غربت، مہنگائی اور بیماریاں

اتوار 22 نومبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

یوں تو ملک بھر میں مہنگائی کی ہاہاکار مچی ہوئی ہے، جسے دیکھو مہنگائی کا رونا روتا نظر آتا ہے، متوسط اور نچلے طبقے کی حالت تو واقعی قابل رحم ہے، جہاں دیکھیں مہنگائی نے ایک الگ محاز کھول رکھا ہے، کوئی اشیاء خورد و نوش کی گرانی کا رونا روتا نظر آتا ہے تو کوئی پانی، بجلی کے بلوں کو کوس رہا ہوتا ہے، تو کوئی سبزی دال کو لیکر دھائی دے رہا ہوتا ہے۔

مگر اس شور غوغا کے درمیان سب سے اونچی تال جس کی لگی ہوتی ہے وہ ہے آٹا اور دوسرے نمبر پر چینی۔ باقی سب کی حیثیت ثانوی سی ہے۔ مگر حیرت انگیز طورپر جس پر کے متعلق نا ہونے کے برابر بات ہوتی ہے وہ ہے دواؤں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتیں۔ یہ ایک متعجب کردینے والا عوامی رویہ ہے، جس کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی یا بہت ممکن ہے کہ دوسری پریشانیوں نے اتنا الجھا کر رکھ دیا ہو کہ لوگ اپنی تکلیف و بیماری کو ہی بھول بیٹھے ہوں۔

(جاری ہے)

زندہ رہنے کیلئے جتنی غذا ضروری ہے دوا اور علاج بھی اتنا ہی اہم و ضروری ہے۔ بالخصوس جب کہ انسان کسی پرانے عارضے میں مبتلا ہو۔ دیرینہ بیماریوں کی صورت میں مریض کیلئے نہایت ضروری ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دواؤں کو مسلسل اور مستقل استعمال کرتا رہے ورنہ نتیجہ صحت کی خرابی اور پھر معذوری یا موت بھی نکل سکتا ہے۔ جبکہ کبھی کبھی حادثات اور عمومی بیماریاں بھی جان لیوا ہو جاتی ہیں۔

اس صورت میں دواؤں کا مہنگا ہونا ایک بڑے طبقے کی پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔ موجودہ صورتحال کے متاثر لوگوں کے دو عمومی طبقے وجود میں آئے ہیں۔ ایک جو ڈاکٹر کی تجویز کردہ خوراک سے کم مقدار میں دوا لیں تاکہ کچھ بچت ہوجائے دوسرا وہ جو دوا مہنگی ہونے کے سبب دوا خریدنے کی استطاعت ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ اور وہ دوا بالکل ہی لینا چھوڑ بیٹھتے ہیں۔

جو بذات خود ایک نہایت ہی تکلیف دہ اور افسوسناک بات ہے۔ بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس وجہ سے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ بدترین بدحالی اور خطرناک بیماریوں کا شکار ہوجائے، جو صحت کے عمومی معاملات میں مذید ابتری و گراوٹ کا سبب بن سکتا ہے۔
دنیا بھر میں فلاحی ریاستیں جہاں اپنے شہریوں کی دیگر بنیادوں ضرورتوں کی فراہمی کا اہتمام و انتظام کرنے کو یقینی بناتی ہیں وہیں صحت ، خوراک اور تعلیم ان کی اولین ترجیحات ہوتے ہیں اور وہ اس ضمن میں اپنے شہریوں کی ہر ممکن معاونت و مددگار رہتی ہیں۔

عام آدمی کیلئے صحت کی سہولیات ، خوراک کی فراہمی ، معذوری کے معاؤضہ کی فوری ادائیگی، اور بڑھاپے کے وظیفے کے اجرا ء کا آسان اور کارگر نظام کی موجودگی عام آدمی کی زندگی کو آسان اور خوشگوار بنانے کا سبب ہوتی ہے۔ یہ سب سہولیات کے لئے عوام کو در در کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑتی بلکہ یہ ان کے دروازے پر موجود ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر مملکت اسلامی ہو تو یہ پکی ریاست کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کا ہر طرح سے خیال رکھے، خوراک، صحت اور تعلیم کے معاملات کا خودکار خبرگیری نظام کی موجودگی یقینی ہونا چاہئے۔

جو ان سہولیات کی موجدگی کو سب کی دستر س میں پہنچانے کا آسان اور کارآمد طریقہ رائج اور متحرک کرسکے۔
اس ضمن میں اقوام متحدہ کا بھی یہی عندیہ ہے کہ صحت و خوراک کی سہولت ہر انسان کیلئے بلاتفریق آسانی سے مہیا ہو ۔ بالخصوص دواؤں کی فراہمی آسان اور مناسب قیمتوں پر مہیا کیا جانا ہو۔ اس کے برعکس پاکستان میں دواؤں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جو بنیادی اور لازمی استعمال کی ادویات کو بھی مریضوں کی دسترس سے دور لیجانے کا سبب بن رہا ہے۔

جن میں کچھ ادویات کی قیمت سو فیصد اور کچھ 218% فیصد تک بڑھی ہیں۔ یہاں تک کہ کھانسی نزلے کے عام شربت کی قیمت بھی 105% اور وٹامن B-1, B-6, اور B-12کی قیمتوں میں بھی 85% تک بڑھی ہیں، جو عام آدمی کیلئے پریشان کن اور تکلیف کا سبب ہیں کہ اب وہ معمولی دوا بھی خریدنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں۔ یہ ایک تازیانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بہت ممکن ہے کہ اس کی وجہ روپے کی قدر میں کمی بھی ہو، خام مال کی ملک میں پیداوار کا نہ ہونا ہو، درآمد مہنگی پڑتی ہو، مگر کچھ DRAP کی انتظامی کمزوریاں اور زائد منافع خوری کے ساتھ ساتھ بدعنوان ارباب اختیار بھی اس مذموم عمل کا حصہ ہو سکتے ہیں جس نے عام آدمی کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔


حکومت کی عدم دلچسپی اور ذمہ داری سے انحراف بھی اس کا بڑا سبب ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ عام مشاہدات ہین جو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار سے کون واقف نہیں جن کی تعمیر و ترویج کا مقصد ہی عام آدمی کو مفت علاج کی سہولت پہنچانا ہوتا ہے۔ مگر ایسا بہت ہی کم ہوپاتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت مذبح خانوں سے بھی بدتر ہے۔

عورتیں سخت سردی میں اسپتال کے باہر زمین پر بچے جننے پر مجبور ہیں۔ دوائیاں باہر سے خرید کر لانی پڑتی ہیں، ڈاکٹرز اور دیگر عملے کا رویہ مریضوں کے ساتھ نہایت تحقیر آمیز اور غیر انسانی ہوتا ہے۔ نچلا عملہ اور بہت سی بے ضابطگیوں میں ملوث ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر سرکاری شفاء خانہ کسی گاؤں یا پس ماندہ علاقے میں ہو تو پھر سمجھیں کہ وہاں تو بس جنگل کا راج ہی ہوگا، ڈاکٹرز عموما آتے ہی نہیں، عملہ تمیز سے عاری، سہولتیں ندارد یا نا کے برابر، دوائیں تو سرے سے ہی غائب، جبکہ دنیا بھر سے صحت کے شعبہ کی معاونت کیلئے بہت بڑی تعداد میں فنڈز مہیا کیئے جاتے ہیں جو 85% ان اداروں کے عملہ کی تنخواہوں کی مد میں خرچ ہو جاتے ہیں اور صرف 15% دواؤں کی خریدداری کیلئے بچتا ہے وہ بھی بے ایمانی و بد انتظامی کی نظر ہو جاتا ہے۔

جو بذات خود نہایت افسوسناک بات ہے۔ صحت حکومت وقت کی اولین ترجیحات میں ہونا چاہیئے۔ اس ضمن میں سخت اور فوری اقدامات کی شدید ضرورت ہے، ایماندار اور ذمہ دار لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی جانی چاہئے، ایک مکمل اور قابل عمل لائحہ عمل ترتیب دیا جانا چاہئے، اور اس پر سختی سے عمل یقینی بنایا جانا چاہئے، صحت کے تمام شعبوں کی کارکرگی کو مستقل بنیادوں پر نگرانی میں رکھ کر کارکردگی کی جانچ مستقل بنیادوں پر کی جائے تو شعبہ صحت کے کی کارکرگی کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

کمیٹی مستقل بنیادوں پر کارکردگی کی جانچ کرتی رہے اور رپورٹ ارباب اختیار کو پیش کرتی رہے جس میں ادویات کی یقینی فراہمی، قیمتوں کا تعین، اور بلیک مارکیٹنگ کا سدباب اور سخت قوانین اور ان کے نفاز کے ساتھ ساتھ چور بازاری پر سخت سزاؤں کا دیا جانا بھی یقینا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مریضوں کی فلاح و بہبود کیلئے حکومتی سطح پر قومی اداروں کا قیام اور ان میں سہولیات کی جودگی کو یقینی بنایا جانا بھی نہایت ضروری ہے۔ ورنہ غریب و متوسط طبقہ دوا لینے کی بجائے موت کو گلے لگانے پر مجبور ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :