بے لوث باہمی تعلقات کی آبیاری

جمعرات 11 جون 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

انسان کا سب سے اہم اور دیرینہ تعلق اپنے خالق یعنی اللہ تعالٰی سے ہوتا ہے۔ یہ اپنی زات میں نہایت ہی اچھوتا خیال ہے کہ ہم اپنے خالق کی عنایات کے ہر گھڑی ہر لحظہ محتاج ہیں، مگر ہمارا خالق ہم سے کبھی بھی اپنی عنایات کا بدلا نہیں مانگتا، بس اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم ا پنے خالق کے شکرگزار بندے بنیں اور اس کی مہربانیون اور عنایات کا شکر ادا کرتے رہیں۔

اللہ فرماتے ہیں کہ اگر تم میرے شکرگزار بندے بنو گے تو میں تمیں اور زیادہ دوں گا۔ وہ بلاشبہ نہایت عظیم ، طاقتور اور کسی کا محتاج نہیں، اللہ مسبب الا سباب ہے اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، اللہ ہی نے ہمارے لئے دوست ، رشتہ دار، احباب، ہمسائے، گاؤں والے اور رفیق کار پیدا کئے تاکہ جو کام ہم اکیلے انجام نہیں دے سکتے وہ ان کی معاونت سے سر انجام دے سکیں۔

(جاری ہے)

تعلقات میں اخلاص دو طرفہ فائدے کا سبب ہوتا ہے مگر اگر تعلقات میں اخلاص نہ تو وہ پھر تعلق رہ نہیں جاتا۔ اللہ تعالٰی اپنے کلام میں بنی نوع انسانی کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ : اپنے تعلقات کو خلوص کے ذریعے مضبوطی سے قائم کرو۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان ہر حال میں رصاکارانہ طور پر نیکی کرنے کیلئے ہر گھڑی تیار رہے۔ پرخلوص تعلقات ہونے کے فوائد بہت ہی قیمتی اور دیرپا ہیں۔

یہ معاشرے کو پرامن، محترم ، مہذب اور مددگار بنانے میں بہت ہی سازگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی بہت ہی عام سی مثال سلام کرنا ہے، جب ہم کسی کو سلام کرتے ہیں تو ہمارا مطمعہ نظر دوسرے کی سلامتی ہوتی ہے، تو جواب میں ہمیں بھی سلامتی ہی کی دعا ملتی ہے۔ یعنی نیکی کا سب سے بہترین بدل نیکی ہی ہو سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح اگر آپ اپنے والدین اور ان تمام لوگوں کی عزت و احترام کرتے ہیں ان کا لحاظ مروت کرتے ہیں جنہوں نے ہماری تب مدد کی تھی جب ہم کمزور تھے اور مدد کے طلب گار تھے، یہی وہ اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ ہیں جو اللہ نے اپنی عظیم کتاب قرآن مجید مین بار بار بیان فرمائے ہیں۔


پرخلوص اور بے لوث تعلق صرف باہمی احترام، شفقت، باہمی تعاون اور حسنات کی بنیاد پر ہی قائم ہو سکتا ہے۔ پرخلوص تعلقات کیلئے ضروری ہے کہ ہر شخص دوسرے کیلئے مفید اور سودمند ہو، کوئی کسی کو دھوکہ نہ دے، کسی کو حق سے محروم نہ کرے۔ دو طرفہ باہمی عزت و احترام ، رحمدلی و ہمدردی سب کیلئے، ہر ایک کیلئے باہمی تعاون و مددگار ی، اور بے لوث خدمت و احسان اس ضمن میں بہترین عمل گنے جائیں گے۔

ایک بے لوث اور پرخلوص تعلق کے قائم کرنے کیلئے اوپر بیان کئے گئے تمام ہی اصول لازمی اور اہم ہیں اس میں حسنات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ حسن اخلاق تعلقات کی ترویج اور نشو و نما کیلئے نہایت اہم ہے۔
 چند قدرتی تعلقات کی بنیاد ہی پیار و محبت ہوتی ہے۔ جیسے والدین کا بچوں سے تعلق ہے۔ یہ خالص بے لوث تعلق ہوتا ہے، اس کی وجہ سے والدین ہمیشہ اپنی اولاد کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہتے ہیں، جو ایک قدرتی امر ہے۔

اس حوالے میں اللہ بنی نوع انسان سے فرماتے ہیں کہ اپنے ماں باپ کے احسانات کا بدلہ ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت کے ذریعے ادا کرو۔ ان کی عزت و احترام کرو، اور ان کے ساتھ نرمی اور پیار کے ساتھ پیش آؤ خاص کر جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں، اور خود کو سنبھال نہ سکتے ہوں تب تمہیں ان کے ساتھ شفقت، تمہاری انکساری اور خدمت گزاری کرنا ہوگی۔

یہی تمہارے حق میں بہتر ہوگا۔ اور اللہ سے ان کے حق میں دعا کرتے رہو، کہ یا اللہ آپ میرے ماں باپ پر ایسے ہی رحم و کرم فرمائیں جیسے انہوں نے ہم پر فرمایا تھا جب ہم بالکل چھوٹے سے اور بے بس تھے۔ لوگوں سے ہمارے تعلقات کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک استاد اور شاگرد کا تعلق، کاہک اور دکاندار کا تعلق، ملازم اور مالک یا آجر کا تعلق۔

شہریوں کا آپس میں تعلق، ہم جماعت طالب علموں کا تعلق، ہمسائیگی ، یہاں تک کے ایک ساتھ کھڑے ہوئے شخص کا تعلق۔ ان سب کے تناظر میں سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ باہمی تعلق کی بنیا د باہمی عزت و احترام، شفقت، تعاون اور سب سے اہم حسن سلوک ہے ۔ مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کبھی کبھی ہم اپنے حقیقی تعلقات کو غیر حقیقی یا وقتی تعلقات کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔

اسطرح کے تعلقات استوار کرتے ہوئے ہمارا مطمعہ نظر ذاتی خرض اور خاص ضرورت ہوتی ہے۔ جس کا تعلق پیسے سے بھی ہو سکتا ہے اور سماجی بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طورپر ایک کاروباری شخص تمام گاہکوں کو یکساں توجہ اور عزت دینے کے بجائے صرف ان گاہکوں کو اہمیت دیتا ہے جو اس کے ساتھ بڑا کاربار کرتے ہیں۔ اور چھوٹے گاہکوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوتا، استاد ان طالب علموں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جن کے والدین انہیں تحفے تحائف دیتے رہتے ہیں۔

بالکل اسی طرح ڈاکٹرز اپنے پرائیوٹ کلینک پر مریضوں کو زیادہ توجہ اور انہماک سے دیکھتے ہیں۔ عمومی طور پر آجر کا رویہ اعلی افسران اور چھوٹے ملازمین کے ساتھ مختلف ہوتا ہے ، اسی طرح ہم اپنے ہمسائے کے ساتھ برتاؤ کر رہے ہوتے ہیں اگر وہ کوئی بگ شوٹ ہو تو ہمارا برتاؤ کچھ اور ہوتا ہے اور اگر کوئی عام آدمی ہمارا ہمسایہ ہو تو ہمارا برتاؤ کچھ اور ہوتا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ناپائیدار تعلقات کسی بھی شخص کو محض وقتی فائیدہ پہنچا سکتے ہیں۔ جیسا کے ایک جاپانی کہاوت "KITA"کا مطلب ہے کہ اگر ایک طاقتور شخص نے کسی پر ظلم کیا یا بدتمیزی کی تو وہ پھر اس بات کیلئے تیار رہے کہ دوسرا بھی جب طاقت حاصل کرلے گا تو وہ بھی اس سے زیادہ اس کے ساتھ برا سلوک کرے گا۔
موجودہ مادہ پرست دور میں ہمارے زیادہ تر تعلقات کی بنیاد لین دین یا کاروباری ہو کر رہ گئی ہے۔

جس نے تعلقات میں خلوص ، احترام، ہمدردی، تعاون اور احسان کو گہنا سا دیا ہے۔ اس روش نے مجموعی طور پر تعلقات میں موجود حسن اور اخلاص کو مٹا دیا ہے۔ اور اس کی جگہ بے حسی، نفرت، تقابل اور بے رحمی نے لے لی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہر تعلق کے پیچھے لوگوں کی اپنی ذاتی غرض اور ذاتی مقاصد ہوتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اب بھی اپنی گمشدہ میراث کو دوبارہ حاصل کرلیں اور اپنی زندگی کو باہمی احترام، رحمدلی، تعاون اور خلوص سے مزین کرلیں۔ ہمارے دلوں میں سب کیلئے محبت، خلوص اور ہم آہنگی ہو۔ اللہ کریم ہمیں ہمت و توفیق عطاء فرمائیں کہ ہم اپنی زندگی اللہ کے حکم کے مطابق ڈھال سکیں اور اللہ کے رحم و کرم کے مستحق ہو سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :