یکساں قومی نصاب اور نصاب میں کمپیوٹر کی عملی تعلیم کی ضرورت

ہفتہ 22 اگست 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

گزشتہ چند دنوں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر یکساں قومی نصاب کی تیاری اور نفاذ پر بڑے زوروشور سے بحث و مُباحثے ہو رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز یکساں نصاب اور یکساں نظامِ تعلیم پر ٹاک شوز اور پروگرامز کررہے ہیں جبکہ اخبارات دھڑا دھڑ اِس بارے میں کالم اور آرٹیکلز چھاپ رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت سکولوں اور مدارس میں یکساں نصاب متعارف کروانے جارہی ہے جس کا مبینہ طور پر نفاذ پرائمری سطح پر سال 2021ء،سکینڈری سطح پر سال2022ء اور ہائر سکینڈری سطح پر سال 2023ء میں درجہ بدرجہ ہوگا۔

اِس یکساں نصاب کی تیاری کی کاوش میں نہ جانے حکومت نے کیا پیمانہ رکھا ہے ، کیا حکومت نے موجودہ سکولوں کے نصاب کو مدارس کی سطح پریکساں طور پر نافذکیا جائے گا؟ مبینہ طور پر ایک اور بات جو سامنے آرہی ہے وہ یہ کہ نصاب میں اِسلامیات کے سلیبس کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے اور اِس میں کچھ اِضافی اقتباسات بھی شامل کیے گئے ہیں اور اِس بات کا اہتمام کیاجارہا ہے کہ مدارس کے اساتذہ کو سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں اسلامیات اور دینی تعلیم پڑھانے کیلئے hireکیاجائے،جس سے ایک طرف تو یہ اساتذہ بچوں کو دینی تعلیم دے سکیں اور وہیں دوسری طرف مدارس کے اساتذہ کیلئے نوکریوں کے نئے دروازے بھی کُھل سکیں۔

(جاری ہے)

یہ بات دیکھنے میں تو بڑی خوش آئند لگتی ہے لیکن حکومت اِس طرح کا یکساں نصاب رائج کرکے تعلیم کے نظام کابالکل ہی بیڑا غرق کررہی ہے،یہ تو بہت ہی بھیانک کھیل ثابت ہوگا۔اگرحکومت واقعی ہی نظامِ تعلیم کو بہتر بنانے کی خواہاں ہے اور یکساں نصاب رائج کرنے جارہی ہے تو پھر حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ سکولوں میں پڑھایا جانیوالانصاب (اگرچہ میری رائے میں وہ بھی غیر معیاری ہے)مدارس میں مُکمل طور پر رائج کرواتی اور مدارس کو اِس بات کا پابند کرتی کہ وہ سائنس ، انگریزی اور ریاضی کی تعلیم ہر بچے کودیں،اِس مقصد کیلئے حکومت نئے اساتذہ بھرتی ، اُنکی موثر انداز میں ٹرینیگ اور تربیت کرواتی اور پھر اِن تربیت یافتہ اساتذہ کو دینی مدارس میں بھیجتی، جہاں وہ بچوں کو سائنس ،انگریزی اور حساب کی تعلیم دیتے۔

لیکن درحقیقت ہو بالکل اِس کے برعکس رہا ہے، حکومت مدارس میں پڑھانے والے معلمین کو سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں تعینات کررہی ہے تاکہ مبینہ طور پر مدارس کے معلمین سکولوں کے بچوں کو دینی تعلیم دیں۔ بہرحال !اِس بارے میں مُستقبل میں کیاہوتا ہے ،کچھ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔
میرا دوسرا لمحہ فکریہ ہمارے تعلیمی نظام میں کمپیوٹر کی عملی تعلیم کا فقدان ہے یا یوں کہہ لیجیئے کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں دی جانیوالی کمپیوٹر کی تعلیم بہت ہی غیر معیاری ہے۔

دراصل سرکاری اور اکثر پرائیویٹ سکولوں میں تو پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک کمپیوٹر کی تعلیم دی ہی نہیں جا رہی، پہلی سے آٹھویں جماعت تک تو سرکاری سکولوں میں کمپیوٹر کا مضمون سرے سے نصاب میں شامل ہی نہیں۔غالباً نویں دسویں جماعت میں بائیولوجی کی جگہ پر طلبہ کمپیوٹر کا مضمون پڑھ سکتے ہیں، اور وہ جو نویں دسویں جماعت میں بھی کمپیوٹر کا مضمون پڑھایا جاتا ہے وہ بھی زیادہ تر theoreticalہوتا ہے اِس میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر دی جانیوالی عملی تعلیم بہت ہی کم شامل ہے۔

اکثر سرکاری ہائی سکولوں میں تو کمپیوٹر کی لیبارٹیاں ہیں ہی نہیں، اگر کہیں ہیں بھی تووہاں پر بھی کمپیوٹر ناکافی ہوتے ہیں یا بچوں کو صرف کمپیوٹر کے سامنے کچھ مختصر وقت کیلئے بٹھایا جاتا ہے یا یوں کہہ لیجیئے کہ بچوں کوصرف کمپیوٹر کی شکل دکھائی جاتی ہے۔اِن بچوں کو صحیح معنوں میں کمپیوٹر کے اِستعمال، کمپیوٹر یا انٹرنیٹ سے اپنی مطلوبہ معلومات ڈھونڈنا یا کوئی سافٹ وئیر استعمال کرنا ، اِس طرح کی کوئی بھی مفید معلومات اِن بچوں کو سکولوں میں نہیں سکھائی جاتی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں بھرتی ہونیوالے اکثر کمپیوٹر کے اساتذہ کی تعلیمی قابلیت بھی بہت ہی پست ہے اور باقی کی رہی سہی کسر ہمارے سرکاری سکولوں میں سُست روی اور کام چوری کی عادت اِن نئے بھرتی ہونیوالے اساتذہ کی موٹیویشن تباہ کردیتی ہے۔
آپ ہمارے نظامِ تعلیم میں کمپیوٹر کی بنیادی عملی تعلیم کے نہ شامل ہونے پر جتنا بھی نوحہ کریں ،وہ کم ہے۔

ہمارے سرکاری اوراکثر پرائیویٹ سکولوں میں زیادہ تر بچے بائیولوجی، فزکس، کمیسٹری اورمیتھ کا combinationرکھتے ہیں اور یہ میڑک کرنیوالے اکثر 80فیصدبچے سترہ اٹھارہ سالوں کی عمر تک بھی کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم سے نابلد ہوتے ہیں۔اِن بچوں میں سے کچھ بچے تو میٹرک کے بعد ہی کوئی روزگار یا کام کاج شروع کردیتے ہیں۔اگرہم میٹرک تک کی تعلیم میں کمپیوٹر کی عملی تعلیم لازماً شامل کردیں تو یہ ہمارے آنیوالے نوجوانوں کیلئے بہت ہی مفید ہوگا۔

ہمیں چاہیے کہ ہم چھٹی یا ساتویں جماعت سے دسویں جماعت تک کمپیوٹر کی تعلیم لازماً نصاب میں شامل کریں۔طالبعلوں کو بتائیں کہ آپ نے اپنے مُختلف مسائل کا حل کس طرح کمپیوٹر کے ذریعے انٹر نیٹ پر ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ طلباء کس طرح سے یوٹیوب سے الیکٹرک وائرنگ، پلمبنگ یا سِلائی کڑھائی کے نئے ڈیزائن اور طریقے سیکھ سکتے ہیں۔بچوں کو مختلف شعبوں کے سافٹ وئیرز سکولوں کی سطح سکھائی جانے کی ضرورت ہے، (مثلاً الیکٹرک وائرنگ، پلمبنگ، stitchingوغیرہ)۔

ہمارے نظامِ تعلیم میں کمپیوٹر کی تعلیم کا دورانیہ اور سلیبس بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔دنیا میں کمپیوٹر ہر شعبہ زندگی میں اِستعمال ہو رہا ہے، اساتذہ چھٹی یا ساتویں سے دسویں جماعت تک بچوں کو ایپلیکشن ڈویلپمنٹ (Android App ، development)ڈیجیٹل مارکیٹنگ سکھائیں ،اساتذہ بچوں کو عملی تعلیم دیں کہ جس کو طلباء استعمال کرکے مُستقبل میں اپنا روزگار کما سکیں۔


اِسکے ساتھ ہی ایک اور اہم چیز یہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سکولوں میں وسائل فراہم کرے۔ہر سکول میں معیاری کمپیوٹر لیب بنوائی جائیں جہاں پر کوالیفائیڈ اور dedicatedٹیچرز رکھے جائیں جو بچوں کو بڑی محنت اور شفقت کیساتھ پڑھائیں۔ اِن اساتذہ کی ذمہ داری ہو کہ وہ اِن طلباء کو مختلف قسم کے روزمرہ مسائل کو حل کرنیوالے سافٹ وئیرز سکھائیں، انٹرنیٹ کا مُثبت استعمال سکھائیں، انٹرنیٹ پر کاروبار کرنے یا آن لائن کام ڈھونڈنا اور کرنا سکھائیں۔

یہ اساتذہ بچوں کو سکھا سکیں کہ آپ میٹرک کرنے کے بعد بھی free-lancing, fire-wire یا upwork کے ذریعے گھر بیٹھ کر آن لائن کام کر سکتے ہیں اور ایک معقول آمدنی کماسکتے ہیں۔اِن سکولوں میں کمپیوٹرکے ٹیچرز کی اعلٰی سطح کی وقتاً فوقتاً ٹرینیگ اور refreshing coursesکروائے جانے چاہیں۔ حکومت کو چاہیے کو وہ انٹرنیٹ کی قیمتوں میں بھی کمی کرے اور عوام کو سستا انٹرنیٹ مہیا کرے ، کیونکہ انٹرنیٹ کی قیمت میں کمی کیے بغیر یہ سب کچھ کرنا ممکن نہیں۔

میں گھرپر ہر مینے2350روپے انٹرنیٹ کا بِل ادا کرتا ہوں جس میں341روپے سروسز ٹیکس اور 261روپے ودہولڈنگ ٹیکس شامل ہوتا ہے یہ کُل مِلا کر602روپے ہر ماہ حکومتِ پاکستان انٹر نیٹ کے صارف سے لے رہی ہے جو ٹوٹل بِل کی مالیت کا تقریباً 25%فیصد بنتا ہے۔ حکومت اور کچھ نہیں تو اِس ٹیلیفون یا انٹرنیٹ کے بِلوں پر ٹیکس ہی کم کردے، جس سے مُلک میں انٹرنیٹ سستا ہوجائے اور لوگ اپنا کاروبا ر اور روزگار انٹرنیٹ یا ڈیجیٹل ٹیکنا لوجی پر شفٹ کر سکیں۔


میں واپس اپنے موضوع پر آتا ہوں کہ اب ہمیں اپنے نوجوانوں کو صیحح معنوں میں معیاری تعلیم دے کر اُنہیں باروزگار بنانے کی ضرورت ہے، ہم اپنے بچوں کو زیادہ دیر تک غیر معیاری تعلیم دے کر انہیں بیوقوف نہیں بنا سکتے ۔ اگر ہمیں واقعی ہی باقی دُنیا کیساتھ چلنا ہے اور باقی دنیا کا مُقابلہ کرنا ہے تو پھر ہمیں صحیح معنوں میں اپنے تعلیمی نظام اور نصاب کو ٹھیک کرنا ہوگا۔بنیادی کمپیوٹر سکلز اِن چند سِکل سیٹ میں سے ہے جس کی ہمارے نوجوانوں اور آنیوالی نسلوں کو اشد ضرورت ہے۔ اِس لیے میری حکومت ، تعلیمی دانشوروں اور پالیسی سازوں سے گزارش ہے کہ عملی کمپیوٹر کی تعلیم کو سکینڈری سطح تک لازمی قرار دے کر نصاب میں شامل کیا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :