نیاپاکستان اب بننے دیں

جمعہ 27 جولائی 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

ملاوٹی اوربازاری اشیاء کھانے کی وجہ سے برداشت کامادہ تو ہماراپہلے ہی کمزورہوچکا۔اب ہارتسلیم اورشکست قبول کرنے کی قوت اورصلاحیت بھی ہمیں جواب دے گئی ہے۔ہمارے سیاستدان جن کاکام ہی سیاہ کوسفید،دن کورات ،شکست کوجیت اورہارکوفتح میں تبدیل کرناہوتاہے ان کی ڈکشنری میں توہاراورشکست کالفظ ہی نہیں۔شائدیہی وجہ ہے کہ ملک کے اندرجب بھی انتخابات ہوتے ہیں یاسیاستدانوں کے درمیان کوئی سیاسی کشتی ہوتی ہے اس کے فوراًبعددھاندلی دھاندلی کی صدائیں ہرطرف گونجنے لگتی ہیں ۔

میدان سیاست میں غلام احمدبلورجیسے آٹے میں نمک کے برابر چندہی لوگ ایسے ہوں گے جوخندہ پیشانی کے ساتھ اپنی شکست تسلیم کرکے جیتنے والے کوفتح پرمبارکباددیتے ہیں ۔2013میں ہونے والے عام انتخابات کے بعدبھی دھاندلی دھاندلی کی نہ صرف آوازیں بلندہوئیں بلکہ اسی دھاندلی کے نعروں کی برکت سے اسلام آبادکے ڈی چوک میں تحریک انصاف کاتاریخی دھرنابھی تاریخ کاایک حصہ بنا،2013کے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت نے پانچ سال پورے کئے لیکن پوری دنیاجانتی ہے کہ تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان نے دھاندلی کے نعرے لگانے کاسلسلہ آخرتک جاری رکھا۔

(جاری ہے)

2018کے عام انتخابات کامرحلہ قوم کی دعاؤں کے باعث کامیابی سے مکمل ہوگیاہے مگرماضی کی طرح ایک بارپھرالیکشن ہوتے ہی دھاندلی دھاندلی کی صدائیں بلندہونے لگی ہیں ،عام انتخابات جس میں مولانافضل الرحمن،سراج الحق،سعدرفیق،شاہدخاقان عباسی،طلال چوہدری،عابدشیرعلی،علیم خان اوریاسمین راشدجیسے بڑے بڑے برج الٹ گئے اسی وجہ سے ماضی کے برعکس اب کی باردھاندلی دھاندلی کی صدائیں بھی چاروں طرف سے سنائی دینے لگی ہیں ۔

انتخابات میں دھاندلی ہوئی یانہیں۔۔؟دن کوہوئی یارات کو ۔۔؟ایک حلقے میں ہوئی یاکئی نشستوں پر۔۔؟یہ ہماراموضوع نہیں نہ ہی ہمیں اس بارے میں کوئی علم ہے لیکن اتناہم ضرورجانتے ہیں کہ روایتی سیاستدانوں کے نقش قدم پرچل کرتحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان نے 2013کے الیکشن کے بعدمسلم لیگ ن کی مینڈیٹ تسلیم نہ کرکے جوفصل بوئی تھی اب اس کوکاٹنے کاوقت آگیاہے۔

2013میں عمران خان اگرروایتی سیاستدانوں کی طرح دھاندلی دھاندلی کے نعرے لگانے کی بجائے خاموشی کے ساتھ اپنی شکست اورمسلم لیگ ن کی فتح کوتسلیم کردیتے توتحریک انصاف کی تاریخی کامیابی پرآج انہیں یہ دن کبھی بھی دیکھنانہ پڑتااورنہ ہی اس تاریخی موقع پردھاندلی دھاندلی کی صدائیں سننی پڑتیں۔اس ملک میں ہمیشہ دوسروں کے مینڈیٹ کااحترام کرنے کی بجائے نہ صرف مذاق اڑایاگیابلکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کودنیاکے سامنے تماشابھی بنایاگیا، آج ایک مرتبہ پھرجب الیکشن کی صورت میں تحریک انصاف عوامی مینڈیٹ حاصل کرچکی ہے،اس تاریخی فتح کودھاندلی سے دھونے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں ۔

2013میں صرف عمران خان نے دھاندلی دھاندلی کاسب سے زیادہ شورمچایالیکن اب شورمچانے والے ایک دوسے بھی زائدہیں ۔مسلم لیگ ن،تحریک لبیک اورمتحدہ مجلس عمل سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج پرشدیدتحفظات کااظہارکرتے ہوئے نتائج کویکسرمستردکردیاہے۔ہزارہ کے کئی اضلاع میں ممکنہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج اوردھرنوں کابھی آغازہوچکاہے۔

انتخابات میں حصہ لینے والے اکثرامیدوارمئوقف اپنارہے ہیں کہ وہ بھاری لیڈسے جیت رہے تھے لیکن رات کی تاریکی میں ان کی جیت اورفتح کوشکست میں تبدیل کیاگیا۔کون سچا۔۔؟کون جھوٹا۔۔؟اورحقیقت کیاہے۔۔؟ اللہ ہی بہترجانتاہے لیکن الیکشن میں ہارنے والے سیاستدانوں اورسیاسی جماعتوں نے انتخابات کے بعدجس طرح آسمان سرپراٹھایاہے اس سے لگتاہے کہ یہ لوگ بھی عمران خان ہی طرح اب اسی کپتان کوآرام سے بیٹھنے دینے اورحکومت چلانے نہیں دیں گے۔

عمران خان نے دھاندلی کے خلاف اسلام آبادمیں تاریخی دھرنادے کرلوگوں کوراستہ بتادیاہے۔اب الیکشن میں ہارنے والے وہی روٹ پکڑکردھرنے دیں گے۔احتجاج کریں گے اورمظاہرے کریں گے۔عمران خان نے جب دھاندلی کیخلاف دھرنے دینے کاسلسلہ شروع کیاتھاتواسی وجہ سے ہم نے اس کی مخالفت کی تھی کہ یہ سلسلہ پھرآئندہ کے لئے ایک رواج بن جائے گا۔وہی ہوا۔عمران خان کے دھرنے کی طرح ہم دھاندلی کے خلاف آج کے دھرنوں،احتجاج،مظاہروں اورجلوسوں کی بھی مخالفت کرکے ہارنے کاطوق گلے میں سجانے والوں کی خدمت میں گزارش کرتے ہیں کہ گھرکے معاملات کوگھرمیں ہی حل کیاجائے۔

عمران خان اکثریت حاصل کرنے کے بعدواضح اعلان کرچکے کہ جن حلقوں پرکسی کوتحفظات اورخدشات ہوئے ہم وہ حلقے کھولیں گے۔عمران خان کے اس اعلان کے بعددھاندلی کے نام پراحتجاج،دھرنوں اورمظاہروں کی کوئی تک نہیں بنتی اورنہ ہی کپتان کے نقش قدم پرچلنے کاکوئی جوازبنتاہے کیونکہ عمران خان نے بھی 2013کے الیکشن کے بعدمتاثرہ انتخابی حلقے کھولنے کامطالبہ کیاتھاجب ان کامطالبہ پورانہ کیاگیاتوپھرانہوں نے احتجاج اوردھرنوں کاراستہ اختیارکردیاتھا۔

ملک کے اندرعدالتیں ہیں،الیکشن کمیشن بھی ہے،اس لئے جن لوگوں کوبھی اپنے ہارنے اورمخالف کی جیت کایقین نہیں وہ قانونی راستہ اختیارکرکے عدالتوں اورالیکشن کمیشن کے دروازوں پردستک دیں لیکن خداراتحریک انصاف کے مینڈیٹ کوتماشابنانے سے گریزکریں ۔پانچ سال کاوقت گزرنے میں زیادہ ٹائم نہیں لگتا،یہ پانچ سال بھی لیگی حکومت کے دورانیے کی طرح اس طرح گزرجائیں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گا۔

اقتدارتک پہنچناعمران خان کی نہ صرف خواہش تھی بلکہ ایک خواب بھی تھا۔اس ملک پرجنرل ایوب سے لیکرجنرل پرویزمشرف اورلیاقت علی خان سے لیکرنوازشریف تک کئی لوگوں نے حکمرانی کی ۔ہرآنے والاایک دن واپس گیا،عمران خان بھی ہمیشہ اقتدارمیں نہیں رہیں گے۔لوگوں نے دس دس سال تک حکمرانی کی عمران خان اگرپانچ سال حکمرانی کرلیں گے توکونساآسمان گرجائے گا۔

۔؟یاکوئی قیامت آجائے گی ۔۔؟اس لئے تحریک انصاف کامینڈیٹ کھلے دل سے تسلیم کرکے عمران خان کوکھل کر حکومت کرنے کاموقع دیاجائے۔ویسے بھی روزروزکی چخ برداشت کرنے اورہروقت تبدیلی تبدیلی کے نعرے سننے سے بہترہے کہ پانچ سال تک عمران خان ک کوموقع دے کران کے کام اورکارکردگی اپنی آنکھوں سے دیکھی جائے۔اقتداریہ کوئی پھولوں کاہارنہیں نہ ہی یہ کوئی عیش وعشرت کی جاہے ۔

ہرحکمران عوام کوجواب دہ ہونے کے ساتھ اللہ کوبھی جواب دہ ہوتاہے۔قوم نے اگرعمران خان کوووٹ دےئے ہیں تووہ اب نیاپاکستاب بھی دیکھناچاہتے ہوں گے ۔اس لئے تحریک انصاف کاراستہ روکنایہ ان کروڑوں عوام کاراستہ روکنے کے مترادف ہوگاجوتحریک انصاف کے ذریعے نئے پاکستان کی طرف بڑھناچاہتے ہیں ۔مولانافضل الرحمن اورسراج الحق سمیت تمام ہارے ہوئے سیاستدانوں کواپنے خدشات اورتحفظات دورکرنے کے لئے آئینی اورقانونی راستہ اختیارکرکے عمران خان کوحکمرانی کاموقع دے دیناچاہئے تاکہ عوام جوبرسوں سے مہنگائی،غربت،بیروزگای اورکرپشن سے پاک نئے پاکستان کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ اب شرمندہ تعبیرہوسکیں ۔

نئے پاکستان کاخواب اگرپورانہ بھی ہوسکاتوعمران خان کی حکمرانی کاخواب توپوراہوجائے گا،ملک کی ترقی کے لئے عمران خان کاخواب پوراہونابھی ضروری ہے کیونکہ کپتان جب تک حکمران نہیں بنتے یہ اس وقت تک پھرکسی اورکوبھی آرام سے حکمرانی نہیں کردیں گے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کایہ سلسلہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوناچاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :