پائے جاتے ہیں اور اُنکو دیکھ کر عوام ہکہ بکہ رہ جاتی ہے کہ کس طرح دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والوں کے اپنے دامن داغ دار ہیں۔

یہ قصور صِرف اِن کرائے کر ترجمانوں کا ہی نہیں ہے میرے خیال میں اِن حکومتی ترجمانوں کو عمران خان کیطرف سے یہ اہم کام (ٹاسک)سونپا گیا ہے کہ اُنہوں نے اپوزیشن پر تنقید کرنا ہے۔جبکہ میرے ناقص رائے کے مطابق ایک اصل قائد اور لیڈر خود تنقید برداشت کرتا ہے اور اپنی محنت ، قابلیت اور صلاحیت کے ذریعے اِس تنقید کا جواب دیتا ہے۔عمران خان صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی 22سال کی برائے نام سیاسی جدوجہد میں اپنی ٹیم کے لوگوں کی اِس طرح سے تربیت کرتے کہ وہ ہر چیلنج کا مقابلہ کرپاتے ، نامساعد حالات کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو نہ ٹھہراتے، یہ کرائے کے ترجمان یہ نہ کہتے کہ بجلی، گیس،آٹااور شوگر مافیا پچھلی حکومتوں کی پیداوار ہیں۔

اگر یہ سارے مسائل پچھلی حکومتوں کی پیداوار ہیں تو اِن دو سالوں میں اِن کا حل تلاش کرنا تو اِس حکومت کا کام تھا۔
یہ حکومتی ترجمان صبح و شام عمران خان صاحب کی ایمانداری کے قصے عوام کو سناتے رہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ صرف ایمانداری کے بَل بوتے پر اچھے قائد یا لیڈر نہیں بن پاتے۔ایک کرکٹ کے کھیل کے ورلڈ کپ جیت لینے سے آپ کسی قوم کے قائد یا لیڈر نہیں بن پاتے۔

آپکو اچھا قائد بننے کے لیے لیڈرشپ کی اچھی اقدار( نگئہ بلند، سخن دلنواز، جان پرسوز) نہ صرف خود میں پیدا کرنی پڑتی ہیں بلکہ اپنی ٹیم میں بھی یہ خوبیاں پیدا کرنی پڑتی ہیں۔پچھلے کچھ عرصے سے جناب ڈاکٹر شہباز گِل صاحب وزیرِاعظم عمران خان صاحب کے پارلیمانی امور کے ایڈوائزر ہیں ، لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ کیا اُن کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ٹویٹ اور بیان میں اپوزیشن پر تنقید اور الزام تراشی کریں۔

کیا عمران خان صاحب ، محترم شہباز گِل صاحب کو ماہانہ تنخواہ کی مَد میں پیسے اُنکے صِرف اپوزیشن پر تنقید کرنے کے لیے دیتے ہیں۔پاکستانی عوام پہلے ہی بڑے مشکل سے اپنی گُزر بسر کر رہی ہے، آئے روز مُلک کے حالات بَد سے بَد تر ہوتے جارہے ہیں، اِس پر عوام کے اِس ٹیکس کے پیسے سے ایک ایسے ترجمان کو تنخواہ دینا جائز ہے جس کا صرف اور صرف کام اپوزیشن پر تنقید کرنا ہے، کیا یہ چیز کسی ریاست میں جائز ہے؟درحقیقت شہباز گِل صاحب کو صرف ایڈوائزر ہونے کی حیثیت سے کسی میڈیا شو، میڈیا بریفنگ پر آنا ہی نہیں چاہیے ۔

شہباز گِل صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنی قابلیت اور ہنر مندی کی بنیاد پر صرف اور صرف مشورے اور آراء عمران خان صاحب کو دیا کریں ، اُنہیں کسی حکومتی پالیسی کی میڈیا ،یا پبلک فورم پر تشہیر نہیں کرنی چاہیے۔شکریہ ! مصنف ،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :