عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی داستان

ہفتہ 11 جولائی 2020

Umer Nawaz

عمر نواز

جب سے عزیر بلوچ نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی پبلک ہوئی ہیں ملک میں سوالوں کا ایک اور پنڈورابکس کھل گیا ہے وفاقی وزیر علی زیدی کہتے ہیں جو جے آئی ٹی رپوٹ سندھ حکومت نے پبلک کی ہے وہ رپوٹ جھوٹی ہے جو جے آئی ٹی کی رپوٹ ان کے پاس ہے وہ رپوٹ اصلی ہے اب یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سی رپوٹ اصلی ہے اور کون سی رپوٹ نکلی اگر آپ نے اس ملک میں کوئی جے آئی  ٹی کی رپوٹ پبلک کر ہی دی ہے تو عوام کو بھی سچ سے آگاہ ہونے دو کہ کس طرح عزیر بلوچ نے اس  روشنیوں کے شہر کراچی کا امن تباہ کیا اور معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ جب یہ رپوٹ مکمل ہوئی تھی تب یہ کیوں نہیں پبلک کی گئی تھی اسی وقت یہ رپوٹ پبلک کردی جاتی اور عوام کو حقائق معلوم ہوجاتے کے کن کن لوگوں نے اور کس کس کے ساتھ مل کر پاکستان کی معاشی حب کراچی کے امن کے ساتھ کھلواڑکیا گیا اورعوام ان چہروں کو پہچان جاتی اور ان کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی اور آنے والے وقت اور کریمنل لوگوں کے لیے ان کو مثال بنایا جاتا تاکہ کوئی جرم کرنے کا سوچے بھی نا لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے جب کوئی سانحہ ہوجائے یا کوئی طاقت ور کوئی جرم کرے تو اس کے اوپر یا تو کوئی کمیشن بنا دیاجاتا ہے یا جے آئی ٹی تاکہ اس طرح معاملہ رفع دفع ہوجائے تاکہ عوام کا دھیان کسی اور طرف ہوجائے اور اس واقعہ کو عوام بھول جائے چند مہینے تک کمیشن جب تفتیش مکمل کرتا ہے اس کے بعد اس کو پبلک کرنے کی بجائے کہیں بہت ہی نیچے دبا دیا جاتا ہے تاکہ طاقت ور کو سزا ہی نامل سکے اور ناہی عوام کو اس کی اصلیت معلوم ہوسکے پاکستان میں بہت دفع کمیشن کمیشن کھیلا گیا ہے یہاں پے ایک سوال اور بھی اٹھتا ہے جب عزیر بلوچ یہ سب گھنونے کیھل کیھل رہا تھا اس وقت ہمارے ادارے کہاں تھا وہ اس وقت کیا کرہے تھے اس کو اسی وقت کیوں نہیں راکا گیا تھا اور قانون کے کھٹیرے میں کیوں کھڑا نہیں کیا گیا تھا اس سے تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ تمام ادارے بھی اس کے ساتھ ملے ہوئے تھے یا پھر وہ اداروں سے زیادہ طاقت ور تھا اس ملک میں قانون نافز کرنے والے کتنے ادارے ہیں اور کتنی ہماری انٹیلیجنس ایجنسیاں ہیں وہ اس وقت کیا کررہے تھا جب یہ قانون توڑ رہا تھا عزیر بلوچ نے تو بلکہ ان سب لوگوں کو ایکسپوز کردیا ہے وہ جو ریاست کی حفاظت پے معمور تھے وہ تو لمبی تان کر گہری نیند سو رہے تھے عزیر بلوچ نے تو ان کے چہروں سے بلکہ پردہ حٹا دیا ہے اب عزیر بلوچ کے ساتھ اس کے جو سہولت کار تھے ان کو بھی سزا دی جائے اور عوام کے سامنے سب کی رپوٹ لائی جائے تاکہ عوام کو حقیقت معلوم ہوسکے کہ اس ملک میں کیا کیا ہوتاہے اب وفاقی اور صوبائی حکومت پر بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر کوئی کریمنل قانون کی گرفت میں آیا ہے تو اسے سزا ملنے دو اس کے اوپر کھیل کیھلنا بند کرو اپنے سیاسی مقاصد بعد میں پورے کرلینا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :