رشوت کا ناسور اور ہماری اخلاقی ذمہ داری

جمعرات 4 جون 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

بھرے بازار میں ایک خلقت جمع تھی ، لوگ دوڑ دوڑ کرتماشہ دیکھنے جمع ہو رہے تھے درمیان میں ایک سفید رنگ کی ڈبل کیبن سرکاری نمبر پلیٹ کے ساتھ کھڑی تھی اور ایک بڑے صاحب قریب ہی کھڑے تھے ان کے اردگرد ان کے محافظوں کی فوج کھڑی تھی اور وہ بلاجھجھک کمال بے خوفی سے سامنے کھڑے مجبور دکاندار سے کہہ رہے تھے کہ اگر گرفتاری سے بچنا ہے تو شام تک ایک لاکھ روپیہ آفس پہنچا دینا۔

یہ بات انہوں نے اتنی زور سے کہی تھی کہ سو گز دور کھڑے لوگوں نے بھی بالکل صاف صاف سنی اور اتنی ہی دور سے مووی بنانے والے کی کلپ میں صاف صاف ریکارڈ ہوگئی۔ یہ ہماری معاشرتی بدحالی کا ایک نمونہ تھا، ہمارا پورا کا پورا نظام رشوت اور بد اعمالیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اور اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے اعلٰی افسران بھی سرعام رشوت مانگنے کو معیوب نہیں سمجھتے۔

(جاری ہے)

رشوت کا ناسور ہمارے معاشرے کی رگ رگ میں پھیل گیا ہے، اور لگتا یہ ہے کہ آج کوئی بھی کام رشوت کے بغیر ممکن نہیں۔
رشوت کے عمومی دو طریقے رائج ہیں، ایک زبردستی لینے والا اور دوسرا بغیر مانگے پیشکش کرنے والا۔
 اس حوالے میں ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ : رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں، امت کی کمال غمخواری اور محبت کے باوجود اتنی سخت حدیث کا ہونا ہی اس امر کی دلیل ہے کہ یہ ایک نہایت ہی قبیح اور ناپسندیدہ فعل ہے۔

جو جہنم میں لے جانے کا موجب ہوسکتا ہے۔ اور معاشرے میں برائی کی جڑ بن کر پورے معاشرے کی زندگی تباہ و برباد کر سکتا ہے، لوگوں کا جینا اجیرن کر سکتا ہے۔
ہمارے ہاں جو بھی زرا سا طاقتور یا صاحب حیثیت ہے وہ رشوت کے بغیر بات ہی نہیں کرتا۔ یعنی چپڑاسی سے لیکر وزیر سفیر تک سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ جیسا کہ حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں تو ان حالات میں جو نہ دینا چاہے تو وہ اپنے جائز کام بھی نہیں کروا سکتا۔

وہ سرکاری اداروں کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک جاتا ہے مگر رشوت کے بغیر کام نہیں کروا سکتا، سرکاری اداروں کی اکثریت اس وبا میں مبتلا ہیں اور وہاں پورے زور و شور سے رشوت کا کاروبار چلتا ہے اور گندہ ہے پر دھندہ ہے یہ کے ڈائیلاگ کے مصداق عمل ہوتا نظر آتا ہے۔
ٓآپ اگر ہمارے بیان کی سچائی آزمانا چاہیں تو کسی بھی سرکاری ادارے میں اپنا کوئی جائز کام لیکر چلے جائیں، پھر دیکھیں کہ وہاں کے ملازمین آپ کو کیسا فٹبال بناتے ہیں، وہ شکل ہی سے مرغا بھانپ لیتے ہیں، اور جو کوئی تھوڑی بہت مذاحمت کرے اس کو وہ چکر لگواتے ہیں کہ اسے بھی چھٹی کا دودھ یاد آجاتا ہے، اور عام طور پر ہار مانتے ہی بنتی ہے، تب وہ ملازم فخر سے کہتا کے صاحب ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے، مگر آپ مان ہی نہیں رہے تھے۔

خواہ مخواہ اپنا اور ہمارا وقت برباد کیا۔
دراصل ہمارے معاشرے میں رشوت کا بنیادی تصور ہی بدل گیا ہے، اور لوگ اسے اب برائی کے زمرے میں گنتے ہی نہیں ہیں، لوگوں نے اس کے الگ الگ نام رکھے ہوئے ہیں ، کوئی اسے بخشش کہتا ہے، تو کوئی اسے چائے پانی کہتا ہے، تو کوئی اسے محنتانہ ہی کہہ لیتا ہے۔ کچھ تو اسے ھذا من فضل ربّی تک کہتے ہیں۔ اب جب ایک بری چیز کا تصور ہی بدل گیا ہو تو لوگ اسے برا کیسے سمجھیں، لہذا معاشرے میں خوب پھل پھول رہی ہے، اور خوب رشوت ستانی کا بازار گرم ہے۔


لوگوں نے اس کا تصور چاہے جو بھی بنا لیا ہو، مگر برائی تو برائی ہی رہتی ہے اگر کسی بلّی کا نام شیر رکھ دیا جائے تو وہ شیر نہیں بن جاتی اسی طرح اگر کسی برائی کو کوئی بھی اچھا سا نام دے دینے سے اس کی برائی کی ماہیت نہیں بدلتی۔ جہاں اور بہت سی اخلاقی کمزوریاں ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہیں وہیں اس برائیوں کی ماں یعنی رشوت نے خوب نمو پائی ہے اور ہمارے معاشرتی نظام کو بہت گھمبیر نقصان پہنچایا ہے، اگر ہم سرسری طور پر بھی حالات کا مطالعہ کریں تو عام شہری کی زندگی کی آدھے سے زیادہ مشکلات کی وجہ معاشرے میں رشوت کے رجحان کا پنپنا ہے۔


ہم اگر سرسری طور پر ہی اپنے اردگرد کے حالات کا جائزہ لیں تو خود ہی کو بہت سارے رشوت سے وابستہ تکلیف دہ واقعات کا گواہ پائیں گے، شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو ان حالات کا شکار نا ہوا ہوگا۔ مثلاً دوران سفر ٹریفک پولیس سے مڈبھیڑ ہوجانے کی پریشانی ، سرکاری دفاتر میں جائز کام کا بھی نہ ہوپانا، یہاں تک کے مستحق طلباء کو اسکولوں میں داخلوں کا نہ مل پانا، اعلٰی تعلیمی ریکارڈ رکھنے والے طالب علموں کا سرکاری یونورسٹیز میں داخلے سے محروم رہ جانا، ناجائز تجاوزات کا پروان چڑھ جانا، جہاں تین منزل بنانا ممنوع ہو وہاں چار چار منزلوں کا بن جانا، لوگوں کا انصاف کے لئے مدتوں دربدر ٹھوکریں کھانا، پانی، گیس اور بجلی کے کنکشن کا نہ ہوپانا۔

یہ سب عوامل کی مل جل کر ایک مقام پر تان ٹوٹتی ہے، یعنی رشوت پر۔ یہ جتنے بھی معاملات اوپر ذکر کئے گئے ہیں اگر مشکل ہیں تو صرف ان لوگوں کیلئے جو رشوت دینا نہیں چاہتے یا دینے کی حیثیت نہیں رکھتے ورنہ جو لوگ اسے معیوب نہیں سمجھتے اور دینے کی اہلیت رکھتے ہیں ان کے یہ سارے کام پل بھر میں بلا حیل و حجت ہو جاتے ہیں۔ بس آخرت کی قربانی دینا پڑتی ہے۔

اس ضمن میں سرکاری ٹھیکیداری سرفہرست ہے ، شاہراہوں کی تعمیر ہو، پل اور عمارتوں کی تعمیر ہو، رشوت کے بغیر ٹھیکہ ملنا ناممکن ہے۔ اسی طرح سرکاری محکموں کی خریداری بھی بغیر کک بیک، انڈر ٹیبل پے منٹ یا رشوت کے بغیر ممکن نہیں ، جس کا نقصان عوام کو سالوں بھگتنا پڑتا ہے ظاہر ہے کہ جس نے ایک بڑی رقم رشوت کی شکل میں دی ہو، وہ پورا کام کیوں کرے گا، لہذا ہر کام گھٹیا اور کم ترین معیار پر بنا کر لیپا پوتی کردی جاتی ہے اور رشوت وصول کرنے والے کو اسے صحیح اور منظور کرنا ہی پڑتا ہے۔

جس کا آخر کار نقصان عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ تو رشوت کی وہ قسم ہے جو عمومی طور پر صاحب حیثیت لوگ اپنے اختیارات کو استعمال کرکے حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے قسم جس میں رشوت کی خود ہی آفر دی جاتی ہے وہ ہے، جس میں عموماً کمپنیز اپنے گاہکوں کو مہنگے ہوٹلز میں رہائش اور کھانے ، سودا بڑا ہو تو غیر ملکی دورے، کلبس کی ممبرشپ، مہنگے موبائل فونز اور بہت سی ایسی ہی مراعات کا بنا مانگے ہی فراہم کیا جانا شامل ہے۔


اس پورے معاملے کو بیان کرتے ہوئے اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ مذہب کو درمیان میں لائے بغیر بات کی جائے، اگر خالص دنیا داری کی نظر سے بھی دیکھیں تو بھی دنیا بھر میں ہر قوم اور ہر ملت میں رشوت ایک نہایت ہی ناپسندیدہ اور ناگوار فعل گردانا جاتا ہے۔ اور دنیا کے بیشتر ممالک میں اس پر بڑی سزائیں مقرر ہیں، مگر ہمارے ہاں معاملات جناب ضمیر جعفری صاحب کے شعر کے مصداق ہیں کہ: رشوت لے کے پھنس گیا ہے ، رشوت دے کے چھوٹ جا۔

کیونکہ ہمارے ہاں اس ضمن میں سزا و جزا کا دوسرا ہی اصول رائج ہے لہذا کوئی ڈر کوئی خوف لینے اور دینے والے دونوں کے درمیان ہے ہی نہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر کچھ انیس بیس ہوا تو بیشمار ایسے طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے جا ن بچائی جا سکتی ہے۔
ارباب اقتدار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام الناس کو اس فعل قبیحہ سے نجات دلانے کیلئے بھرپور کوششیں کریں، بظاہر یہ ناممکن لگتا ہے لیکن اگر کوئی ایک قدم بھی اس ضمن میں اٹھالیا گیا تو اس میں ترقی کی پوری امید کی جاسکتی ہے۔

حکومتی سطح پر اس امر کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ راشی اور مرتشی دونوں کیلئے سخت سزائیں ہوں اور ان پر عمل بھی ہو، تاکہ اس کام میں ملوث لوگوں میں خوف پیدا ہو اور وہ اس عمل قبیح سے رک سکیں۔ عوامی سطح پر لوگوں کو اپنے حقوق کا ادراک ہونا چاہئے، تاکہ وہ بلاخوف رشوت ستانی کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔ کاروباری اخلاقیات کے اصولوں کی باقاعدہ تیاری و ترویج کی جانی چاہئے، اور ہر سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کو اس کاروباری اخلاقیات کا سختی سے پابند بنایا جانا چاہئے۔ اور ان اصولوں سے انحراف کی صورت میں سخت سزاؤں کا اطلاق یقینی بنایا جانا چاہئے۔ شاید اس طرح ہم ایک اچھا کاروباری ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :