جب سے عزیر بلوچ نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی پبلک ہوئی ہیں ملک میں سوالوں کا ایک اور پنڈورابکس کھل گیا ہے وفاقی وزیر علی زیدی کہتے ہیں جو جے آئی ٹی رپوٹ سندھ حکومت نے پبلک کی ہے وہ رپوٹ جھوٹی ہے جو جے آئی ٹی کی رپوٹ ان کے پاس ہے وہ رپوٹ اصلی ہے اب یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سی رپوٹ اصلی ہے اور کون سی رپوٹ نکلی اگر آپ نے اس ملک میں کوئی جے آئی ٹی کی رپوٹ پبلک کر ہی دی ہے تو عوام کو بھی سچ سے آگاہ ہونے دو کہ کس طرح عزیر بلوچ نے اس روشنیوں کے شہر کراچی کا امن تباہ کیا اور معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ جب یہ رپوٹ مکمل ہوئی تھی تب یہ کیوں نہیں پبلک کی گئی تھی اسی وقت یہ رپوٹ پبلک کردی جاتی اور عوام کو حقائق معلوم ہوجاتے کے کن کن لوگوں نے اور کس کس کے ساتھ مل کر پاکستان کی معاشی حب کراچی کے امن کے ساتھ کھلواڑکیا گیا اورعوام ان چہروں کو پہچان جاتی اور ان کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی اور آنے والے وقت اور کریمنل لوگوں کے لیے ان کو مثال بنایا جاتا تاکہ کوئی جرم کرنے کا سوچے بھی نا لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے جب کوئی سانحہ ہوجائے یا کوئی طاقت ور کوئی جرم کرے تو اس کے اوپر یا تو کوئی کمیشن بنا دیاجاتا ہے یا جے آئی ٹی تاکہ اس طرح معاملہ رفع دفع ہوجائے تاکہ عوام کا دھیان کسی اور طرف ہوجائے اور اس واقعہ کو عوام بھول جائے چند مہینے تک کمیشن جب تفتیش مکمل کرتا ہے اس کے بعد اس کو پبلک کرنے کی بجائے کہیں بہت ہی نیچے دبا دیا جاتا ہے تاکہ طاقت ور کو سزا ہی نامل سکے اور ناہی عوام کو اس کی اصلیت معلوم ہوسکے پاکستان میں بہت دفع کمیشن کمیشن کھیلا گیا ہے یہاں پے ایک سوال اور بھی اٹھتا ہے جب عزیر بلوچ یہ سب گھنونے کیھل کیھل رہا تھا اس وقت ہمارے ادارے کہاں تھا وہ اس وقت کیا کرہے تھے اس کو اسی وقت کیوں نہیں راکا گیا تھا اور قانون کے کھٹیرے میں کیوں کھڑا نہیں کیا گیا تھا اس سے تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ تمام ادارے بھی اس کے ساتھ ملے ہوئے تھے یا پھر وہ اداروں سے زیادہ طاقت ور تھا اس ملک میں قانون نافز کرنے والے کتنے ادارے ہیں اور کتنی ہماری انٹیلیجنس ایجنسیاں ہیں وہ اس وقت کیا کررہے تھا جب یہ قانون توڑ رہا تھا عزیر بلوچ نے تو بلکہ ان سب لوگوں کو ایکسپوز کردیا ہے وہ جو ریاست کی حفاظت پے معمور تھے وہ تو لمبی تان کر گہری نیند سو رہے تھے عزیر بلوچ نے تو ان کے چہروں سے بلکہ پردہ حٹا دیا ہے اب عزیر بلوچ کے ساتھ اس کے جو سہولت کار تھے ان کو بھی سزا دی جائے اور عوام کے سامنے سب کی رپوٹ لائی جائے تاکہ عوام کو حقیقت معلوم ہوسکے کہ اس ملک میں کیا کیا ہوتاہے اب وفاقی اور صوبائی حکومت پر بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر کوئی کریمنل قانون کی گرفت میں آیا ہے تو اسے سزا ملنے دو اس کے اوپر کھیل کیھلنا بند کرو اپنے سیاسی مقاصد بعد میں پورے کرلینا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔