منافقت یا اظہار خیال کی نام نہاد آزادی

جمعہ 23 اکتوبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

کہتے ہیں کہ شیخ چلّی سے اچھا خیالی پلاؤ کوئی نہیں بنا سکتا مگر دنیا نے یہ جانا کہ خیالی پلاؤ سے نہ تو پیٹ بھر تا ہے اور نہ ہی کوئی اور فائدہ پہنچ پاتا ہے، اس کے برعکس علاّمہ اقبال کے شعر #: عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی کو مشعل راہ بنانے والے نہ صرف اپنی منزل مقصود تک پہنچ پائے بلکہ کامیاب بھی رہے، جدا جدا تہذیبوں میں کامیابی کے معیار بھی جدا جدا ہیں ، کوئی دولت کی فراوانی کو کامیابی سمجھتا ہے تو کوئی علم کو کامیابی سمجھتا ہے کوئی دین پر عمل پیرا ہونے کو کامیابی سمجھتا ہے تو کوئی دنیا کے حصول کو۔

مگر اصل کامیابی ہے کیا؟ اس کا جواب بھی ظاہر ہے مندرجہ بالا کلام کے تناظر میں الگ الگ ملے گا، لیکن اگر ہم اسے بہت ہی Generalize انداز میں دیکھیں تو جواب یہ ملے گا کہ انسان چاہے جتنی ڈگریاں حاصل کرلے، جتنی بھی دولت کما لے لیکن اگر اخلاقی طور پر کمزور ہے تو یہ سب کمائی بیکار ہے۔

(جاری ہے)

کیونکہ گورے کو کالے پر اور امیر کو غریب پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔

مگر وہ لوگ جو کسی بھی قوم سے ہوں، کوئی بھی زبان بولتے ہوں کسی ملک میں رہتے ہوں اگر اچھے اخلاق کے مالک ہوں تو کامیاب گنے جاتے ہیں۔ یعنی انسان کی اخلاقی تربیت اور اس کا عملی مظاہرہ یہ طے کرتا ہے کہ وہ کتنا کامیاب یا ناکام انسان ہے۔
یورپین ایشیائی لوگوں کو ویسے ہی کمتر اور جاہل تصور کرتے ہیں، وہ خود کو نہایت مہذب اور اعلی تعلیم یافتہ مانتے ہیں، تعلیم کی حد تک تو ان کی بات مانی جاسکتی ہے مگر اخلاقی تربیت کے معاملے میں وہ کافی حد تک غیر متوازن اور جانبدار نظر آتے ہیں۔

اگر مدد کرنے پر آجائیں تو ایک بلی کے بچے کو بچانے کیلئے تن من دھن سب لگادیں گے اور اگر تعصب پر آجائیں تو پچاس پچاس نمازی زرا دیر میں کھلے عام قتل کردیئے جاتے ہیں اور حمایت میں کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوپاتا۔ ایسے میں اگر سامنے مسلمان ہوں تو اسلامو فوبیا کی مضبوط دیوار انہیں مسلمانوں کی حمایت سے ہمیشہ دور رکھتی ہے جو کھلی منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

گذشتہ دنوں فرانس کی خاتون اول نے حجاب پہننے پر ایک نہایت خوش شکل مسلمان لڑکی کیلئے کہا کہ بچے اسے دیکھ کر ڈر جاتے ہیں، حالانکہ وہ خود خاصی بد شکل خاتون ہیں۔ مگر محض اسلام سے نفرت کی وجہ سے اس مسلمان بچی کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔
گذشتہ جمعہ فرانس میں ایک اٹھارہ سالہ چیچن نژاد لڑکے نے ایک اسکول ٹیچر کا سر قلم کر ڈالا، گوکہ پولیس نے اسے موقع پر ہی گولی مار دی تھی، مگر جیسے پورے فرانس میں ٹیچر کی حمایت میں ایک طوفان امڈ آیا، یہاں تک کے فرانس کے صدر مارکون تک ان مظاہروں میں شریک رہے۔

بہت اچھی بات ہے مگر کسی نے بھی ان علامات پر غور کیا جن کی وجہ سے ایک اٹھارہ سالہ لڑکا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوا، یہاں تعلیم ، تربیت، ترقی سب منافقت تلے دب کر رہ گئی ہر شخص بس ٹیچر پر ہونے والے ظلم کا رونا رو رہا تھا، انصاف کرنے کو کوئی بھی تیار نہ تھا۔ اس لڑکے کے والد نے بتایا کہ وہ ٹیچر کلاس میں بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے متعلق بہت سی من گھڑت نازیبا باتیں بتاتا تھا اور کارٹون دکھاتا تھا، جس پر اسکول انتظامیہ کو درخواست بھی دی گئی تھی کہ اس کو ان حرکتوں سے روکا جائے، مسلمانوں کی شدید د ل آزاری ہوتی ہے مگر اسکول انتظامیہ نے کوئی قدم نہ اٹھایا اور وہ ملعون نبی پاکﷺ کی شان میں مسلسل گستاخی کا مرتکب ہوتا رہا آخر کار اس لڑکے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور گذشتہ جمعہ اس نے اسکول کے سامنے اس کی گردن کاٹ کر پھینک دی۔


امر استعجاب یہ ہے کہ خود کو حقوق انسانی کا چیمپئن اور تعلیم و اخلاق کا پیکر ماننے والے فرانسیسی یہاں نا انصافی ماننے کو تیار نہیں اور پوری ڈھٹائی سے مسلمان لڑکے کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ایک جانور کی آسانی کے لئے تو لاکھوں یورو خرچ کرسکتے ہیں ایک بلی کی مدد کے لئے ہزاروں لوگ نکل سکتے ہیں مگر ایک مسلمان لڑکے کی درخواست پر کوئی ایکشن نہیں لے سکتے۔

بلکہ الٹا اسے ہی قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔
کیونکہ دل و دماغ پر تو اسلام دشمنی کا پردہ پڑا ہوا ہے تو انصاف بھلا کیسا، یہاں ساری تعلیم، تہذیب ، سارے اصول اور ساری ڈگریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں بس مسلمان دشمنی رہ جاتی ہے، منافقت رہ جاتی ہے، یا اسلامو فوبیا رہ جاتا ہے۔
اگر بات کی جائے تو اپنے دفاع میں نہایت کمزور دلائل کے ساتھ ڈھٹائی سے جمے رہتے ہیں، کہ اظہار خیال کی آزادی ہمارا بنیادی حق ہے، بالکل صحیح مگر اس آزادی کی تان اسلام، مسلمان اور خاص طور پر رسول اللہ ﷺ پر آکر ہی کیوں ٹوٹتی ہے، اگر آپ اتنے ہی انصاف پسند لبرل، اور آزادیء اظہار کے پروردہ ہیں تو اپنے ماں ، باپ، دادا ، دادی یا اور بڑی عمر کے لوگ مل جائیں گے ان کے کارٹون بناؤ، ان کی برہنہ تصاویر سے بچوں کی تربیت کریں یا پھر دنیا بھری پڑی ہے مشہور لوگوں سے مگر یہ رسول اللہ ﷺ ہی کو بار بار کیوں منتخب کیا جاتا ہے۔

کیا ان کے ملک میں کوئی ضابطہء اخلاق نہیں جو یہ بتا سکے کہ کسی کے بڑے کی حیثیت عرفی کرنا کتنا تکلیف دہ اور گھناؤنا کام ہوتا ہے، اور اظہار خیال کی آزادی کی طبع آزمائی کہیں اور بھی تو کی جاسکتی ہے آپ تو ہر مشکل سے آزاد ہیں ماں بچے ساحل پر سب ننگے ہوتے ہیں آپ کے بیچ کونسی آڑ ہے جو آ پ دوڑے چھوٹے مسلمانوں یا نبی پاک ﷺ کو ہی تنقید یا مذاق کا نشانہ بناتے ہو، کیا یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ ان باتوں سے مسلمانوں کو کتنی نفسیاتی اور روحانی اذیت ہوتی ہوگی، جب آپ کیڑوں، سانپ بچھو، خونخوار درندوں تک پر مہربانی کے ریکارڈ توڑ سکتے ہو تو مسلمانوں کے معاملے میں دوہرے معیار کو کیوں اپنایا جاتا ہے۔

مسلمانوں کے معاملے میں ہی سب کچھ ایک دم کیوں بدل جاتا ہے، یہ کھلی منافقت نہیں تو کیا ہے؟ مسلمان بھی انسان ہیں اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی حرمت پر جان قربان کردینا عین سعادت سمجھتے ہیں، اب یہ بات ان کی سمجھ میں یوں بھی نہیں آسکتی کے وہ تو اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتے تو دوسروں کے بڑوں کی کیا عزت کریں گے، اور اگر بات مسلمانوں کی ہو تو ناانصافی ، منافقت و جہالت کے ریکارڈ قائم کئے جاسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :