سفارت کاری کی پیچیدگیاں

منگل 18 اگست 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

کسی بھی مُلک میں سفارت کاری کو بڑا ہی نازک اور پیچیدہ شعبہ سمجھا جاتا ہے جس میں آپکو بڑے ہی نَپے تُلے انداز میں بات کرنا ہوتی ہے اور بڑے ہی محتاط طریقے سے اپنے ایجنڈے کی تشہیر کرنا ہوتی ہے۔دُنیا جہاں میں سفیر اور سفارتکاری کے شعبے سے وابستہ لوگ بڑے ہی ذہین، قابل اور محتاط طعبیت کے ہوتے ہیں۔یہ لوگ کسی بھی دوسرے مُلک یا شخصیت کے بارے میں بڑے ہی احتیاط سے رائے دیتے ہیں کیونکہ اِنہیں معلوم ہوتا ہے کہ اُنکی رائے یا بیان بازی سے اُنکے مُلک کو کوئی نقصان تو نہیں ہوگا۔

مذید یہ کہ سفارتکاری سے وابستہ لوگوں کا مطالعہ بڑا ہی وسیع ہوتا ہے یہ لوگ مختلف ممالک کے کلچر سے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ کسی بھی ملک میں دو وزارتیں بڑی ہی اہم ہوتی ہیں ، ایک وزارتِ داخلہ اور دوسری وزارتِ خارجہ۔

(جاری ہے)


پچھلے دنوں ہمارے وزیرِِ خارجہ کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف بیان دیتے ہوئے جس طرح کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔

سعودی عرب ہمارا دیرینہ دوست ہے جس نے ہر مُشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے ،یا یوں کہہ لیجیے پاکستان نے ہر مشکل وقت میں بھیک مانگنے کے لیے سعودی عرب کا دروازہ کھٹکٹھایا ہے جس پر سعودی عرب نے تقریباً ہمیشہ ہماری مدد کی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمیں سعودی عرب کی اِس امداد کے بدلے میں بڑے ہی مشکل فیصلے کرنا پڑے۔بحر حال سعودی عرب نے ہماری مدد ضرور کی ۔

اِنہی تعلقات کے تناظر میں جب بھارت نے اگست 2019ء میں کشمیر پر فوجی طاقت کے زور پر چڑھائی کی تو ہم سوچ رہے تھے کہ اب بھی عرب دنیا اور سعودی عرب ہماری مدد کو آئے گا ، لیکن ہوا بالکل اِسکے برعکس۔ متحدہ عرب امارات جو کہ سعودی عرب کا ایک بہت بڑا اتحادی ہے اُس نے بھارت کے وزیرِاعظم نریندرمودی کو یو اے ای کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازدیا۔

جبکہ سعودی عرب نے ہمارے بار بار اصرار کے باوجود اوآئی سی کا اجلاس بُلانے میں پس وپیش کیا، جس سے معاملات دن بدن خراب ہوتے چلے گئے اور ہندوستان کی کشمیر پر چڑھائی کے ٹھیک ایک سال بعد پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اِس نہج پر پہنچ گئے اور اعتماد اِس حد تک ٹوٹ گیا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دی گئی امداد میں سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لیے اور پھر مبینہ طور پر پاکستان کو یہ رقم چین سے لیکر اَدا کرنا پڑی۔


بات صِرف یہاں تک نہیں رہی ، اِسکے بعد پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف بڑے سخت الفاظ میں کشمیر ایشو کی بے حسی پر مذمت کی گئی ، جسکو سعودی حکومت نے بُرا مان لیا جس کے بعد پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی دوڑیں لگنا شروع ہو گئیں۔عسکری قیادت نے حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے سعودی سفیر سے مُلاقاتیں شروع کردیں اور یہاں تک کہ 16اگست کو سعودی عرب کا دورہ بھی پلان کردیا جس کے تحت سعودی عرب کی اعلٰی قیادت سے مُلاقات کی جائے گی اور دونوں ملکوں کے درمیان تلخی کو کم کر کے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔

ہم نے سعودی عرب کے معاملے پر جس طرح کی عاقبت نااندیشی کا مُظاہرہ کیا ، اُس سے ہم پوری دنیا میں ایک تھینک لیس(thankless)قوم مشہور ہوگئے کیونکہ سعودی عرب نے ہر موقع پر ہماری مدد کی لیکن ہم نے جس طرح اُس امداد کو رَد کر کے سعودی عرب کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور متبادل قیادت اور نئے اسلامی بلاک کی تلاش شروع کردی اُس نے پوری دنیا میں ہمارا امیج ایک تھینک لیس (نا شکری اور احسان فراموش)قوم کے طور پر پیش کیا ۔

سفارت کاری کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں اور سفارت کاری میں بھی اگرآپ نے کسی مُلک کیساتھ کسی بھی وجہ سے تعلقات دھیمے کرنے ہوتے ہیں تو آپ کو اِن تعلقات میں کمی کا اعلان یا تشہیر نہیں کرنا ہوتی۔ آپکو بڑی ہی خاموشی کیساتھ آہستہ آہستہ کنارہ کشی کرنا ہوتی ہے تاکہ دونوں مُلکوں کے درمیان کسی طرح کی کوئی embarrassementنہ ہو،اور اگر ضرورت پڑے تو مُستقبل میں بھی دونوں مُمالک کے درمیان تعلقات اُستوار کیے جا سکیں۔


دوسرا کسی بھی مُلک کیساتھ آپکے سفارتی تعلقات کا دارومدار اُس مُلک کی معاشی، سماجی، سیاسی اور معاشرتی ترقی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی مُلک کسی دوسرے بھکاری مُلک کا زیادہ دیر تک ساتھ نہیں دے سکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ سعودی عرب پاکستان کو معاشی امداد بھی دے اور پھر پاکستان کے کہنے پر وہ بھارت کیساتھ اپنے تعلقات خراب بھی کرے جو کہ سعودی تیل کا ایک بڑا خریدار ہے ۔

سعودی عرب پاکستان کے کہنے پر کشمیر کے موضوع پر ہمارا ساتھ دے کر اپنے تعلقات بھارت کے ساتھ خراب نہیں کر ے گا۔ یہ بات پاکستان کی سیاسی ، سفارتی اور عسکری قیادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اگرپاکستان چاہتا ہے کہ اُسکی آواز سیاسی اور سفارتی سطح پر سُنی جائے تو پھر اِس کا ایک ہی راستہ ہے کہ پاکستان اپنے آپ کو مضبوط کرے، یہ مضبوطی صرف اور صرف عسکری میدان میں نہیں بلکہ پاکستان کو ہر شعبہ مثلاً معاشی، سماجی، تعلیمی اور معاشرتی ہر سطح پر ترقی کرنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے عوام کو باہُنر اور باروزگار بنانے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو ہنر اور سِکل سِیٹ دینے کی ضرورت ہے، مُلکی اور غیر مُلکی سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے، انتظامی و عدالتی اور لاء اینڈ آرڈر کے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگرآپ (حکومت اور مقتدر حلقے)پاکستان کی socio-economic حالت بہتر بنا پاتے ہیں تو پھر توقع کی جاسکتی ہے کہ کوئی بھی مُلک آپکے ساتھ کھڑا ہو سکے گا ، وگرنہ دوسری صورت میں ملائیشیا، تُرکی یا چین بھی پاکستان سے جان چُھڑا لیں گے کیونکہ کوئی بھی شخص یا مُلک کسی دوسرے بھکاری شخص یا مُلک کو اپنا دوست رکھنا پسند نہیں کرتا۔ شکریہ!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :