چائے پانی

اتوار 11 اکتوبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

دنیا اپنی رنگینی اور عجیب و غریب روایات کی وجہ سے ہمیشہ ہی لوگوں کیلئے تجسس و استعجاب کا سبب رہی ہے، ایک قوم یا قبیلے کی روایات دوسرے کیلئے معمہ بنی رہتی ہیں، جیسے کہ اسپین کی بل فائٹنگ (Bullfighting) ہزاروں سال سے دوسری اقوام کو حیرت میں ڈالے دے رہی ہے، بالکل اسی طرح مرکھنے بیلوں کے سامنے دوڑنا Running of the bulls بھی اسپین کے لوگوں کا نہایت ہی پسنددیدہ مشغلہ ہے ، جسے دوسری اقوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کوئی کھیل ہے۔

؟ رسم ہے ؟ یا روایت، کیوں کہ جس جزبے اور جوش و خروش سے پوری اسپینش قوم بیلوں کے آگے دوڑتی ہے تو لگتا ہے جیسے یہ کوئی مذہبی تہوار ہے۔
ایسی ہی ایک خوبصورت روایت ہمارے ہاں بھی موجود ہے جسے چائے پانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، غالب خیال یہی ہے کہ اس کا بنیادی تعلق مہمان نوازی سے ہے کہ جب کوئی کسی کے گھر مہمان بن کر جاتا تھا تو اس کی خاطر مدارات کی جاتی تھی اور چائے پانی کو پوچھا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

روایات کی ابتداء کچھ بھی ہو مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ وقت ان کی شکل ضرور بدل دیتا ہے، بالکل اسی طرح ہمارے ہاں موجود چائے پانی کی روایت بھی بدل گئی ہے اب جو عام زیر عمل ہے اس کا مہمان نوازی سے دو ر کا بھی واسطہ نہیں بلکہ وہ تو رشوت لینے کا طریقہ رائج الوقت ہے۔
یقینا گزرے وقتوں میں جب کوئی میزبان مہمان سے چائے پانی کو پوچھتا ہوگا تو مہما ن کو احساس طمانیت ہوتا ہوگا، جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس پیغام کے معانی و مطالب یکسر بدل گئے ہیں اب چائے پانی کوئی غیر رسمی میزبانی کا طریقہ نہیں بلکہ باقاعدہ کثیرا لمطالب پیغام بن کر رہ گیا ہے، جب کوئی سرکاری اہلکار یا اس کا نمائندہ چائے پانی کی بات کرے تو بیچارے مہمان کی رگوں میں خون جمنے لگتا ہے۔


عوامی خدمت کے سرکاری دفاتر میں چائے پانی کی اسطلاح سب سے زیادہ عام اور رائج ہے، سرکاری ہسپتال سے میت لے جانے سے ڈکیتی کی واردات لکھانے تک سائل کو ہر مرحلے پر چائے اور پانی کے سیلاب سے ڈوب ڈوب کر ابھرنا پڑتا ہے۔ ورنہ بیچارہ سائل چائے کی استعمال شدہ پتی کی طرح ایک طرف پھینک دیا جاتا ہے۔ چائے پانی کے بھی مختلف مدارج ہیں جو نلکے کے پانی اور ڈھابے کی چائے سے شروع ہوکر پانچ ستاروں والی ہوٹل کی چائے اور درآمد شدہ بوتل کے پانی تک جاسکتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو کھانے سے بھی مہنگی چائے پانی پڑ جاتی ہے۔


سرکاری دفاتر میں شاید ہی کوئی چائے پانی سے شغف نہ رکھتا ہو، یہ لت چپڑاسی سے لیکر ٹھنڈے کمرے میں بیٹھے بڑے صاحب تک اور صاحب سے لیکر وزیر تک سب کو یکساں لگی ہوئی ہے۔ لہذا ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق مظلوموں سے چائے پانی کشید کر رہا ہے۔
آپ خوشی خوشی بچوں کو لیکر کہیں تفریح کیلئے نکلے، گلی مڑتے ہی سفید کپڑوں میں ملبوس ایک نہایت ہی بے ضرر نظر آنے والی ہستی آپ کا راستہ روک لے گی، آپ ڈرتے ڈرتے پوچھتے ہیں کہ جناب میری خطا کیا ہے؟ تو جواب آئے گا کہ آپ نے سگنل توڑا ہے چالان ہوگا، آپ کہتے ہیں جناب یہان تو دور دور تک کوئی سگنل ہی نہیں تو وہ فرمائیں گے کہ اچھا تو جناب فیملی کے ساتھ تفریح کیلئے جا رہے ہیں ، ہم بھی تو آپ کے بھائی ہیں آپ وہاں کھائیں گے پئیں گے مزے اڑائیں گے کچھ چائے پانی ہمیں بھی دے دیں۔

یہ سسٹم کا چائے پانی وصولی کا سب سے سادہ اور مہذب طریقہ ہے۔ ورنہ چائے پانی وصولی کے ایسے ایسے چیمپئن موجود ہیں کہ سائل کی ٹانگ سے بم باندھ کر وصولی کرلیتے ہیں۔
یہ طرز عمل کچھ اتنا مقبول ہوا ہے کہ معاشرے میں ہر سطح پر لوگ چائے پانی وصولی پر لگے ہوئے ہیں، جس کا جہاں جیسا داؤ چل رہا ہے لگا رہا ہے، مثلا آپ ہوٹل میں کھانا کھانے گئے، ویٹر ضرور TIPلے گا یہ اس کا چائے پانی ہے، ورنہ آپ کو ایسی حقارت بھری نظرون سے دیکھے گا کہ آپ اپنی نظروں میں خود ہی گندہ پانی ہوکر رہ جائیں گے۔

رات شادی میں تھے گاڑی Valet Parkingکو دی واپسی پر کاؤنٹر پر پیسے دینے کے باجود گاڑی لانے والا ڈرائیور کھڑی کے پاس کھڑا رہے گا جب تک آپ سے چائے پانی وصول نہ کرلے۔ یہ مسکین چائے پانی وصولی والے ہیں ان کے برعکس زبردستی چائے پانی وصولی بھی کی جاتی ہے جن میں پولیس ، سرکاری دفاتر اور دوسرے شہری سہولیات کے دفاتر ہیں، سوک سینٹر میں کسی بھی دفتر میں چلے چائیں وصولی تحریک کے کارندے کو اپنا منتظر پائیں گے ۔

یہ بھی خطرناک اور جارحانہ مزاج کے مالک ہوتے ہیں، جیب کی طرف ہاتھ بڑھانے میں آپ نے زرا دیر لگائی اور یہ ناراض ہوئے ، اب انہیں ایک کی بجائے کئی چائے پلانی پڑیں گی، اندر بیٹھے صاحب کی چائے بھی یہی وصول کرلیتے ہیں۔ البتہ کلرک اپنی چائے پانی خود ہی وصول کرتے ہیں، اس کے علاوہ بجلی میں خرابی ہوگئی شکایت پر ٹیم آگئی، اب وہ کام شروع نہیں کریں گے جب تک چائے پانی طے نہ ہوجائے ورنہ یہ مسئلہ وہ مسئلہ ایسا رلائیں گے کہ آپ چائے پینا بھول جائیں گے ۔
اللہ ہم پر رحم فرمائیں اور اس مصنوعی چائے پانی کو ختم فرما کر ہماری پرانی روایت کو زندہ فرمادیں جس میں خلوص بھی تھا پیار بھی تھا اور دوسروں کیلئے عزت و احترام بھی تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :