معاشرے میں خود غرضی کے بڑھتے ہوئے رجحانات

پیر 15 جون 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

ایک چھٹی والے دن حسب معمول میں گوشت والے کی دکان پر اپنی عرضی کے سنے جانے کے انتظار میں کھڑا تھا، یہ دکان لب سڑک ہے جو بازار کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہوئی گزرتی ہے۔ یہ دو طرفہ سڑک ہے جس پر ٹریفک دونوں جانب رواں دواں رہتا ہے، کہ اچانک ایک نیلے رنگ کی بڑی سی چمکتی ہوئی کار نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرلی، یہ ایک خاصی مہنگی امپورٹڈ کار تھی، میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ کار دکان کے سامنے آ کر رک گئی، اور چلانے والنے نے کار قریب قریب بیچ روڈ پر پارک کردی۔

گاڑی سے اترنے والے ایک جانے پہچانے صاحب تھے ، بظاہر وہ بڑے مذہبی اور سلیقے والے لگتے تھے آج بھی انہوں نے عربی جبہ مع ٹوپی زیب تن کیا ہوا تھا۔ اگر وہ چاہتے تو گاڑی زرا سی آگے بڑھا کر فٹ پاتھ کے قریب پارک کر سکتے تھے مگر انہوں نے اس بات کو سوچنے کی تکلیف ہی گوارہ نہ کی کہ ان کی اس حرکت سے کتنے لوگ پریشان ہوں گے۔

(جاری ہے)

میری توقع کے مطابق کچھ ہی دیر میں وہاں ٹریفک جام ہو گیا اور لوگ نیلی گاڑی والے کو غائبانہ گالیاں دینے لگے۔

اس دوران میں نے ایسا ظاہر کیا جیسے میں نے انہیں اس گاڑی سے اترتے ہوئے دیکھا ہی نہیں ہے ، کیونکہ وہ میرے پاس ہی کھڑے تھے تو میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ خلق خدا کس کو گالیاں اور کوسنے دے رہی ، تو انہوں نے کمال معصومیت سے فرمایا کہ نہیں، تو میں نے ان سے کہا کہ یہ اس نیلی گاڑی والے بیہودہ شخص کو گالیاں دے رہے ہیں کہ گاڑی تو لے لی مگر پارک کرنے کا سلیقہ نہیں آیا۔

مگر کمال حیرت سے انہوں نے بات کو سنی ان سنی کیا اور میرے جانے تک مزے سے وہیں کھڑے رہے ۔
گو کہ یہ کوئی خاص بات نہ تھی مگر میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ من حیث القوم ہم ایک بہت ہی تکلیف دہ روش کا شکار ہیں، اور وہ ہے صرف اپنا بھلا اور اپنی آسانی کا خیال رکھنا۔ ہم سب ان معاملات سے روز ہی دوچار ہوتے ہیں جس میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی آپ کے پیر کچل کر آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

چھوٹے یا بڑے معاملات میں آپ کا حق مار رہا ہوتا ہے۔ گھر سے لیکر دفتر، اسکول سے لیکر یونیورسٹی اور گلی محلہ سے لے کر شہروں تک ہم سب اس علت کا بری طرح شکار ہیں، جس کی وجہ سے بڑی بڑی ناانصافیاں جنم لے رہی ہیں، لوگ بڑی بڑی پریشانیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور ایک عجیب نفسا نفسی کی کیفیت سب پر طاری ہے، لوگ ایک دوسرے کی چاہنے کے باجود مدد کرنے سے کتراتے ہیں۔


خود غرضی کو ہم کچھ یوں بیان کر سکتے ہیں کہ: کسی بھی انسان کا خصوصی طور پر ضرورت سے زیادہ صرف اپنے مفادات ، اپنی خوشی اور اپنی بھلائی کے متعلق سوچنا اور عمل کرنا خود غرضی کہلائے گا۔ یہ ایثار کی ضد بھی کہی جا سکتی ہے۔ یعنی دوسروں کے حقوق کا لحاظ نہ رکھنا، اپنے معاملات کو دوسروں کے معاملات پر ترجیح دینا ، بلکہ اگر موقع ملے تو دوسروں کے حقوق کو اگر پامال کر نا یا غصب کرنا پڑے تو بھی گریز نہ کرنا ۔


خودغرضی ایک سوچ ایک روئیے کا نام ہے، جس میں انسان صرف اپنے فائدے کے لئے سوچتا ہے، اس بات کا خیال کئے بغیر کے اس کے خودغرضانہ رویئے کی وجہ سے دوسروں کو کتنی تکلیف اٹھانا پڑے گی۔ ہر انسان تھوڑا بہت خودغرض ہوسکتا ہے ، مگر عمومی طور پر اس سے دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچتی۔
مگر ہمارا معاشرہ تو پورا کا پورا ہی اس وباء کا شکار ہے اور سر تک اس دلدل میں دھنسا ہوا ہے، معاملہ کوئی بھی ہو، خود غرض اپنا حصہ نکال ہی لیتا ہے، مثال کے طور پر موجودہ حالات کو ہی لے لیجئے، کرونا کی وباء کا فائدہ اٹھا کر ادویات مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہیں۔

شرمندگی اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ لوگ ، ڈاکٹرز اور بعض ہسپتال تک پلازمہ نہایت مہنگے داموں فروخت کرنے میں ملوث ہیں، یہ خودغرضی کی بدتریں مثال گنی جا سکتی ہے۔ ساتھ ساتھ ملک کے بڑے بڑے نامی گرامی ہسپتال نے کرونا کی وباء کا خودغرضی کے ذریعے یہ توڑ نکالا کہ انہوں نے لاکھوں روپے کے پیکیج متعارف کرادئیے ہیں اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔

انہیں معلوم ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کے جان کی کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر تیار ہوجائیں گے، یہ خودغرضی اور ابن الوقتی کی بدترین مثال ہے، جو ہمارے درمیان خوب پھل پھول رہی ہے۔
ہم جن معاملات پر پہلے کڑھا کرتے تھے وہ تو اب بالکل ہی بیکار اور بہت کم تکلیف دہ لگتے ہیں۔ جیسے کہ پارکنگ میں آپ کی گاڑی کو بلاک کر کے چلے جانا، آپ کی جگہ پر گاڑی کھڑی کر کے چلے جانا، پڑوسی کی پانی کی لائن پر والو لگا دینا۔

ہمسائے کے گھر کے آگے اپنا کچرا پھینک دینا۔ دوسروں کے میٹر میں تار لگا کر بجلی چوری کرلینا معمول کی بات ہے۔
یہ تو بہت ہی عام ہے کہ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جائے۔ لہذا اسکول کے داخلے کا معاملہ ہو یا ہسپتال میں داخلے کا، خودغرضی یہاں بھی جز و لازم کی طرح موجود ہوتا ہے، اب چاہے بچے کی زندگی خراب ہو یا مریض جان سے جائے اگر آپ سامنے موجود خودغرضی کے عفریت کا پیٹ نہیں بھر سکتے تو پھر مایو سی ہی آپ کا مقدر ہوگی۔


کیونکہ خودغرض انسان صرف اپنی ذات سے پیار کرتا ہے لہذا اسے دوسروں کی تکلیف و پریشانی کا احساس بھی نہیں ہوتا، نہ وہ کبھی اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے نہ اپنی انا اپنی ذات کے آگے کسی رشتے کسی تعلق کو گردانتا ہے۔ خود غرض انسان ہر وقت دوسروں کی ناکامی اور پریشانی کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ وہ چاہے عام خانگی تعلقات ہوں یا دفتری یا پیشہ ورانہ معاملات ، خودغرض انسان صرف اور صرف اپنا بھلا اپنی خیر چاہتا ہے۔


ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر انسان خوش اخلاقی اور ایثار کو اپنا شعار بنا لے اور اپنے حلقہ احباب میں اس عمل کو اجاگر کرے اور اس کی ترویج کرے، خود غرضی کی نفی صرف عملی اقدامات سے ہی ہو سکتی ہے، ہمیں خود معاشرے میں ایثار کی قربانی کی اور روادری کی مثال قائم کرنا ہوگی، گو کہ یہ کام آسان نہیں مگر مل کر کوشش کی جائے تو بڑی سے بڑی راہ کی رکاوٹ ہٹائی جا سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :