حکمران یااللہ کا عذاب

پیر 15 مارچ 2021

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

جولوگ کل تک عمران خان کے وزیراعظم بننے کیلئے رب کے حضورگڑگڑاکر دعائیں مانگتے تھے آج وہی لوگ عمرانی حکومت سے نجات کیلئے ہاتھ اٹھارہے ہیں۔نئی نسل کوشائدکہ یہ کچھ نیالگے لیکن اس ملک کی سیاست ،حکومت اورعوام کی عادت وروایت سے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ملک میں آنے والے کی خوشی پر جس طرح مٹھائیاں تقسیم کرکے بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں اسی طرح پھرجانے والے کی خوشی میں بھی نہ صرف شادیانے بجائے جاتے ہیں بلکہ دل اورگریبان کھول کرلڈوبھی تقسیم کیئے جاتے ہیں۔

ہمیں اچھی طرح یادہے تدبیراورتقدیرالٹنے پرجس دن سابق وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کاتختہ الٹ کرسابق صدرپرویزمشرف نے اقتدارپرقبضہ کیااس دن عام لوگوں کے ساتھ بہت سے مولویوں،پیروں،عابدوں، صوفیوں،متقیوں اورپرہیزگاروں کے ہاں بھی جشن کاایک سماں تھا۔

(جاری ہے)

ہم نے اپنی ان گنہگارآنکھوں سے مولانافضل الرحمن اوردیگرمذہبی لیڈروں،رہنماؤں اورقائدین کی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی مجاہدوں کونہ صرف خوشی کے شادیانے بجاتے دیکھابلکہ اپنے نرم وملائم ہاتھوں سے خودلڈوکھاتے اوردوسروں کوکھیلاتے ہوئے بھی دیکھا۔

جن لوگوں کوپرویزمشرف کی آمدپرناچتے،کودتے اوراچھلتے ہوئے ہم نے دیکھاتھاپھر اسی پرویزمشرف سے نجات کے لئے ان لوگوں کو الٹے ہاتھ رب کے حضورگڑگڑاتے اورجھولیاں پھیلاپھیلاکربددعائیں مانگتے ہوئے بھی ہم نے دیکھا۔جن لوگوں نے پرویزمشرف کے اقتدارمیں آنے کی خوشی میں ایک ایک من مٹھائیاں تقسیم کی تھیں انہی لوگوں نے پھرپرویزمشرف کے اقتدارسے جانے پربھی پھردودواورتین تین من مٹھائیاں تقسیم کیں۔

یہ ہم لوگوں کی عادت اوراس ملک کی ایک روایت ہے کہ پہلے ہم کسی کے آنے کی دعائیں مانگتے ہیں،منتیں چڑھاتے ہیں ۔لیکن آنے والے کے آنے کے بعدپھرہم ان سے جان چھوٹنے اورنجات پانے کے لئے دعاؤں اوردواؤں کاکام شروع کردیتے ہیں۔سچ پوچھیں توہم کسی بھی حال میں خوش نہیں ہوتے۔پہلے ہم رب سے دعاؤں میں نوازشریف کوحکمران کے طورپرمانگتے رہے وہ ملے توپھرہم آصف علی زرداری کے حکمران بننے کی خواہش ظاہرکرکے نوازشریف سے نجات کی دعائیں مانگنے لگے۔

آصف علی زرداری جب حکمران کی صورت میں ہمیں ملے توپھراسی نوازشریف کی یادہمیں دوبارہ ستانے لگی۔پھرجب وہی نوازشریف تیسری بار اس ملک کے وزیراعظم بنے توپھرہم اس سے سستانے لگے۔موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی کوئی خودچل کرنہیں آئے بلکہ انہیں اس مقام تک لانے میں بھی ہماری ان ہی دعاؤں،خواہشات ،تمناؤں اورامنگوں کااثرہے۔ہم اگررب سے عمران خان کوبطورحکمران نہ مانگتے توآپ یقین کریں عمران خان بائیس نہیں مزیدبائیس سال بھی جدوجہداورکوشش کرکے اس ملک کے حکمران کبھی نہیں بن سکتے تھے۔

آج جولوگ عمران خان کوبرابھلاکہہ کرگالیاں دے رہے ہیں وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس عمران خان کولانے والے ہم خودہیں ۔ہم اگر نوازشریف کے جانے اورآصف علی زرداری کے آنے پرمٹھائیاں تقسیم نہ کرتے توآج ہمیں یہ دن کبھی دیکھنانہ پڑتا۔کفن چورسے کفن چورکاباپ توبہترتھاوہ کم ازکم مردوں کی بے حرمتی اوربے عزتی تونہیں کرتاتھاوالی بات ہے۔ہرنئے آنے والے سے پھرپہلے والاہمیں اچھالگتاہے لیکن وقت پھرگزرچکاہوتاہے۔

آج بھی کہاجارہاہے کہ ان کفن چوروں سے وہ چورنوازشریف اورڈاکوزرداری بہتربہت بہترتھے جوچوری چکاریاں توکرتے تھے لیکن کم ازکم ان غریبوں کی غربت اوربیروزگاری کامذاق تونہیں اڑاتے تھے۔موجودہ حکمرانوں نے توکفن چورکے بیٹے کی طرح ہرحدکراس اورپاس کردی ہے۔ان سے غریب محفوظ ہیں اورنہ ہی امیر۔اتنے برے حالات تونوازشریف اورآصف علی زرداری کے دورمیں بھی نہیں تھے۔

کہاجارہاہے کہ نوازشریف اورآصف علی زرداری نے ملک کودونوں ہاتھوں سے لوٹا۔یقینناًلوٹاہوگاکیونکہ اس ملک میں کوئی انسانی فرشتہ بھی لوٹ مارکے لئے ہی سیاست میں آتاہے۔اللہ کی رضاء اورخوشنودی کے لئے تواس ملک میں کوئی سانپ بھی نہیں مارتا۔پھرجوانتخابی مہم اورتشہیرپرلاکھوں اورکروڑوں روپے لگائیں وہ پھربھلاملک اورقوم کوکیسے نہیں لوٹیں گے۔

۔؟باقی ممالک کاتونہیں پتہ۔لیکن ہمارے اس ملک میں سیاست کاتوبنیادی مقصدہی لوٹ مارہے۔یہاں کوئی شریف ہویازرداری،کوئی اناڑی ہویاکھلاڑی،نمازی ہویاکوئی حاجی،بدمعاش ہویاکوئی بدنام۔سب سیاست میں آتے ہی لوٹ مارکے لئے ہیں۔جن کولوٹ مارکی عادت نہ ہویاجوملک وقوم کولوٹنے کے گرنہیں جانتے ہوں وہ تو ایک دوالیکشن لڑنے کے بعدخود آرام اورچپکے سے سائیڈپرہوجاتے ہیں۔

ہمارے علاقے جوزبٹگرام میں ایک صاحب تھے۔اب پتہ نہیں کہ کہاں ہیں۔ انہیں کوئی اسی طرح گھسیٹ کرسیاست میں لائے۔ممبری کاشوق توہرکسی کوہوتاہے پھراگرکسی کی تھوڑی سی ذہن سازی کی جائے تویہ شوق ویسے ہی پروان چڑھنے لگتاہے۔اس صاحب کوبھی کسی نے دن کی روشنی میں کئی خواب اورسپنے دکھائے۔سوان خوابوں اورسپنوں کولیکروہ سیاست کے میدان میں کودے۔

سادگی،شرافت اورایمانداری کے سائے تلے ایک دوالیکشن لڑنے کے بعدجب آنکھیں کھلیں توپتہ چلاکہ سیاست عام شریفوں کاکام نہیں۔اس کے لئے تورائیونڈاورلاڑکانہ جیسی زرخیزمٹی سے کوئی خاص شریف اورزرداری جنم لیتے ہیں ۔پھرخودآرام سے سائیڈپرہوگئے۔سالوں بعدپھرجب میری ان سے ملاقات ہوئی تومیں نے گمنامی کی وجہ پوچھی ۔کہنے لگے جوزوی صاحب ۔یہ سیاست ہمارے جیسے شریفوں کاکھیل نہیں۔

میں نے صرف ایک دوالیکشن لڑے مگر گھرمیں کام کی کوئی چیزبچی نہیں۔مزیدایک دوالیکشن اگر لڑتاتوشائدسڑک پرآجاتا۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ برسوں سے الیکشن لڑنے اورسیاست سیاست کھیلنے والے شریفوں اورزرداریوں نے اس ملک کولوٹاہوگاواقعی جی بھرکرلوٹاہوگا۔ہم ہرگزیہ نہیں کہتے کہ سابق حکمرانوں نے اس ملک اورقوم کونہیں لوٹا۔لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ آج کے ان ایمانداروں نے محض دوڈھائی سالوں کے دوران جس طرح اس ملک اورقوم کولوٹااتناتوان خاندانی چوروں اورڈاکوؤں نے بیس اورتیس سالوں میں بھی نہیں لوٹاہوگا۔

ادویات کی قیمتوں میں ڈبل وٹرپل اضافہ اورباقی مہنگائی توالگ۔ صرف بجلی اورگیس بلوں کی مدمیں ان دوسالوں کے دوران جس طرح عوام کولوٹاگیاتاریخ میں اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔پہلے والے حکمران غریبوں کاصرف پسینہ نچوڑتے تھے ان ایمانداروں نے توپسینے کے ساتھ غریبوں اورامیروں کاخون بھی نچوڑدیاہے لیکن اس کے باوجودملک کے حالات بدسے بدترہوگئے ہیں ۔

معلوم نہیں کہ یہ پیسہ آخرجاتاکہاں ہے۔۔؟ترقیاتی کام اس حکومت میں کوئی ہوئے نہیں۔نہ کوئی موٹروے بنی نہ کوئی سکول،کالج اوریونیورسٹی۔بلکہ پہلے سے منظورشدہ کئی منصوبے بھی اس حکومت نے ختم کرادیئے ہیں۔اس کے باوجودپوچھاجائے توجواب ملتاہے کہ خزانہ خالی ہے۔ملک میں اگرچوروں اورڈاکوؤں نہیں ایمانداروں کی حکمرانی ہے توسوال پھریہ پیداہوتاہے کہ یہ پیسہ آخرجاتاکہاں ہے۔

۔؟اورقرضوں پرقرضے لینے کے بعدیہ خزانہ کیسے خالی ہے۔۔؟چوروں اورڈاکوؤں کی لوٹ ماراورچوری چکاری کے قصے اورکہانیاں تو بہت سنی تھیں مگراب کی بارایمانداروں کی چوری اورچکاریوں کے کارنامے بھی دیکھ لئے۔یہ حکمران واقعی ہم جیسوں کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔پہلے والے ہوں یابعدوالے۔حقیقت میں یہ سارے ایک جیسے ہوتے ہیں۔نہ پہلے والے اچھے ہوتے ہیں اورنہ ہی بعدوالے نیک۔

یہ سب ایک ہی لوہے کے بنے ہوئے ہیں ۔ہماری دعاؤں ،التجاؤں اورامنگوں سے آج تک ان میں کوئی لوہانہ موم ہوااورنہ ہی آئندہ کبھی ہوگا۔ان حکمرانوں کے لئے توہم نے بہت دعائیں مانگیں۔ان کی بارات آنے پر مٹھائیاں بھی ہم نے بہت تقسیم کیں۔لیکن حالات ہمارے پھربھی نہیں بدلے۔اب اگرہم نے خودکونہیں بدلاتوپھرنواز،زرداری اورعمران کی صورت میں یہ عذاب ہم پراسی طرح آتے رہیں گے۔آخرکب تک ہم ان عذابوں پرمٹھائیاں تقسیم اورجشن مناتے رہیں گے۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :