راج کٹاس ،ایک دلچسپ تعارف

منگل 5 جنوری 2021

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستگی کیساتھ ساتھ میری ذات کا دُوسرا تعارف ایک آوارہ گرد اور ایک سیاح کے حوالے سے بھی ہے جو دس سے زیادہ مُلکوں کی خواری کے بعد اب مقامی سیاحت کی طرف مائل ہو گیا ہے۔کساد بازاری اور CoVID-19کیوجہ سے جہاں گلوبل ٹوارزم کے دروازے تقریباً بند ہو چُکے ہیں وہاں کرونا SOPsکو مدِنظر رکھتے ہوئے لوکل ٹوارزم ایک اچھی آپشن ہوسکتی ہے۔

ٹوارزم ایک مائنڈ سیٹ اور دماغی خلل کا نام ہے جس کے لیے رقم کا ضیاع، جسمانی مُشقت اور بھوک وپیاس برداشت کرنا پڑتی ہے، لیکن اِس کے جواب میں سیاحت آپکو بہت کچھ سکھاتی بھی ہے جس میں ایک طرف ہسٹری ، کلچر، آرکیالوجی شامل ہیں وہیں دوسری طرف سو شل values، تحمل وبرداشت، اچھے آداب اوراچھے اخلاق بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اِس سلسلے میں پچھلے کچھ ماہ سے جاوید چوھدری صاحب نے لوکل ٹوارزم کو پروموٹ کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور ہمارا یہ راج کٹاس کا tourبھی اِس مقامی سیاحت کو پروموٹ کرنے کی ایک کاؤش تھی۔


راج کٹاس جانے کیلئے ہمارا سفر F-9پارک اسلام آباد سے صبح دس بجے شُروع ہوا۔ہمارا ابتدائی پروگرام موٹروے کے راستے کلر کہار پہچنے کا تھا ، جوکہ بعد میں شدید دھند ہونے کیوجہ سے تبدیل ہوکر جی ٹی روڈ کے ذریعے گُجر خان اور چکوال سے ہوتے ہوئے راج کٹاس جا کر مکمل ہوا۔راج کٹاس ہندو مذہب کا ایک مُقدس مقام اور مندر ہے جسکی زیارت کے لیے ہر سال ہزاروں ہندؤ پاکستا ن اور بیرونِ مُلک سے یہاں آتے ہیں۔

راج کٹاس مندر کی کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ جب لارڈ شیوا اپنی بیوی کی وفات کے بعد بہت غمزدہ ہوئے اور اِس غم کی وجہ سے اُنکی دُونوں آنکھوں سے آنسوؤں کی دو لڑیاں جاری ہو گئیں جس میں سے آنسوؤں کی ایک لڑی اجمیر شریف کے پاس ا یک مقام (پش کر،Pushkar) جبکہ آنسوؤں کی دُوسری لڑی راج کٹاس کے مقام پر گِری۔اِن دونوں مقامات پر آنسوؤں کے گِرنے کیو جہ سے دو چشمے پُھوٹ پڑے ، اِن دونوں چشموں (اجمیر شریف اور راج کٹاس)کو ہندو دھرم میں بہت مُقدس سمجھا جاتا ہے۔

ہندو مذہب کے پیروکار اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب تک اِن دونوں چشموں میں پانی مُوجود رہے گا تب تک دُنیا قائم رہے گی،اور جس دن یہ چشمے سُوکھ گئے تو اُس دن دُنیا ختم ہو جائے گی۔
راج کٹاس کے ٹمپل کے مُتعلق ہندووں کی ایپک کتاب مہابھارت میں ایک روایت موجود ہے کہ پانڈے بھائیوں نے راج کٹاس کا قلعہ اپنی یہاں جلا وطنی کے دوران 615ء میں بنوایا تھا۔

پانڈوؤں کو جنگ ہارنے کے بعد مُلک بدر کردیا گیا تھا،اور اُنہوں نے اپنی جلاوطنی اِس علاقے میں کاٹی تھی اور یہاں پر ایک مندر بنوایا تھا ،جسے سِت گھڑاکہتے ہیں، جس میں سات چھوٹے چھوٹے کمپلیکس ہیں۔اِسی طرح ہندووں کی مذہبی کتا ب بھگوت گیتا بھی اِسی راج کٹا س کے مقام پر لکھی گئی۔ہندو دھرم میں اگر کِسی چیز کو عزت دینا ہو تو اُسکے آخر میں الف لگا دیا جاتا ہے ، جیسا کہ گیت سے گیتا۔

دراصل یہ مذہبی کتاب گیتا جنگجو، ارجُند اور لارڈ کرشنا کے درمیان ایک شعری مُقالمہ ہے جس کو بعد میں ایک کتاب کی شکل دے دی گئی، اِسی شعری مقالمے کیوجہ سے اِس کا نام گیت یا گیتا پڑ گیا۔اُرجند پانڈوؤں کے ہارے ہوئے بھائیوں میں سے ایک سمجھدار، اور زیرک شخص تھااِس لیے لارڈ کرشنا نے اُرجند سے شعری مقالمہ کیا اوراُسے اِس بات پر آمادہ کیا کہ اُسے دوبارہ جنگ کر کے اپنی سلطنت واپس لینی چاہیے۔

اِسی شعری مُقالمے کو بعد میں ایک مقدس مذہبی کتاب کی شکل دے دی گئی۔
راج کٹاس کی تیسری اہمیت یہاں پر مشہور مسلمان سائنسدان ، البیرونی کا قیام بھی ہے۔البیرونی نے اپنے اِس قیام کے دوران یہاں رہ کر سنسکرت زبان سکیھی اور اپنی مشہور کتاب ، کتاب الہند بھی اِسی مقا م کے قریب لکھی جس میں مذہب، سائنس اور ہندووں کی سماجی روایات قلمبند ہیں۔

مذید یہ کہ البیرونی نے زمین کے قُطرکی پیمائش بھی اِسی راج کٹاس کے مقام کے قریب رہ کر کی۔
اِس ایک دِن کے ٹور میں راج کٹاس کے بعد ہماری اگلی منزل تختِ بابری تھا۔ 1512ء میں بابر کی ہندوستان آمد کے دوران اور درہ خیبر پار کرنے کے بعد پہلا پڑاؤ کلر کہار کے قریب یہ مقام تھا۔ بابر ایک جمالیاتی حِس اور حُسن کا دِلدادہ اِنسان تھا، اور اِسی وجہ سے بابر کو اِس مقام پر آب وہوا اور میٹھے پانی کے چشمے بڑے پسند آئے۔

بابر نے اپنی فوجوں کو کلر کہار کی پہاڑیوں کے دامن میں جھرنوں اور چشموں کے پانیوں کو اکٹھا کرکے ایک جھیل بنانے کا حکم دیا، جس سے یہاں کلر کہار جھیل وجود آئی۔اِسکے ساتھ ہی بابر بادشاہ نے اپنی فوج کو پہاڑ تراش کر ایک تخت (میز اور کُرسی) بنانے کا حکم بھی دیا، جس پر بیٹھ کر بابر اپنی فوج سے اِس طرح سے خطاب کر سکے کہ دُور تک پھیلی ہوئی وسیع وعریض جھیل اُسکے بالکل سامنے ہو۔

مُغل بادشاہ قدرتی حُسن کے رسیاتھے اور قدرتی مناظر اور نیچر کے قریب رہنا پسند کرتے تھے۔یہاں archealogyکے حوالے سے یہ بات بھی گوش گزار کرتا چلوں کہ راج کٹاس کا مندر اور تخت ِبابری فوسلز سٹون (fossils stones)کو کاٹ کر بنائے گئے۔یہ کوہستانِ نمک (سالٹ رینج)کا علاقہ اربوں سال پہلے سمندر کا حصہ تھاجو کہ بعد میں سوکھ گیا، جس کے پیندے پر جانداروں کی ہڈیاں، مٹی اور ریت تھی جوکہ بعد میں تہہ در تہہ دباؤ کیوجہ سے پتھروں(فوسلز سٹون)میں تبدیل ہو گیا۔

اِس لیے ابھی بھی اِس تراشے ہوئے پتھروں میں کھوکھلی ہڈیوں کی باقیات دکھائی دیتی ہیں۔
بابر بادشاہ نے تختِ بابری کیساتھ ایک باغ (باغِ صفا) بھی تعمیر کروایا، جس میں مختلف پھلوں اور پُھولوں کے پودے لگوائے۔ تخت ِبابری اور باغِ صفا ،برِصغیر پاک وہند میں مغلیہ سلطنت کی پہلی تعمیرتھی۔بادشاہی مسجد، قلعہ لاہور،تاج محل و دیگر ، یہ سب بعد میں مغلیہ سلطنت کے قیام کے دوران معرضِ وجود میں آئے۔

میں آخر میں بابر بادشاہ کی زندگی کا ایک واقعہ پیش کرنا چاہ رہا ہوں۔ بابر بادشاہ ایک دفعہ ایک نجومی کے پاس گیا اور اُس سے پوچھا کہ کیا میرے ہاتھ کی لکیروں میں بادشاہت کی لکیر ہے؟ نجومی نے مایوسی سے جواب دیا، تمہارے ہاتھ میں بادشاہت کی لکیر نہیں۔ یہ سُن کر بابر نے خنجر نکالا اور اپنے ہاتھ پر خنجر سے ایک لکیر کھینچ ڈالی ، اور دوبارہ نجومی سے بولا اب بتاؤ، کیا اب میں زندگی میں کبھی بادشاہ بن پاؤں گا؟جس پر نجومی حیرانی سے بولا اگر تمہارا ارادہ اتنا ہی مُصمم ہے تو تمہیں بادشاہ بننے سے کونہیں روک سکتا۔


میں نے اپنی اِس تحریر میں، اپنے ایک دن کی سِیر کی رُوداد بیان کی ہے، جس میں ، مَیں نے خود کے تاریخ، تہذیب اور کلچر سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور یہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہ میں کون ہوں؟میرے سے پہلے یہاں کون لوگ بستے تھے؟ اور اُن لوگوں کا گُزر بسر اور رہن سہن کیا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :